Home اسلامیات اعتکاف: وہ عظیم سنت جسے رسول اللہﷺ نے کبھی نہیں چھوڑا-مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

اعتکاف: وہ عظیم سنت جسے رسول اللہﷺ نے کبھی نہیں چھوڑا-مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

by قندیل

رمضان المبارک میں جو عبادتیں خاص طور پر انجام پذیر ہوتی ہے ہیں، ان میں سے ایک اہم عبادت اعتکاف بھی ہے،، رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ ہے۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اعتکاف کی عبادت اس قدر محبوب تھی کہ آپ نے رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت کے بعد اخیر عشرہ کا اعتکاف کبھی نہیں چھوڑا۔ ایک مرتبہ بعض اعذار کی وجہ سے سے چھوٹ گیا تو اگلے سال آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ یہ عمل درحقیقت امت کو ترغیب دینے کے لیے اور اعتکاف کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے تھا ورنہ ظاہر ہے کہ سنت کی تو قضاء نہیں ہوتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان میں دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے، اور جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا۔( بخاری: ۱۹۰۳)
حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم يعتكف العشر الأواخر من رمضان (صحیح بخاری، حدیث:۲۰۲۵) یعنی رسول اللہ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا کرتے تھے.
اعتکاف کی عبادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر محبوب تھی کہ آپ نے تا حیات اعتکاف فرمایا اور آپ کے اس عمل کی اتباع میں حضرات امہات المومنین بھی اپنے گھروں میں اعتکاف کیا کرتی تھیں،چنانچہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا۔ پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات (بیویاں) بھی اعتکاف کرتی رہیں۔ ( متفق علیہ)
اعتکاف کے فضائل اور اجر وثواب بہت ہی زیادہ ہیں۔ عام ایام میں بھی مساجد میں اعتکاف کیا جاسکتا ہے، اس کا بھی بڑا اجر ہے، طبرانی کی معجم اوسط میں ہے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کی رضا کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کو آڑ بنا دیں گے، ایک خندق کی مسافت آسمان وزمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ اعتکاف کرنے والا جب تک اعتکاف میں رہتا ہے ،مسجد میں ہونے کی وجہ سے بہت سے گناہوں سے بچا رہتاہے، جن کو وہ باہر رہ کر کرسکتا تھا اور وہ نیک اعمال جسے وہ مسجد سے باہر رہ کر کرتا تھا، جیسے: مریض کی عیادت اور جنازہ کی نماز میں شرکت ،مگر اب اعتکاف کی وجہ سے نہیں کر سکتا تو ناکردہ عبادتوں کا بھی اعتکاف کرنے والے کو پورا ثواب ملے گا۔ (ابن ماجه)

یہ اجر وثواب تو عام نفل اعتکاف کا ہے
سبحان اللہ! ایک دن کے اعتکاف کی فضیلت یہ ہے تو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے اعتکاف کی کیا فضیلت ہوگی ؟ خوش قسمت ہیں و ہ لوگ جورمضان کی مبارک گھڑیوں میں اعتکاف کرتے ہیں اور مذکورہ فضیلت کے مستحق قرار پاتے ہیں.. دیگر اعتکاف کے بالمقابل رمضان المبارک میں کیا جانے والا سنت مؤکدہ اعتکاف اپنے آپ میں بڑی عظمت، فضیلت اور اہمیت رکھتا ہے،،اس لیے کہ رمضان المبارک میں تمام اعمال کا اجر ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے. اعتکاف کی حالت میں شب قدر کو پانے اور اس میں عبادت کرنے کے مواقع و امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں.. اللہ تعالیٰ سے راز ونیاز اور تجلیات وانوار وبرکات سے دامن پر کرنے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :من اعتكف عشرا في رمضان كان حجتين وعمرتين”. (شعب الایمان: ۳۲۸۰)

یعنی جوشخص رمضان کے دس دنوں کا اعتکاف کرتا ہے، تو (اس کا یہ عمل ) دو حج اور دوعمرے کی طرح ہے ( یعنی اسے دو حج اور دوعمرے کا ثواب ملے گا)۔
اسی طرح ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من اعتكف إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه”. (فيض القدير / ۳) ترجمہ: جوشخص ایمان کی حالت میں ،ثواب کی امید کرتے ہوۓ اعتکاف کرتا ہے، اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں بحالت اعتکاف عبادت کے لئے اتنی محنت اورمشقت اٹھاتے کہ دوسرے دنوں میں اتنی کوشش نہ کرتے تھے۔ [صحیح مسلم ،الاعتکاف)
اعتکاف کی غرض وغایت
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ کا اعتکاف خاص طور پر لیلۃ القدر کی تلاش اور اس کی برکات پانے کے لیے فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رمضان کے آخری دس دنوں میں لیلتہ القدر کو تلاش کرو۔ (صحیح بخاری:۱۸۸۰)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا اور ہم نے بھی اعتکاف کیا، حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آۓ اور کہا کہ آپ کو جس کی تلاش ہے وہ آگے ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے عشرہ کا بھی اعتکاف کیا اور ہم نے بھی کیا، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو بتایا کہ مطلوبہ رات ابھی آگے ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: جومیرے ساتھ اعتکاف کر رہا تھا اسے چاہیے کہ وہ آخری عشرے کا اعتکاف بھی کرے مجھے شب قدر دکھائی گئی، جسے بعد میں بھلا دیا گیا اچھی طرح یاد رکھو! لیلہ القدر رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں ہے ۔ ( صحیح بخاری: ۲۰۲۷)

خلاصہ یہ ہے کہ اعتکاف سے مقصودلیلۃ القدر کو پانا ہے جس کی فضیلت ہزار مہینوں سے زیادہ ہے، نیز اس حدیث میں لیلتہ القدرکو تلاش کرنے کیلیے آخری عشرہ کا اہتمام بتایا گیا ہے جو دیگر احادیث کی رو سے اس عشرہ کی طاق راتوں میں ہیں، لہذا بہتر تو یہی ہے کہ اس آخری عشرہ کی ساری راتوں میں بیداری کا اہتمام کرنا چاہیے.. اعتکاف میں اس کے زیادہ مواقع ملتے ہیں۔

کیا اعتکاف کا حکم ایک آدھ آدمی کے لیے ہے؟

اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حضرت رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے اکیلے اعتکاف نہیں کیا تھا بلکہ صحابہ کی ایک جماعت بھی آپ کے ساتھ اعتکاف کررہی تھی، اعتکاف کا یہ حکم ہر مسجد کے ایک آدھ آدمی کے لیے نہیں تھا بلکہ اس حکم کے مخاطب تمام امت تھی، یہ صحیح ہے کہ تمام صحابہ معتکف نہیں تھے بلکہ کچھ منتخب صحابہ اعتکاف کررہے تھے،، اسی سے یہ مسئلہ اخذکیا گیا کہ اعتکاف سنت مؤکدہ تو ہے،،، اس کی بڑی تاکید ہے البتہ یہ علی الکفایہ ہے یعنی ہر فرد کے لیے لازم نہیں ہے یعنی کچھ افراد اگر کسی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکیں تو گناہ گار نہیں ہوں گے،، لیکن اس مفہوم میں اس حد تک تحریف کردی گئی کہ اصل مقصود ہی ضائع ہوگیا،، علی الکفایہ کا غلط طور پر یہ مطلب سمجھا یا سمجھا یا گیا کہ بس ایک آدمی کو خواہی نخواہی اعتکاف میں بیٹھا دیا اور سنت مؤکدہ سب سے ساقط،!؟ جب کہ جنازہ کی نماز میں کفایہ کا مفہوم درست سمجھا جاتا ہے، اور یہ جاننے کے باوجود کہ یہ فرض کفایہ ہے، صرف ایک دو آدمی پر اکتفا نہیں کیا جاتا ہے بلکہ بالعموم جم غفیر کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے! ضرورت ہے کہ سنت مؤکدہ کفایہ کے صحیح مفہوم کو عام کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ افراد کو رسول اللہ کی اعتکاف کی عظیم اور تاکیدی سنت پر عمل کی ترغیب دی جائے۔
حکمت ومصلحت
شریعت اسلامیہ میں جن عبادتوں کا حکم دیا گیا ہے، ان میں خدائے حکیم و خبیر نے بڑی حکمتیں رکھی ہیں ، اعتکاف بھی ایک عظیم عبادت ہے، جس کی عظیم حکمتیں ہیں، اعتکاف کرنے والاخود کو فرشتوں کے مشابہ بنانے کی کوشش کرتا ہے اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کرتا ، اعتکاف میں معتکف اللہ کے تقرب کی طلب میں، اپنے آپ کو بالکلیہ اللہ تعالی کی عبادت کے سپرد کر دیتا ہے اوراپنے آپ کو اس دنیا کے مشاغل سے دور رکھتا ہے، ، اور اس میں معتکف اپنے تمام تر اوقات میں حقیقتا یا حکما نماز میں مصروف رہتا ہے؛ اعتکاف کی مشروعیت کا اصل مقصد نماز باجماعت کا انتظار کرنا ہے اور معتکف اپنے آپ کو ان فرشتوں کے مشابہ بناتا ہے، جو اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے، انھیں جو کام ہوتا ہے وہی کرتے ہیں اور رات ودن اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں. اسی طرح رمضان المبارک کے اعتکاف کا ایک مقصد شب قدر کی جستجو بھی ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ اعتکاف کا مقصد یوں بیان فرماتے ہیں کہ جب انسان کے افکار اور اذہان مختلف باتوں سے پراگندہ (میلے کچیلے) ہوجاتے ہیں اور لوگوں کے میل جول سے آدمی سخت پریشان ہوجاتا ہے تو اس پراگندگی اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اعتکاف کو مشروع فرمایا ہے، اعتکاف کرنے والا آدمی عام لوگوں سے علیحدگی اختیار کرکے مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر عبادت و ریاضت میں مصروف ہوجاتا ہے، جس کی بدولت اس کی ذہنی پریشانی اور قلبی بے چینی دور ہوجاتی ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ)
اللہ تعالٰیٰ کی قربت و رضا کے حصول کے لیے گزشتہ امتوں نے نفلی طور پر بعض ایسی ریاضتیں اپنے اوپر لازم کر لی تھیں، جو اللہ نے ان پر فرض نہیں کی تھیں۔ قرآن حکیم نے ان عبادت گزار گروہوں کو ’’رہبان‘‘ اور ’’احبار‘‘ سے موسوم کیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تقرب الی اللہ کے لیے رہبانیت کو ترک کر کے اپنی اُمت کے لیے اعلیٰ ترین اور آسان ترین طریقہ عطا فرمایا، جو ظاہری خلوت کی بجائے باطنی خلوت کے تصور پر مبنی ہے۔ یعنی اللہ کو پانے کے لیے دنیا کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی محبت کو دل سے نکال دینا اصل کمال ہے۔یہ مقصد اعتکاف کے ذریعے کامل ومکمل شکل میں پورا ہوتا ہے۔

You may also like

Leave a Comment