Home تجزیہ عید کی خریداری کے نام پر سازش کے شکار نہ ہوں!

عید کی خریداری کے نام پر سازش کے شکار نہ ہوں!

by قندیل

محمد شارب ضیاء رحمانی

جب سے مزدوروں کی نقل مکانی شروع ہوئی ہے،کورونا کے کیسز تیزی سے بڑھے ہیں،پچھلے بارہ دنوں میں 67فی صد کیسز آئے ہیں،لیکن اس کے باوجود کچھ ریاستوں میں پبلک ٹرانسپورٹ شروع کردیاگیاوہ بھی بالکل غیرمعقول طریقے سے،دہلی میں کجریوال سرکار کے مطابق اگر بیوی شوہر کو ساتھ جاناہو تو آٹو الگ الگ کریں گے،مریض اگر ہوتو آٹو سے اکیلے کیسے جائے گا،دو آدمی ہوں تو دو ای رکشہ یا دو آٹوکرناہوگا،اندازہ لگائیے کہ جیب پر کیسا بوجھ پڑے گا،جو ای رکشہ دس روپیے کے حساب سے پانچ لوگوں سے پچاس روپیے لیتا تھا اب اکیلے دینا ہوگا،جب کہ جیب خالی ہے،اس طرح کا احمقانہ فیصلہ کنفیوژن کا نتیجہ ہے،جس بس اسٹینڈ پر پچاس سو کی بھیڑ رہتی ہو وہاں بیس کی سواری کے ساتھ کی شرط غیرعملی ہے،اور ہاں 3ماہ سے تنخواہ نہ ملنے پرکچھ ڈرائیور ہڑتال پر ہیں،بہت ساری بسیں سرکاری ڈیوٹی پر لگی ہیں تو سوچ لیجیے کہ بس کی سہولت کتنی ملے گی اوراسٹینڈپربھیڑ کیسی ہوگی،مزید میٹرو بھی بند ہے جس سے ٹریفک کابحران بڑھے گا،جب سب کچھ کھول ہی دیا تو میٹرو نے کیا گناہ کیاتھا،بس میں بیس لوگ اوربس اسٹینڈ پر سینکڑوں لوگ جمع ہوسکتے ہیں لیکن مسجد میں جائیں گے تو دقت ہوگی؟
سب سے اہم بات کہ بازار مکمل طور پر کھول دییے گئے ہیں،کپڑے سمیت ساری دکانیں کھلی ہیں،بھیڑ بڑھنے لگی ہے،اگر پبلک ٹرانسپورٹ کھولنا ہی تھا تو بازار کی کیا جلدی تھی،یہ ایک سازش ہے،غورکیجیے کہ یہ سب زیادہ تر یاتو بی جے پی ریاستوں یا اس کے ہم نوائوں کی ریاستوں میں شروع کیاگیاہے،کرناٹک،دہلی اس کی مثالیں ہیں ـ
دہلی میں بازار کھلنے پر ایک دن میں 500سے زائد کیسز آئے ہیں جو اب تک کی سب سے زیادہ شرح ہے-
رمضان کے باقی بچے چند دن میں بڑے ساہوکار جم کر کمائیں گے،بارہامنع کے باوجود مسلمان بھی نکل رہے ہیں، مسلمانوں کو سنجیدگی سے سمجھنا ہوگا کہ ماہ مبارک میں جب مسجدیں بند ہیں،عید کی نماز کی اجازت نہیں تو مارکیٹنگ سے ہم سنگھیوں کے بزنس مین کی مدد کررہے ہیں اوراس سازش کا حصہ بن رہے ہیں جس کے بعد کیسز بڑھنے کا سارا الزام مسلمانوں پر آئے گا،مزدوروں کے ہجوم، بدانتظامی، ریلوے اسٹیشن، ریاستوں کی سرحداور بس اسٹینڈ کی بھیڑ کا جو نتیجہ ہونے والا ہے،وہ عادت اور فطرت کے مطابق ایک کمیونیٹی کے سرڈالاجانے والاہے-ہر ایک کی ذمے داری ہے کہ بازاروں سے بچ کر ہم اپنے آپ کوبچائیں اور ضروریات کو کم کرکے ساہوکاروں کو بھی اقتصادی مار لگائیں،عید کے دن رشتے داروں اور دوستوں سےملاقات اور ادھر ادھر جانے سے مکمل پرہیز کریں،ذمے داری سمجھ کر ہر ایک کو شیئر کریں اور مکمل اقتصادی بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ احتیاط،خود کی حفاظت اور گھر میں رہنے کے لزوم کی ترغیب دیں ـ

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment