بعض "دانشور” (علما اور غیر علما کیٹیگری) کو دستور ہند منافقت کا پلندہ نظر آتا ہے ! بقول ان کے اس کے تحفظ کے لئے اٹھنا سڑکوں پر نکلنا احتجاج اور مظاہرے کرنا اس لئے ضروری نہیں ہے کہ یہ دستور ‘ خلافت علی منہاج النبوۃ’ کی توثیق نہیں کرتا، یہ دستور حکومت الہیہ اور اسلامی ریاست کے قیام میں حائل ہے۔
میں بھی کچھ کہوں ؟ ایسے لوگ ‘جاہل مطلق ‘ ہیں،عقل سے پیدل ہیں اور زمینی حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ رد عمل کی حد بھی متعین ہے اگر وہ معقول حد سے تجاوز کرتا ہے، تو اسے بغض، عناد اور جانبدارانہ کہا جاتا ہے۔
١- ہندوستان کا یہ دستور دنیا کے مختلف ممالک کے دساتیر کو سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا تھا۔ اسلامی نظام عدل اور مساوات سے سب سے زیادہ قریب امریکی دستور ہے نہ کہ کسی مسلم ملک کا دستور۔ نام رکھنے سے کوئی ملک اسلامی نہیں ہوتا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جن ممالک میں جتنا زیادہ ظلم و جبر کا نظام ہوتا ہے ان کے نام اتنا ہی گمراہ کن مگر پرکشش ہوتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان : وہاں اسلام کس درجہ میں ہے اس سے سب واقف ہیں۔ People’s Democratic Socialist Republic of Libya, وغیرہ وغیرہ۔ جنوبی کوریا ایک جمہوری ملک ہے لیکن نام سادہ سا ریپبلک آف کوریا ہے جبکہ استبدادی نظام والے شمالی کوریا کا نام عوامی جمہوریہ کوریا ہے۔
٢- کیا دنیا میں کوئی ایسا مسلم ملک ہے جہاں حقیقی نظام عدل و مساوات ہے ؟ جہاں حقیقی اور عملی شوری ہے؟ جہاں کی حکومت ‘ خلافت علی منہاج النبوۃ’ کی ترجمانی کرتی ہے، جہاں ‘ حکومت الہیہ’ قائم ہے؟ اگر نہیں تو پھر ایک جمہوری ملک میں،جہاں کی ٨٠ فیصد اکثریت ہندو ہے وہاں آپ کو تمام تر فرد کی آزادی بشمول مذہبی آزادی تقریر و تحریر اور اظہار رائے کی آزادی معاشی یعنی اپنی مرضی کی تجارت ملازمت زراعت اور پیشہ اختیار کرکے روزی روٹی کی بندوبستی کرنے کی آزادی سکونت یعنی ملک کے طول و عرض میں کسی بھی جگہ اپنی مرضی سے بسنے کی آزادی کی ضمانت یہی دستور دیتا ہے۔
ہر زمانے میں اکثریتی طبقہ کے بعض گروہ اس دستور کے سیکولر روح کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن ایسا کرنا کسی بھی حکومت کے لئے ممکن نہیں تھا۔ آج اگر حکومت یا بعض متعصب عناصر احیا پسند ہندو ایسی کوئی کوشش کرے تو اس کی مزاحمت کرنے کا حق اسی دستور نے دیا ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اس ملک میں باقی تھی ہے اور رہے گی اس کا انحصار اس ملک کے دستور اور اکثریتی فرقہ کے روادارانہ مزاج اور انسانیت دوستی رویہ پر ہے۔
اس لئے دستور کی حفاظت اس ملک کی حفاظت کے مترادف ہے۔ جنہیں اپنے اس ملک عزیز اور اس کے دستور میں خامی نظر آتی ہے وہ دوسرے نام نہاد اسلامی ملک کی صورت حال اور ان ممالک میں اخوت اسلامی کا ٹیسٹ ویزے کے متعین ایام سے ایک گھنٹہ بھی زیادہ رہنے کی کوشش کر کے دیکھ لیں آٹے چاول کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ اگر ان ممالک کا سفر نہیں کرسکتے تو جو لوگ ملازمت یا تجارت کے لئے وہاں مقیم رہ چکے ہیں ان سے احوال واقعی معلوم کر لیں۔
ایک اور بات سن 47کی آزادی کی لڑائی کے چشم دید گواہوں سے جاننے کا خواہاں ہوں کہ کیا اس دور میں بھی نام نہاد شرفا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کی اکثریت منظر عام پر آنے سے کتراتے تھے۔ آخر حق کی آواز میں آواز ملانے والے اور نصرت کرنے والے غریب ماہی گیر ہی کیوں پیش پیش ہوتے ہیں۔