متعلمہ شعبہ اردو نیتیشور کالج، مظفرپور
اسلام نے عورت کو بڑا مرتبہ عطا کیا ہے ۔اس نے عورت کو تعلیم یافتہ ہونے کا حق دیا ہے ۔ایک بہتر سماج کے لئے مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے ۔
ارشاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے علم حاصل کرنا مرد و عورت دونوں پر فرض ہے ۔عورت اور مرد سے ہی معاشرہ قائم ہے ۔ان میں سے کسی ایک کے بغیر معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا ہے ۔اس معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے دونوں کا کردار اہم ہے۔ عورتوں کی بنیاد تعلیم کا مقصد انہیں علم سے آگاہی اور ان کی اچھی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے ۔عورتوں کی تعلیم جس میں دین و مذہب ، اخلاق و کردار کی اصلاح شامل ہوتی ہے ۔عورت تعلیم کے ذریعہ ہی اپنے حقوق و فرائض کی پہچان سکتی ہے ۔آج عورتوں کی تعلیم پر زور دیا جا رہا تاکہ وہ اپنی منزلوں کو چھو سکے ۔بقول نپولین بونا پارٹ:
"بہترین قومیں بہترین مائیں ہی بنا سکتی ہیں "
عورتوں کی تعلیم سے ہی کسی ملک میں معاشی و اقتصادی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے ۔اسی طرح کسی قوم کی ترقی و خوشحالی کا انحصار عورت و مرد کی تعلیم پر مبنی ہے۔سب سے بہترین درسگاہ ماں کی گود ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر ایک کامیاب مرد کے پیچھے اس کی ماں کی تربیت کار فرما ہے جو وہ بچپن سے دیتی ہے ۔عادل ماں کا بیٹا عموماً عادل ہی ہوتا ہے کیونکہ عدل اس کی گھٹی میں ہوتا ہے ۔اگر وہ بہک بھی جائے تو اس کی تربیت اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ اسی طرح تعلیم یافتہ ماں اپنے بچوں کی پرورش ان پڑھ ماں سے بہتر انداز میں کر سکتی ہے ۔اور زندگی کے ہر موڑ پر ان کی ڈھال بن سکتی ہے۔ایک تعلیم یافتہ ماں ہی اپنی اولاد کی بہترین تربیت کر سکتی ہے اور معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکتی ہے، ناگزیر حالات میں اپنے بچوں کی کفالت کر سکتی ہے ،غربت کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتی، اور اپنے لئے ذریعہ معاش پیدا کر سکتی ہے. کسی بھی قسم کے حالات کو چیلینج کے طور پر قبول کر سکتی ہے. اس کے برعکس اگر وہ تعلیم یافتہ نہ ہو تو بے بسی اور درد کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔تعلیم عورت کو خود اعتمادی عطا کرتی ہے. اسے خود پر بھروسہ کرنا سکھاتی ہے ۔خود شناسی کی لہر پیدا کرتی ہے جس سے وہ معاشرے میں اپنی بقاء کی جنگ لڑتی ہے اور اپنے وجود کو برقرار رکھتی ہے ۔تعلیم عورت کو حقوق و فرائض کی پہچان سکھاتی ہے اور انھیں احسن طریقے سے پورا کرنے کا ہنر عطا کرتی ہے ۔
مفکرین کی راۓ میں :۔ "مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے،جب کہ عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے "
علامہ اقبال کی فارسی شعر کا کا مفہوم ہے :۔قوموں کو کیا پیش آ چکا ہے؟ کیا پیش آ سکتا ہے ؟
اور کیاپیش آنے والا ہے یہ سب ماؤں کے جبینوں سے دیکھا جا سکتا ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام فرمایا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن عورتوں کی تعلیم و تربیت کے بھی مخصوص فرما دیا تھا ۔ازواج مہطرات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی باتیں سیکھ کر دیگر مسلمان خواتین کو سکھاتی تھیں۔ یوں دین کی تعلیم عورتوں تک بھی باقاعدہ پہنچتی رہی۔ تعلیم جس طرح مرد کے ذہن کے دریچوں کو کھولتی ہے اسی طرح عورت کے لئے بھی ضروری ہے تاکہ وہ بھی شعور کی منزلوں کو طے کر سکے ۔ بہت ساری جگہوں پر عورت کو اس کے حق سے محروم کیا گیا ہے جہاں عورت کے لیے نہ تو عزت کا مقام اور نہ ہی اسے جائز حقوق حاصل ہیں. اسے بھیڑ بکریوں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے سب سے زیادہ رکاوٹ اس عمل میں یہ ہے کہ عورت علم حاصل کر کے ہم پر حکومت کرنے لگ جائے گی وہ بغاوت اختیار کرے لے گی اور ایسا وہاں ہی ہوتا ہے جہاں انسانی حقوق کے منافی نظام ہو ۔اسی لئے اس میں تعلیم کا قصور نہیں ۔اس میں فرسودہ نظام کا عمل دخل ہے جس نے صحیح غلط کے فرق کو ختم کر دیا ہے ۔تعلیم تو روشنی عطا کرتی ہے تاکہ وہ درست سمت کا تعین کر سکے ۔انیسویں صدی کے شروع تک عورتیں اور بچیاں صرف گھریلو چہار دیواریوں تک محدود تھیں مگر اب معاشرہ گواہ ہے آج والدین اپنی بچیوں کے بہتر سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ حصول تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں اور یہی بچیاں کل میڈیکل ،انجینئرنگ ،سائنس ، تجارت، بنکاری اور صحافت نیز ہر شعبہ میں اپنے کمال د کھاتی اور ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کرتی نظر آتی ہیں ۔ایک تعلیم یافتہ عورت اپنا مافی الضمیرآسانی سے دوسرے تک پہنچا سکتی ہے اور وہ اپنے خاندان معاشرتی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتی ہے ۔اور تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر ،انجینئر، پائلٹ بنتی ہے ۔
وہ قوم کسی شان کی حق دار نہیں ہے
جس قوم کی عورت ابھی بیدار نہیں ہے
خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کریں،ان کے فوائد بتائیں اور انہیں دینی اور دنیاوی تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں تاکہ ان آنے والی نسلیں بھی معاشرے میں اپنی بنیادی حقوق کے لۓ لڑسکیں اور ان سے اشتفادہ کر سکیں ۔اور معاشرے میں اتنا وقار، مرتبہ، اور اپنی عظمت کو برقرار رکھ سکیں۔کیونکہ تعلیم یافتہ خواتین ہی اپنے خاندان اور معاشرے میں خوشحالی اور مثبت تبدیلی لا سکتی ہیں۔ اور ایک جدید معاشرہ تشکیل دے سکتی ہے ۔آج کی دنیا نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کر رہی ہے اس لئے ایک پڑھی لکھی عورت ہی اس نئے ماحول سے مطابقت پیدا کر سکتی ہے ۔وہ اپنی رائے کا اظہار بہتر طریقے سے کر سکتی ہے۔عورت کی اولین ذمہ داری اس کا گھر ہے ۔وہ پڑھی لکھی ماں ،بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں اپنی ذمہ داریوں کو زیادہ بہتر طریقے سے نبھا سکتی ہے۔