( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
بھارت میں ، مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا نعرہ ، مطالبہ یا اپیل کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ جب بھی بی جے پی یا کوئی اور کٹّر ہندوتوادی سیاسی پارٹی مشکلات میں گھرتی ہے ، تو اسے مسلمان ہی یاد آتے ہیں ۔ چونکہ اس بار بی جے پی کے ساتھ پی ایم نریندر مودی بھی مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں ، وہ بھی گردن تک ، اس لیے اگر انہیں مسلمان یاد آ رہے ہیں تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے ۔ ہاں حیرت اس پر ضرور کی جا سکتی ہے کہ ، مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کے نعرے ، ملک کی معاشی راجدھانی ممبئی میں لگائے جا رہے ہیں ۔ میرا روڈ کہنے کو تو تھانے ضلع میں ہے ، لیکن تھانے کو ممبئی ہی کہا اور سمجھا جاتا ہے ، اس لیے یہ کہنا کہ ممبئی میں نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے ، غلط نہیں ہوگا ۔ واقعہ اتوار کی شب کا ہے ۔ بی جے پی کے لیڈروں نے میرا روڈ میں ، جو مسلم اکثریتی علاقہ ہے ، ایک ’ ہندو جن آکروش مورچہ ‘ نکال کر ’ لو جہاد ‘ اور ’ لینڈ جہاد ‘ کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریاست میں حقیقتاً بی جے پی ہی کی حکومت ہے ، شیو سینا کے قائد ایکناتھ شندے بس کہنے کو ریاست کے وزیراعلیٰ ہیں ، لیکن اپنی ہی حکومت میں بی جے پی ’ لو جہاد ‘ اور ’ لینڈ جہاد ‘ کے خلاف نعرے لگا رہی ہے ، مظاہرے اور احتجاج کر رہی ہے ! سوال یہ ہے کہ جب ریاست میں بی جے پی کی اپنی ہی حکومت ہے ، تو وہ جنہیں قصوروار سمجھتی ہے انہیں اٹھا کر سلاخوں کے پیچھے کیوں نہیں ڈال دیتی ؟ یا پھر یہ مان لے کہ ان کی ہی حکومت ان کی باتوں کو نہیں سُنتی ۔ اور باتیں نہ سننے کا سبب صرف یہ ہوسکتا ہے کہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یہ جو نعرہ ہے ، مطالبہ اور اپیل ہے ، یہ بےمعنیٰ ہے ، اس میں کوئی دَم نہیں ہے ، نہ کہیں ’ لو جہاد ‘ ہے اور نہ ہی ’ لینڈ جہاد ‘ ۔ کیا یہ سمجھنا درست نہیں ہوگا کہ ، یہ شہر ممبئی اور تھانے کے امن و امان کے برباد کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے ؟ شہر ممبئی ۹۳-۱۹۹۲ء کے ہولناک فسادات کے بعد سے فرقہ وارانہ کشیدگی سے بچا ہوا ہے ۔ دونوں ہی شہروں میں ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان رشتے اگر بہت محبت بھرے نہیں ہیں ، تو ان میں کھٹاس بھی نہیں ہے ۔ رہا سوال معاشی بائیکاٹ کا ، تو عروس البلاد ممبئی سے لے کر تھانے تک ، تجارتی مال و اسباب اور خریداری کا معاملہ ، دونوں ہی مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مصالحانہ انداز میں طئے پاتا ہے ، یا یہ کہہ لیں کہ نفع کے لیے دونوں ہی مذاہب کے ماننے والوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہے ۔ اور برسہا برس سے یہ ہو رہا ہے ۔ بہت سی تجارتوں میں تو دونوں ہی ایک دوسرے کے شراکت دار ہیں ۔ ہاں غریب پھیری والے ضرور اس طرح کے نعروں سے متاثر ہو سکتے ہیں ۔ اگر سیدھی بات کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی اس طرح کے نعرے اور ایسی اپیلیں صرف ماحول کو خراب کرنے ، اور اس کی آڑ میں اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے لگاتی اور کرتی ہے ۔ میرا روڈ میں شرانگیزی کی انتہا کردی گئی ، سارے نیا نگر علاقہ میں رہنے والوں کو جہادی قرار دے دیا گیا ۔ شرانگیز تقریر کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ علاقہ ’ جہادیوں‘ کا ہے اس لیے اس علاقے کے سارے مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ کیا جائے ۔ کہا گیا کہ ’ تین سلیمانی کیڑوں ‘ کا یہی ’ رام ‘ علاج ہے ۔ جنہیں ’ سلیمانی کیڑا ‘ کہا گیا وہ ’ لو جہاد ‘ ’لینڈ جہاد ‘ اور ’ تبدیلیٔ مذہب ‘ ہیں ۔ میرا روڈ میں چونکہ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہے اس لیے خاص طور پر لینڈ یعنی زمین کا ذکر کیا گیا ۔ وہاں مسلمان بسے ہیں اور آج بھی بس رہے ہیں اور زمین کی خرید وفروخت کے ساتھ تعمیراتی کاموں میں بھی لگے ہوئے ہیں ۔مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کے نعرے کا مطلب اور مقصد ماحول کو زہرآلود کرنا اور لوگوں میں خوف و دہشت پھیلانا ہے ، ریاست مہاراشٹر کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا ہے ۔ ادھوٹھاکرے کی شیوسینا نے مقبولیت میں شندے کی شیوسینا کو بھی اور فڈنویس کی بی جے پی کو بھی کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ مہاراشٹر میں رہنے والوں کو نہ شندے کی ادھو سے بغاوت بھائی ہے اور نہ ہی فڈنویس کی مہا وکاس اگھاڑی حکومت کو گرانے کے لیے سازشیں ہی اچھی لگی ہیں ۔ شندے اور فڈنویس نے ، اپنے خلاف منفی ردعمل کو ، اور اپنی حکومت کی اب تک کی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ، بی جے پی کو شرانگیزی کی شاید مکمل چھوٹ دے دی ہے ۔ ادھر مرکزی حکومت اور پی ایم مودی کو اپوزیشن بالخصوص راہل گاندھی نے اڈانی کے نام پر اس طرح سے گھیر لیا ہے کہ انہیں جواب دینا مشکل ہو رہا ہے ، اسی لیے راہل گاندھی کی برطانیہ کی سچ بیانی کو ملک دشمنی قرار دے کر وہ اور ساری بی جے پی اپنا دامن بچانے کے لیے کوشاں ہے ۔ یہ ’ ہندو جن آکروش مورچہ ‘ بھی اسی کا ایک حصہ ہے ۔ لیکن پی ایم مودی کو ، مرکزی حکومت اور بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کو یاد رہے کہ فرقہ پرستی اور نفرت و شرانگیزی انہیں بہت دن تک نہیں بچا سکتی ۔ پی ایم مودی وہ کام کریں جو ایک پی ایم کو کرنا چاہیے ۔ اڈانی کی انکوائری کرائیں ، اپنے گرگوں پر لگام کسیں اور ملک کے جمہوری ڈھانچے کو مضبوط کریں ۔ راہل گاندھی نے ان پر یہ الزام لگایا ہے کہ انہوں نے جمہوریت کو خطرے میں ڈال دیا ہے ، اس الزام کا ایک ہی جواب ممکن ہے ،جمہوریت کی بقا ، اس کی مضبوطی ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)