دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور کے بانی علامہ شاہ ابوالسعود احمد ؒ کے فرزند حضرت مولانا اشرف علی صاحبؒ کا شمار ہندوستان کے جید علماء دین میں ہوتا ہے آپ کو حکیم الملتؒ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی پیدائش 1940ء میں بلنچپور (ورنجی پورم، تملناڈو) میں ہوئی اور وفات 2017ء میں بنگلور میں ہوئی۔ آپ کا قلمی نام اشرف سعودی تھا۔ آپ دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور کے مفتی اور شیخ الحدیث تھے امیرِ شریعت کرناٹک کے منصب پر بھی فائز رہے دارالعلوم سبیل الرشاد کے مہتمم کی ذمہ داری بھی آپ نے بحسن و خوبی نبھائی ۔ اس کے علاوہ دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دوسرے کئی مدارس اور تنظیموں میں صرف رکن ہی نہیں بلکہ مختلف عہدوں پر بھی فائز رہ کر آپ نے خدمات انجام دیں۔ اِن سب کے علاوہ آپ نے مضامین، مقالے، تقاریظ بھی لکھے ہیں اور آپ ایک اچھے شاعر اور ادیب بھی تھے خاص کر آپ کو تاریخ گوئی میں مہارت حاصل تھی۔
دارالعلوم باقیات الصالحات ویلور کے سالانہ مجلہ "صفیر” میں آپ کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ ہندوستان کے مختلف شہروں کی مساجد کے کتبوں پر آپ کے تبصرے مضامین کی شکل میں پانچ یا چھ سال تک سالانہ مجلہ "صفیر” کی زینت بنتے رہے۔ تمل ناڈو، کرناٹک، آندھراپردیش، پٹنہ، کولکتہ، ممبئی اور دیگر شہروں کے اسفار سے آپ نے ان قطعات تاریخ کو جمع کیا اور اُن پر اپنا تجزیہ پیش کیا۔ پچھلے سال ڈاکٹر راہی فدائیؔ صاحب نے "صفیر” کے مضامین کا انتخاب مرتب کرکے "افادات” کے نام سے کتاب شائع کی جس میں حضرت مولانا مفتی اشرف علی صاحب کے کتبوں پر لکھے ہوئے مضامین بھی شامل ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس موضوع پر لکھے گئے اُن کے تمام مضامین اس میں شامل ہیں یا نہیں۔
2021ء میں مولانا ریاض احمد انصاری رشادی صاحب نے حضرت مولانا اشرف علی صاحب کے کلام کو یکجا کرکے اسے "دُرِّ اشرف” کے نام سے شائع کیا ہے مولانا ریاض احمد انصاری رشادی صاحب پچھلے بیس سالوں سے دارالعلوم سبیل الرشاد میں معاون دارالافتاء کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ کی مرتب کی ہوئی 249 صفحات پر مشتمل اِس کتاب میں حضرت مولانا اشرف علی صاحب کی لکھی ہوئی 4 نعت، 24 غزلیں، 21 منظومات، 2 مراثی، 12 قطعات ِ تاریخ، ایک منظوم خط اور ایک ترانہ شامل ہیں۔ 4 نعت میں ایک نعت آزاد نظم ہے اسی طرح 22 منظومات اور ایک مرثیہ بھی آزاد نظم ہے۔ فاضل مصنف نے حضرت کے کلام کو صرف مرتب ہی نہیں بلکہ آسان زبان میں اُس کی جامع تشریح بھی پیش کی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت کے کلام میں مستعمل تقریباً 770 مشکل الفاظ کے معانی بھی شامل کئے ہیں۔ چند کمیاب اور نایاب الفاظ جن کے معانی اس کتاب میں شامل ہیں ملاحظہ فرمائیں: دلِ خستہ (زخمی دل)، کرّوفر (دبدبہ)، ابتسام (مسکراہٹ)، ژولیدہ گو (الجھی ہوئی باتیں کرنے والا)، بادِ سموم (گرم ہوا)،پُر اندوہ (غم سے بھرے ہوئے)، قفس (پنجرہ)، پَرتَو (سایہ)، امثل الشاب (نوجوانوں کے لیے نمونہ)، زُجاج (شیشہ)، مساعی (کوششیں)، زیست کش (زندگی ختم کرنے والا)، ایماء (اشارہ)، گریاں (روتا ہوا) وغیرہ
اس کے علاوہ چند مشکل مصرعے جن کی تشریح کی گئی ہے حسب ذیل ہیں:
بہ پاسِ لذت و شیرینی و حلاوتِ جاں (دل و جا ن کو مٹھاس شیرینی اور لذت ملنے کی خاطر)
نشان پائے حسین جا بجا سرِ افلاک (آسمانوں کے کناروں پر ہر جگہ آپؐ کے خوبصورت پیروں کے نشانات ہیں، اشارہ ہے معراج کی طرف)
سریر آرائے نوشاہی (دولھے کے تخت کو زینت بخشنے والا، یعنی دولھا)
خزاں بردوش دنیا (ایسی دنیا جس کے کاندھوں پر پت جھڑ کا موسم ہو)
حضرت کے کلام میں یا اُس کی تشریح میں جہاں کہیں بھی کوئی کتاب یا کسی جگہ کا تذکرہ ہو تو مصنف نے اُس کابھی جامع تعارف شامل کیا ہے مثلاً کلیاتِ فدوی، درّہ خیبر، تختِ طاؤس۔ جن شخصیات کا حضرت کے کلام میں ذکر ہوا ہے اُن کے بارے میں بھی تفصیلات شامل ہیں مثلاً بیضاوی، عبدوہاب، خضر، آزر وغیرہم۔ کلام کب اور کس موقع پر لکھا گیا اس کی بھی جانکاری ملتی ہے۔
چونکہ اس کتاب کی خاصیت اس میں موجود قطعاتِ تاریخ اور ان کی تشریح ہے اس لیے مصنف نے مولانا ارشد رشادی صاحب سے درخواست کرکے اس کتاب کی اشاعت پر قطعۂ تاریخ لکھوا کر اس کتاب میں اُسے شامل کرکے اسے منفرد بنایا ہے۔
یہ کلام کوئی معمولی شاعر کا نہیں بلکہ ایک بلند پایہ عالمِ دین، مفتی اور شیخ الحدیث کا ہے اس میں کئی جگہوں پر قرآنی آیات اور احادیثِ نبوی ﷺ کی طرف اشارہ ملتا ہے فاضل مصنف نے اُن تمام آیات اور احادیث کو متن کے ساتھ شامل کرکے اُس کی تشریح پیش کی ہے۔
"ایک رشتہ – انیک رشتے” کے عنوان سے حضرت کی لکھی ہوئی نظم اُن کی اپنی تحریر میں شامل کی گئی ہے۔
اس کتاب میں عام عنوانات پر لکھی گئی نظموں کے علاوہ کچھ مخصوص عنوانات پر لکھی گئی نظمیں بھی شامل ہیں۔ جن کی تفصیلات حسب ذیل ہیں:
ایک نظم میں اعلیٰ حضرت یعنی علامہ شاہ عبدالوہاب صاحب قادری ویلوری ؒ بانی باقیات صالحات ویلور کے اوصاف کو بیان کیا گیا ہے۔
مدرسۂ باقیات صالحات ویلور پر دو نظمیں لکھی گئی ہیں "باقیات ایک جہاں” کے عنوان سے ایک نظم اور ایک خصوصاً اُس مدرسے کے صد صالہ جشن پر ۔
1973ء میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس جب دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور میں منعقد ہوا تو حضرت نے بورڈ کے تمام ارکان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ایک نظم لکھی۔
1980 میں منعقدہ دارالعلوم دیوبند کے جشنِ صد سالہ پر ایک نظم ۔
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحبؒ کی بنگلور میں ایک مسجد کی افتتاح کی تقریب پر تشریف آوری پر سپاس نامے کے طور پر ایک نظم ۔
حضرت مولانا یس ٹی محمد اسحاق صاحب باقویؒ کی سفرِ حج سے واپسی پر لکھی گئی ایک نظم۔
مولانا ارشد مدنی کی بنگلور میں تشریف آوری پر لکھی گئی ایک نظم جسے حضرت نے خود سامعین کے سامنے پڑھ کر سنائی۔
عازمین حرمین کے نام ایک نظم
نظموں کے علاوہ حضرت مفتی اعظم جنوبی ہند یعنیٰ مفتی آدم صاحب ؒ، شاہ فیصل بن عبدالعزیز آل سعود اور مولانا حافظ و قاری محمد اظہر حسن صدیقی امروہیؒ کی وفات پر لکھے گئے مراثی بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔
"گذارش” کے عنوان سے ایک انوکھی نظم اِس کتاب میں شامل ہے جس کے ہر ایک مصرعے میں 12 سے 15 الفاظ شامل ہیں۔ اس نظم کے آخری دو مصرعے ملاحظہ فرمائیں:
خدارا سنو! قائدو! رہبرو! مصلحو! واعظو! خوش بیانو! خطیبو!
کہ اشرفؔ کی باتوں کی زندہ حقیقت سے کب تک تم آنکھیں چراتے رہو گے۔
حضرت کے لکھے ہوئے جملہ 12قطعاتِ تاریخ اس کتاب میں شامل ہیں اُن کی تفصیلات حسب ذیل ہیں:
• قطعات تاریخ کتخدائی (شادی) – 3
• قطعات تاریخ ولادت (تخریج نام) – 1
• قطعات تاریخ وفات – 3
• قطعات تاریخ تعمیر مسجد – 1
• قطعات تاریخ تریب نو کتاب – 2
• قطعات تاریخ ترمیمات کتاب – 1
• قطعات تاریخ اشاعت کتاب – 1
اُن میں سے کچھ کے مادّہ تاریخ بہ معانی حسبِ ذیل ہیں۔ مادّۂ تاریخ وہ الفاظ ہوتے ہیں جن سے تاریخ نکلتی ہے جو عموماً قطعہ کا آخری مصرع ہوتے ہیں۔
نشانِ کعبۂ مقصود مسجد الحسنات (منبع الحسنات مدرسہ میل وشارم کی مسجد مقصودِ اصلی کعبتہ اللہ کا نشان ہے) سے اِس مسجد کی تاسیس کا سال 1395ھ نکلتا ہے۔
غم موسس بنیانِ مسجد الحسنات (منبع الحسنات مدرسہ میل وشارم کی مسجد کی تعمیر کی بنیاد رکھنے والے کا غم ہے) سے الحاج آئلم صفی اللہ صاحب مرحوم کی وفات کا سال 1976ء نکلتا ہے۔
اپنے بھائی مولانا محمد ولی اللہ صاحب کی دختر کے نکاح پر آپ نے ایک آزاد نظم لکھی ہے اُس کے عنوان "ارمغانِ احسن” سے آپ نے عقد کا سال 1411ھ نکالا ہے۔
بیدر سے تعلق رکھنے والے عالمِ دین مولانا شعیب احمد رشادی (مدرس دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور) نے 2016ء میں حضرت سے جب اپنی پہلی بیٹی کی پیدائش پر ناموں کی تجویز کی درخواست کی تو آپ نے اُنہیں پانچ نام عطا کئے جس میں سے ہر نام سے ہجری سال 1437ھ نکلتا ہے۔ نام حسبِ ذیل ہیں : وثقی ذوقیہ، غادیہ تابید، صیغہ عنبری، عظمیٰ تابید اور عظمیٰ نورالعین۔ اس کے ساتھ آپ نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ پہلا نام موزوں ہے اور اسی کو رکھا جائے اور وہی رکھا گیا۔
اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت جو مجھے بے حد پسند آئی وہ یہ ہے کہ اس کتاب میں حضرت کے لکھے ہوئے قطعات کے مادّہ تاریخ کو بہترین انداز سے سمجھایا گیا ہے جسے پڑھ کر تاریخ گوئی سے ناواقف احباب بھی خوب اچھی طرح اس فن کو سمجھ پائیں گے اور اس فن کے گرویدہ ہوجائیں گے۔ اِس کتاب میں مادّۂ تاریخ کے ہر لفظ کے اوپر اُن کے برابر والے اعداد کو لکھ دیا گیا ہے نیچے کی سطر میں پھر ایک بار ان سارے اعداد کو دہرایا گیا ہے اور انہیں جمع کرنے پر جو تاریخ نکلتی ہے اسے بھی لکھا گیا ہے۔
اس کتاب میں اپنے شاگردِ رشید (حضرت مولانا صغیر احمد صاحب رشادی) کو لکھا ہوا حضرت کا ایک منظوم خط اور اپنے مدرسے دارالعلوم سبیل الرشاد کے لیے لکھا گیا ایک ترانہ بھی شامل ہے۔
فاضل مصنف نے ایک مرتب اور شارح کی حیثیت سے اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والے احباب اس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں۔ کتاب مصنف سے ذیل میں دیے گئے نمبر پر رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے:44454 77606 91+