ڈاکٹر جسیم الدین
(گیسٹ فیکلٹی، شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی، دہلی)
ممتازصحافی ودانشور،عظیم محقق و مترجم اور متعدد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر ظفر الاسلام خان مشہور عالم و مفکر وحید الدین خاں کے فرزند ہیں، لیکن انھوں نے علمی،تحقیقی،صحافتی،فکری اور سماجی کاموں میں نمایاں خدمات انجام دے کر کارگہ عالم میں خود منفرد شناخت بنائی،شرافت ان کی شان ہے، انکسار ان کی پہچان ۔شہرت ومقبولیت کے منازل طے کرنے میں کبھی اپنے آباواجداد کی بیساکھی کا سہارا نہیں لیا۔ برصغیر ہند وپاک میں ہی میں نہیں،بلکہ عالمی سطح پر گنے چنے دانشوران میں آپ کا شمار ہوتاہے، آپ کو یہ مقام یونہی نہیں ملا، بلکہ شہرت ومقبولیت کی یہ منزل آپ کی شبانہ روز کی محنت کا ثمرہ ہے، عیش وعشرت کے اسباب مہیا ہونے کے باوجود آپ نے آرام طلبی کو کبھی اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا، بلکہ ہمہ وقت ملک وقوم کی خدمت میں خود کو گھلاتے رہے،لیکن آج حیرت وتأسف کا مقام ہے کہ ایک مناسب ومعقول رائے کے اظہار کو بنیاد بناکر مٹھی بھر شرپسند عناصر کے دباؤ میں آکر دہلی پولیس انھیں ہراساں کررہی ہے، اگر دہلی پولیس یہ سمجھتی ہے کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کو وہ پس زنداں کرنے میں کامیاب ہوجائے گی تو یہ اس کی بھول ہے، آج پوری قوم ان کے ساتھ ہے۔آخرڈاکٹر ظفرالاسلام خاں کا قصور ہی کیا ہے کہ رمضان کے مبارک ماہ میں عین افطار کے وقت دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے چھاپہ مار کارروائی کی۔یہ طرفہ تماشہ ہی ہے کہ دہلی میں فساد بھڑکانے کے اصل مجرمین آزاد ہیں،جب کہ انھیں پس زنداں ہونا چاہیے تھا، لیکن انصاف کا یہ دہرا معیار ہندوستان کی ساکھ کو عالمی سطح پر متاثر کرے گا، اس لیے حکومت وقت کو چاہیے کہ فساد کے اصل مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچائے نہ کہ ایک سیدھے سادھے بے لوث خادم ملک وملت کے ساتھ ظلم وزیادتی پر اترے۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں صاحب ایک سنجیدہ،صاف ستھری شبیہ کے مالک ہیں، انھوں نے اپنے قرطاس وقلم کا استعمال ہمیشہ ملک وقوم کی خدمت میں کیا ہے، وہ ملک وقوم کے لیے جہاں گراں مایہ سرمایہ ہیں، وہیں کمزوروں اور بے بسوں کے لیے توانا آواز بھی ہیں، اس لیے ان کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے، شرپسند عناصر کی طرف سے ڈاکٹرصاحب کے خلاف شورش برپا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ نہ کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج کیا جاناچاہیے، یہ سراسر انصاف کا قتل وخون ہے۔اس ملک کا عدالتی نظام بھروسے مندرہاہے،یہی اس کا امتیاز ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ عدل وانصاف کو سبوتاز ہونے سے بچاتے ہوئے ڈاکٹر ظفرالاسلام کے خلاف لگائی گئیں دفعات کو واپس لے اور انھیں بے جا طورپر خوف وہراس میں ڈالنے سے باز آئے۔
یہاں میں ملت اسلامیہ ہند کے سربرآوردہ حضرات، تمام قومی وبین الاقوامی تنظیموں کے سربراہان سے بطور خاص اورعمومی طور پر ملک کے باشندگان ہر محب وطن سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہر پلیٹ فارم سے ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں صاحب کے ساتھ ہونے والے ظلم وزیادتی اور ناانصافی کے خلاف صف بستہ ہوں، ورنہ اگر اس سادہ لوح،بے لوث خادم ملک و قوم پر ہاتھ ڈالنے میں دہلی پولیس خدانخواستہ کا میاب ہوگئی تو پھر ہندوستان میں (جس کی تاریخ ہمارے آباواجداد کے سرفروشانہ کارناموں سے مزین ہے) نسل نو ہر آنے والا دن مزید خوفناک ہوجائے گا، ظلم پر ظلم ڈھایا جائے گا اور اس کو روکنا تو درکنار اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والا بھی کوئی نہ ہوگا، اس لیے مصلحت پسندی کے خول سے باہر نکل کر کوئی مضبوط لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا، تاکہ ملک میں شر پسند عناصر کی شر انگیزی پر نکیل کسی جاسکے.
آپ کو ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں صاحب کا بیک گراؤنڈ بھی بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے جامعہ دار السلام عمر آباد میں ایک سال فارسی پڑھی۔ مدرسۃ الاصلاح سے درجہ سوم عربی پاس کیااور دار العلوم ندوۃ العلما سے پنجم عربی (اب عالمیت کے نام سے متعارف ہے) پاس کیا۔لکھنؤ یونیورسٹی سے عالم فاضل کورس کیا۔ قاہرہ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں ایم اے کیا۔ مانچسٹر یونیورسٹی سے 1987میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
مصر میں قیام:
جامعہ ازہر کے کلیہ اصول الدین میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے قاہرہ یونیورسٹی میں چند سال گزارے اور وہیں سے اسلامی تاریخ میں ایم اے کیا جس کے لیے مصر کی اکسچینج اسکالرشپ دو سال کے لیے ملی۔ پھر قاہرہ ریڈیو میں بحیثیت اردو اناؤنسر بھی کام کیا۔ فروری 1973 ء سے لیبیا کی وزارت خارجہ میں چھ سال بحیثیت مترجم و ایڈیٹر اپنی خدمات پیش کیں۔
مصر میں ان کے حلقہ احباب میں بہت سے ادبا، شاعر اور محققین رہے جن میں وزیر ڈاکٹر حلمی مراد جو پہلے عین شمس یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، پھر وزیر تعلیم ہوئے۔ بڑے ادیب یحیٰ حقی، ڈاکٹر مصطفٰی محمود، شیخ محمد الغزالی، ڈاکٹر عبد الصبور شاہین تھے۔ صحافیوں میں جامعۃ القاہرۃ میں ہم سبق ڈاکٹر عبد الحلیم عویس تھے۔ان کے قیام کے وقت بعض ادبا وشعراء وصحافی جو اس وقت نوجوان تھے، بعد میں بہت مشہور ہو گئے، شاعر حسن توفیق، شاعر عفیفی مطر جو”سنابل”نامی ادبی پرچہ نکالتے تھے اور نقاد کمال حمدی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
انگلینڈ میں قیام:
اکتوبر 1979 میں لندن چلے گئے جہاں مزید پڑھنے کے لیے مانچسٹر یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا۔ پی ایچ ڈی کا موضوع ” تصور ہجرت“ تھا جس میں بنیادی طور پر یہ معلوم کرنا تھا کہ مفسرین، علما حدیث اور فقہا نے حکم“ہجرت”کو کیسے سمجھا اور اسلامی تاریخ میں اس پر کیسے عمل کیا گیا۔ لیکن مزید پڑھنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ مسلم انسٹی ٹیوٹ نے، جس نے انہیں بلایا تھا، اپنے کاموں میں اتنا مشغول کر دیا کہ ٹھیک سے پڑھائی کا وقت نہ مل سکا۔ کچھ کام کیا لیکن بہت زیادہ نہیں کرسکے۔ 1984 میں ہندوستان واپس آنے کے بعد وہ دوبارہ 1987 میں مانچسٹر گئے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے لوٹے۔
صحافتی سرگرمیاں:
الحیاۃ نیوز پیپر،لندن(19991-1992)، عرب نیوز جدہ(1992-1997)، روزنامہ الریاض (1991-9192) میں نمائندہ کی حیثیت سے صحافتی خدمات انجام دیں۔علاوہ ازیں ’المجتمع‘ کویت، ’الاصلاح‘ دبئی، میں کالم بھی لکھے۔اسی طرح بی،بی،سی ریڈیو، ٹی وی لندن،وائس آف امریکا، واشنگٹن، جزیرہ سیٹلائٹ چینل، منارٹی وی بیروت، ریڈیو تہران، ایران اور آل انڈیا ریڈیو کی عربی سروس میں بحیثیت تجزیہ کار اور اناؤنسر اپنی صحافتی خدمات انجام دی ہیں۔اب وہ عربی اخبارات میں دہلی سے نمائندگی کرتے ہیں۔
تصانیف:
عربی، انگریزی اور اردو میں چالیس سے زائد کتابوں کے مصنف یا مترجم ہیں جن میں یہ دو کتابیں بھی شامل ہیں:
اسلام میں ہجرت
فلسطینی دستاویزات
دائرۃ المعارف الاسلامیہ یا انسائیکلوپیڈیا آف اسلام (Encyclopaedia_of_Islam) میں آٹھ مضامین برصغیر میں مسلمانوں کے حوالے سے شامل کر چکے ہیں۔
2000 سے ملی گزٹ اخبار نکال رہے ہیں جو ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل پر مرکوز ہے۔ یہ پرنٹ اور آن لائن دونوں صورتوں میں موجود ہے۔
چیریٹی الائنس کے بانی اور چیئرمین ہیں، یہ ادارہ ہندوستان میں فلاح و بہبود کے کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اشاعتی ادارہ فاروس میڈیا اور پبلشنگ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ جولائی 2017 میں ان کو دہلی اقلیتی کمیشن کا صدر بنایا گیا اور ہنوز اس عہدے پر برقرار ہیں۔اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ شرپسندوں کی سازش کو ناکام بنائے اور ڈاکٹر صاحب ظالموں کے ظلم اور ریشہ دوانی کرنے والوں کی چیرہ دستی سے محفوظ رہیں۔
[email protected]
9711484126