ڈاکٹر نبیل احمد نبیل
ہم ایسے کرب سے خوشیوں کو چھین لائے ہیں
کہ دل کی سمت تمھارا یقین لائے ہیں
نہ پُوچھ عالمِ مِسماریِ جہاں مجھ سے
سروں پہ ملبہ مکاں کا مکین لائے ہیں
ہم اِس لیے بھی کبھی در بدر نہیں ہوتے
ہم آسمان سے اپنی زمین لائے ہیں
خوشی سے پُھولتے جاتے ہیں اپنے دامن و جیب
امانتوں کو ہماری امین لائے ہیں
بدل بھی سکتے ہیں حالات اب کی بار اپنے
گھروں سے کھنیچ کے گوشہ نشین لائے ہیں
نہ آ سکے کبھی رستے پہ ہم جُنوں والے
ہزار مشورے ہم تک ذہین لائے ہیں
وہ جن کے جسم ہیں زخموں سے تار تار تمام
ہمارے واسطے پل پل حسین لائے ہیں
کِیا گیا تھا ہمیشہ جنھیں نظر انداز
نویدِ صبح وہ شب کے رہین لائے ہیں
ہمیں خبر ہے کہ آداب کیا ہیں محفل کے
ہم ایسے لوگ طبیعت متین لائے ہیں
ترے حسین تصوّر کے بیج بو کے، الگ
جہانِ فن میں غزل کی زمین لائے ہیں
فلک کے ساتھ زمیں بھی چمک اُٹھی ہے نبیل
ہم اپنے ساتھ وہ زہرہ جبین لائے ہیں