Home ستاروں کےدرمیاں ڈاکٹر راحت اندوری کا آخری نعتیہ مشاعرہ- حسان فلاحی

ڈاکٹر راحت اندوری کا آخری نعتیہ مشاعرہ- حسان فلاحی

by قندیل

 

ادبی دنیا کے لئے اس سے بڑا اور کیا سانحہ ہوگا کہ وہ آج اپنے لاڈلے بیٹے ، اندور کے سپوت ، قلندرِ زمانہ اور مشاعروں کے بے تاج بادشاہ جناب ڈاکٹر راحت اندوری سے محروم ہو گئی۔ (إنالله وإنا إليه راجعون)۔

راحت صاحب صرف ایک شاعر ہی نہیں ، بلکہ وہ ایک فکر کا نام تھے ، وہ ایک شخص ہی نہیں ، بلکہ ایک شخصیت و انجمن تھے ، محض ایک شاعر نہیں ، بلکہ مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت اور علامت تھے ، وہ کسی ایک ڈھنگ ، ایک فکر ، ایک طرز کے شاعر نہیں تھے ، اپنے فن کے شہسوار اور مشاعروں کی دنیا کے یکتاے روزگار تھے ، جوان ہو یا بوڑھا ، ہندو ہو یا مسلم ، دیسی ہو یا پردیسی ہر کوئی اندور کے اس لعل کے لہجہ کی گرماہٹ اور آواز کی گھن گرج کا دیوانہ تھا ، ان کی شاعری ہر عمر اور ہر طبقہ کو محظوظ کرتی تھی۔

ایک طرف تو آپ ظلم و نا انصافی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہوئے احتجاجی شاعر نظر آتے ہیں ، تو دوسری طرف غزل سرائی کرتے کرتے "میر” و "غالب” کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں ، کہیں نوجوانوں کے حوصلے اور ہمت کو مہمیز کرتے ہوئے علامہ اقبال کے بھیس میں نظر آتے ہیں ، تو کہیں نعت نبی پڑھتے ہوئے ایک سچے عاشق رسول کی صورت میں نمایاں ہوتے ہیں ۔

ویسے تو راحت صاحب کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ لکھابھی جائے گا ، مگر مجھے اس تحریر میں راحت صاحب کی زندگی کے اس آخری "نعتیہ مشاعرہ” کی کچھ روداد سپردِ قرطاس کرنا ہے ، جو راحت صاحب کے اپنے صوبہ "مدھیہ پردیش” اور اپنے شہر اور ضلع "اندور” کی عظیم دینی درسگاہ”جامعہ اسلامیہ بنجاری” میں 7 / نومبر 2019 کو منعقد ہواتھا ، جس میں راحت صاحب تشریف لائے اور فرمایا : "ستر برس کی عمر میں دس پانچ مشاعرے بھی میں نے نعتیہ نہیں پڑھے ہوں گے ، یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میں آج یہاں حاضر ہوں” ، اس محفل میں راحت صاحب کے دل کی جو کیفیت تھی وہ خود انہوں نے اپنی زبانی بیان کی ” کہ مجھے اتنا چھوٹا سا اک احساس اندر سے باہر تک روشن اور منور کئے ہوئے ہے کہ میں جس محفل میں بیٹھا ہوں ، وہ عاشقانِ رسول کی محفل ہے ، ان کے نورانی چہرے اور نورانی سینے میرے سامنے موجود ہیں، اس لئے میں اندر سے باہر تک ، اوپر سے نیچے تک اپنے آپ کو منور محسوس کر رہا ہوں ‘‘۔

دنیا کا اتنا بڑا شاعر ، جس کے کلام کو بطور حوالہ پیش کیا جاتا ہو ، جب نعت نبی کہنے کی جرأت کرتا ہے ، تو اس کے کیا احساسات ہوتے ہیں،عشقِ نبی کا کیسا دریا اس کے سینے میں موجزن ہوتا ہے اور نعت کی صنف نازک کا اس کے دل کے نہاں خانے میں کس درجہ احترام پوشیدہ ہوتا ہے، یہ بھی آپ راحت صاحب کی زبانی ہی سنیے : ” جب جب موقع آیا ہے کہ نعت نبی کہنے بیٹھ جاؤں ، تو ہاتھ میں رعشہ آنے لگ جاتا ہے ، قلم ساتھ چھوڑ دیتا ہے ، الفاظ دور بھاگ جاتے ہیں ، سوچ گم ہو جاتی ہے اور دماغ کند ہو جاتا ہے ، اس بات کا میں اعتراف کرتا ہوں‘‘۔

راحت صاحب کا تعارف بحیثیت "شاعر” تو دنیا کے کونے کونے میں ہے ؛ لیکن بحیثیت "نعت خواں” کم ہی لوگ آپ کو جانتے ہوں گے ، اسی وجہ سے آپ کے عشقِ رسول میں ڈوبے ہوئے ان اشعار کا بھی ذکر کردینا مناسب ہے ، جو زندگی کے آخری نعتیہ مشاعرہ میں آپ نے پیش کئے :

(1) اپنا آوارہ سر جھکانے کو تیری دہلیز دیکھ لیتا ہوں

اور پھر کچھ دکھائی دے کہ نہ دے کام کی چیز

دیکھ لیتا ہوں

 

(2) امین حرف و صدا بھی یہیں کہیں ہوگا

شفیع روز جزا بھی یہیں کہیں ہوگا

یہ عاشقان رسول خدا کی محفل ہے

مجھے یقیں ہے خدا بھی یہیں کہیں ہوگا

 

(3) کچھ دن سے میری سوچ کی گہرائی بڑھ گئی

کچھ دن سے میری فکر کی اونچائی بڑھ گئی

نعلین جب سے آپ کے دیکھے ہیں خواب میں

محسوس ہو رہا ہے کہ بینائی بڑھ گئی

 

(4) تمام ذرے ستارہ صفت نہ ہو جاتے

یہ خاک حاصلِ کون و مکاں نہ ہو جاتی

اگر حضور کا سایہ زمیں پہ پڑ جاتا

تو یہ زمیں بھی آسماں نہ ہو جاتی

 

(5) بند آنکھیں ہیں،چار سو ہیں آپ

اس اجالے کی آبرو ہیں آپ

نعت پڑھتا ہوں اور لرزتا ہوں

ایسا لگتا ہے روبرو ہیں آپ

 

(6) اگرنصیب قریبِ درِ نبی ہو جائے

میری حیات میری عمر سے بڑی ہو جائے

میں”م” ” ح” لکھوں پھر "م”اور "د”لکھوں

خدا کرے کہ یونہی ختم زندگی ہو جائے

کبوتروں کے میں کچھ دانے ساتھ لے آیا

اسی بہانے ستاروں سے دوستی ہو جائے

دعا یہ مانگی ہے ہر بار واپسی کے وقت

خدا کرے کہ اک اور حاضری ہو جائے

 

پھر راحت صاحب نے اپنی ایک پرانی نعت کے کچھ اشعار یہ کہتے ہوئے سنائے کہ "اس خوبصورت محفل میں، اپنی چند برس پہلے لکھی ہوئی اک نعت پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں”

(7) میرے پیغمبر کا نام ہے جو میری زباں پر چمک رہا ہے

گلے سے کِرنیں نکل رہی ہیں،لبوں سے زمزم چھلک رہا ہے

میں رات کے آخری پہر میں،جب آپ کی نعت لکھ رہاتھا

لگا کہ الفاظ جی اٹھے ہیں،لگا کہ کاغذ دھڑک رہا ہے

میرے نبی کی دعائیں ہیں یہ،میرےخدا کی ادائیں ہیں یہ

کہ خشک مٹی کا ٹھیکرا بھی حیات بن کر کھنک رہا ہے

 

(8) اےخدا پھر یہ عذاب اور یہ ستم کس کے ہیں

تو تو اس بات سے واقف ہے کہ ہم کس کے ہیں

آج جب نعت نبی لکھی (نام نبی)لکھا تو اندازہ ہوا

لفظ کیوں پیدا ہوئے لوح وقلم کس کے ہیں

 

سب سے اخیر میں راحت صاحب نے اسٹیج پر موجود دیگر شعرا کے اصرار پر اپنا مشہور زمانہ شعر :

کبھی دہلیز پر ہوتے کبھی چھت پر ہوتے

کاش ہم لوگ مدینہ کے کبوتر ہو تے

پڑھ کر ہزاروں کےمجمع کو الوداع کہا ، کسے خبر تھی کہ یہ راحت صاحب سے آخری ملاقات ہوگی اور اتنی جلدی ان کی زندگی کی شام ہو جائے گی۔

راحت صاحب گئے ہیں ، لیکن راحت صاحب کا لہجہ ، ان کا سلوب اور ان کی شاعری ابھی بھی زندہ ہے اور آگے بھی زندہ رہے گی۔ان شاءاللہ

You may also like

Leave a Comment