ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ بھی رخصت ہوگئے اور اپنے پیچھے اپنے زمانہ ساز کارناموں کے تابندہ نقوش چھوڑ گئے۔ مقصد کی بلندی اور کردار کی عظمت کے ساتھ بڑے انسانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہےکہ ان کا دامن عالم انسانیت کو فیض یاب کرنے کے لیے بالکل نئے اور انوکھے تحفوں سے مالا مال ہوتا ہے۔ جو کچھ دنیا جانتی ہے اسے بیان کردینا کوئی کمال نہیں ۔ آزمودہ راستوں پر آگے بڑھنے کے لیے کسی بڑے آدمی کے سہارے کی ضرورت نہیں ۔ معلوم و معروف نسخوں کو آزمانے کے لیے کسی طبیبِ دانا کی رہنمائی کی حاجت نہیں۔ بڑے لوگ اصلاً وہ ہیں جو وہ باتیں بتائیں جو ہم میں سے کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ راستے دکھائیں جن سے انجان ہونے کی وجہ سے ہماری منزل کھوٹی تھی۔ وہ نادر نسخے لے کر آئیں جن سے محرومی کی وجہ سے ہم اپنے مرض کو لاعلاج سمجھ کر مایوس ہو بیٹھے تھے۔
جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
جو منفرد خصوصیت ڈاکٹر صاحب مرحوم کو نمایاں کرتی ہے وہ یہی ہے کہ وہ صحیح معنوں میں صاحب ایجاد تھے۔ نئی راہوں اور نئے حل کی تلاش و جستجو ان کی شخصیت کا نہایت متاثر کن پہلو تھا۔لیکن نئی راہوں کی تلاش کا مطلب ان کے نزدیک کبھی بھی ہرگز وہ نہیں تھا جس کا ڈر اقبال کو ستاتا تھا۔
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ
مولانا مودودی ؒ کی طرح، ان کا امتیاز بھی یہی تھا کہ کہ نہ وہ قدیم روایات کے اسیر تھے اور نہ جدید روشنی سے ان کی آنکھیں خیرہ تھیں۔ان کی تجدید، جہاں جمود اورجامد روایت پسندی پر ضرب کاری تھی وہیں اُس غبی و کند ذہن تقلیدی مزاج سے بھی نجات کا موثر پیغام تھی جو مغرب کے بنائے ہوئے دائروں سے باہر نکل کر سوچنے کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسلامی معاشیات پر ان کاعہد ساز کام ہو یا ہندوستان میں تحریک اسلامی کی حکمت عملی پر ان کی فکری کاوشیں ہوں، ہر جگہ ان کا یہ اعتدال و توازن نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے۔
طالب علمی کے زمانے میں ڈاکٹر صاحب مرحوم ؒسے پہلا تعارف فطری طور پر اسلامی معاشیات سے متعلق ان کی کتابوں سے ہوا۔ گیارہویں جماعت کے ،سائنس کے ایک طالب علم کے لیے، جس نے کسی بھی سطح پر معاشیات نہیں پڑھی تھی، معاشیات و بنکنگ کے تصورات کو سمجھنا آسان نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی کتابوں نے نہ صرف اسلامی معاشیات سے متعارف کرایا بلکہ علم معاشیات میں بھی دلچسپی پیدا کی۔ مولانا مودودیؒ کی کتابوں نے علم و تعلیم کے اسلامی تصورات سے روشناس کرایا تھا۔ معلوم ہوا کہ ان خطوط پر ، کسی میدان میں اگر کچھ ٹھوس کام ہوسکا ہے تو وہ اسلامی معاشیات کا میدان ہے اور اس کام کا سہرا نجات اللہ صدیقی کے سر جاتا ہے جنہیں بجا طور پر بابائے اسلامی معاشیات کہا جاتا ہے۔مولانا مودودیؒ کا فقرہ ‘مقلدوں کا سا کمال نہیں بلکہ مجتہدوں کا کمال’ ہمیشہ ذہن میں گونجتا رہتا اور اس فقرے کے عملی ماڈل کے طور پر ڈاکٹر صاحب مرحوم ہی کا تصور ذہن میں ابھرتا۔
یہی وہ زمانہ تھا جب تحریک اسلامی کے لٹریچر کے مطالعے کی بھی سنجیدہ کوشش جاری تھی۔ مولانا مودودیؒ نے تحریک اسلامی کا جو تصور دیا تھا وہ بہت متاثر کن اور ذہن و قلب کو اپیل کرنے والا تھا لیکن آزاد ہندوستان میں اس تصور کے مطابق تحریک کو کیسے آگے بڑھایا جائے؟ اس سوال کا اطمینان بخش جوا ب، اس وقت دستیاب تحریک کے لٹریچر میں بہت کم ملتا تھا۔ یا تو مولانا مودودی کی کتابیں سیاسی کشمکش وغیرہ تھیں یا پھر بالکل اصولی مباحث تھے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اس وقت اس موضوع پر متعدد دوستوں اور بزرگوں سے گفتگو و بحث ہوتی رہی لیکن قلب و ذہن کو اطمینان حاصل نہیں ہوا۔ اسی زمانے میں کہیں سے ڈاکٹر صاحبؒ کی ایک چھوٹی سی کتاب’ اسلامی نشاۃ ثانیہ کی راہ’ میسر آئی۔ اس کتاب نے بڑی کامیابی سے ایک نوجوان نووارد کےذہن کی الجھنوں کو دور کیا اور ہندوستان میں اسلامی تحریک کا نقشہ پوری طرح روشن کردیا۔ بعد میں کچھ اضافوں کے ساتھ یہ کتاب ‘تحریک اسلامی عصر حاضر میں’ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ میں نے ہمیشہ اس کتاب کو اپنی محسن کتابوں میں شمار کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہندوستان کی اسلامی تحریک کی راہوں کو متعین کرنے میں اس کتاب کا بڑا اہم رول رہا ہے۔
ان واقعات نے ڈاکٹر صاحب کی بڑی محبت و عقیدت دل میں پیدا کردی تھی۔ تحریکی فکر سے متاثر ہمارے نوخیز ذہن کے لیے ان کی حیثیت ایک آئیڈیل کی تھی۔ ان سے ملاقات کی بڑی خواہش تھی۔ اتفاق کی بات کہ یہ تمنا کئی برسوں تک پوری نہیں ہوئی اور ان سے پہلی ملاقات 1999میں اس وقت ہوئی جب میں ایس آئی او کے صدر کی حیثیت سے دلی میں مقیم تھا اور ڈاکٹر صاحب علی گڈھ تشریف لائے ہوئے تھے۔ اپنے محسن سے ملاقات کے لیے علی گڈھ کا سفر کیا اور پہلی ملاقات ہی میں ڈاکٹر صاحبؒ سے ایسی بے تکلفی قائم ہوگئی ، گویا برسوں کی شناسائی ہو۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم کی پہلی نمایاں خصوصیت اپنے مقصد ومشن کے تئیں ان کی یکسوئی ، سچی وفاداری اور ثبات و سپردگی ہے۔پندرہ سولہ سال کی عمر میں انہوں نے تحریک کی خدمت کا ایک محاذ منتخب کیا اور پوری زندگی اس کام کے لیے لگادی۔ مختلف شخصیات سے مرحوم کی جو خط و کتابت رہی ہے اس کا مجموعہ انہوں نے، محدود تعداد میں قریبی حلقے میں ،سرکولیشن کے لیے شائع کرایا تھا۔ اس مجموعے میں ان کے خطوط پڑھنے سے اُس جذبے اور حوصلے کا اندازہ ہوتا ہے جو پندرہ سال کی عمر سے پچہتر سال کی عمر(اُس مجموعے کی اشاعت تک) تک، عمر کے ہر مرحلے میں اسلامی معاشیات کے سلسلے میں ان کے اندر کارفرما رہا۔ نو عمری ہی میں وہ اپنے زمانے کے، عالمی سطح کے معاشیات دانوں سے خط و کتابت کرتے ہوئے اور ان کے سامنے سوالات کھڑے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ خطوط پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ چونکانے والی باتوں سے لبریز ذہن کا مالک یہ نوجوان، اپنے میدان میں کچھ بڑا اور انوکھا کام کرنے والا ہے۔ طالب علمی ہی کے زمانے میں مرحوم نے انگریزی میں اسلامک تھاٹ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا شروع کردیا تھا۔ اس کی فائلیں بھی ڈاکٹر صاحب کے یہاں دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس میں بھی ایک نوجوان ذہن کی تخلیقیت ، ایک نئی دنیا اور نئی تہذیب کی صورت گری کا جذبہ اور وژن اور حوصلہ و عزم ، سطر سطر سے عیاں ہوتے ہیں۔
بعد میں یہ خواب ان کی زندگی کی سب سے بڑی دلچسپی بن گیا اور پوری زندگی وہ اس خواب کی تعبیر میں لگے رہے۔زندگی کا ہر اہم فیصلہ اور ہر اہم اقدام اسی خواب کو بنیادبناکر کیا۔اسی کے لیے اپنا کیریر بدلا۔اسی کی ضروریات کے پیش نظر ملک سے باہر جاکر رہنے کا فیصلہ کیا۔ اسی کی خاطر بڑھاپے کی آخری منزل تک فکر مند اور سرگرم کار رہے۔ اور سولہ سترہ سال کی کھلنڈری عمر سے لے کر اسی پچاسی برس کی آرام خواہ عمر تک، زندگی کی ساری سانسیں، جسم و جان کی ساری توانائی اور خون جگر کی ساری بوندیں ، اسی خواب کی نذر کردیں۔واقعہ یہ ہے کہ کسی بڑے کام کے لیے اپنے مقصد و ہدف کے بارے میں ایسا واضح ذہن، اس کے لیے ایسی یکسوئی اور اس کی خاطر جہد و کاوش اور ایثار و قربانی کا یہ معیار ایک ناگزیر ضرورت ہے۔جب تک کوئی آدرش آدمی کے حواس پر نہ چھاجائے وہ کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔
میرا کمال شعر بس اتنا ہے اے جگر وہ مجھ پہ چھاگئے میں زمانے پہ چھاگیا
نجات صاحب مرحوم نے اسلامی معاشیات کا بیج بویا، اسے سینچا، اس پودے کی خونِ جگر سے پرورش کی اور اسے ایک تناور درخت بنادیا۔ ان کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انہوں نے اسلامی معاشیات کا خواب دیکھا تھا اس وقت یہ ایک بالکل اجنبی تصور تھا۔بڑے بڑے معاشیات دانوں کے لیے بھی یہ بالکل نامانوس اور ناقابل عمل چیز تھی۔ اس کا مذاق بھی اڑایا گیا ۔ لیکن آج اسلامی معاشیات ایک معروف سائنس ہے۔ دنیا کی اہم ترین جامعات میں اس کے مستقل شعبے ہیں۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ ایک وسیع و عریض صنعت اس کی اساس پر وجود میں آچکی ہے اوراس کے تصورات دنیا کو تیزی سے اپنی طرف متوجہ کررہے ہیں۔
ایک سچے باغبان کی طرح ڈاکٹر صاحب نہ صرف اس پودے کی پرورش میں لگے رہے بلکہ جو جھاڑ جھنکار اس پودے کے طفیلی بن کراطراف و اکناف میں اگنے لگے یا دیمک بن کر اس کی جڑوں کو کھانے لگے، اس کی صفائی کی طرف بھی متوجہ رہے۔ایسے ہر رجحان کا مقابلہ کیا جو اسلامی معاشیات کو اس کے اصل مقاصد اور اسپرٹ سے منحرف کرکے فقہی حیلوں کے سہارے سرمایہ دارانہ معیشت ہی کی ایک شکل میں بدل دینا چاہتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب مرحوم کا اسلامی معاشیات کا وژن، اسلام کے تصور عدل و قسط کی بنیاد پر ایک مکمل تبدیلی کا وژن تھا۔ بعد میں بدقسمتی سے اسلامی معاشیات بھی مالیاتی کرن financialisationکے عالمی رجحان کی شکار ہوتی گئی۔ پہلے مکمل معاشیات سے گھٹ کر اسلامی مالیات تک محدود ہوگئی۔ پھر مالیات نے بھی بنکنگ تک خود کو محدود کیا۔ اور بنکنگ میں بھی شراکت داری Equity-basedکے اصل اسلامی تصور کی بجائے فقہی حیلوں کے سہارے مین اسٹریم بنکنگ میں ہی پیوند کاری کا عمل غالب رجحان بنتا گیا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ایسے ہر رجحان کا پوری دلیری سے مقابلہ کیا۔ تورق کے خلاف ان کی مسلسل کوششیں اس سلسلے میں بطور مثال پیش کی جاسکتی ہیں۔خصوصاً آخر عمر میں ان سے جب بھی گفتگو ہوئی اس حوالے سے ان کی فکر مندی اور تشویش ہمیشہ محسوس ہوئی۔ ہندوستان کے مشکل حالات میں بھی اسلامی معاشیات کے اپنے اصل تصور کو بنیاد بناکر وہ مسلسل کوشاں رہے۔ دسیوں اداروں کے مشیر اور سرپرست رہے۔ اسوسی ایشن فار اسلامک اکنامکس جیسے ادارے قائم کیے۔ آخر میں انڈین سینٹر فار اسلامک اکنامکس کی سرپرستی فرماتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کی اس محاذ پر زندگی بھر کی کوششیں جہاں اسلامی معاشیات کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہیں وہیں نوجوانوں کے لیے دیگر علمی میدانوں میں اسی طرح کی فوکسڈ،مسلسل اور صبر آزما کوششوں کے لیے تحریک بھی فراہم کرتی ہیں اور نقوش راہ بھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے دیگر علمی محاذوں کے لیے بھی ایسے حوصلہ مند مسافر عطا فرمائے اور خود اسلامی معاشیات میں پیدا ہونے والے خلا کو بھی پر فرمائے آمین
اسلامی معاشیات کے سلسلے میں ان کی گراں قدر خدمات اور بنیاد سے چھت تک اس عمارت کی مکمل تعمیر میں ان کے کلیدی رول کے باوجود، ان کی شخصیت کو صرف اس میدان تک محدود کرنا ان کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔ وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے اور ان کی خدمات جتنی عظیم ہیں اتنی ہی متنوع اور ہمہ گیر بھی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی شخصیت کا ایک نہایت اہم حوالہ اسلامی تحریک، اس کا فکر، اس کی حکمت عملی ،اس کی پالیسیاں اور اس سلسلے میں ان کے کنٹری بیوشن ہیں۔ مجھ جیسے نووارد طلبہ کے لیے اگر مولانا مودودی ؒکی تصنیفات تحریک کی اساسی فکر اور اسلام کے جامع تصور کے فہم کا ذریعہ رہیں تو ڈاکٹر صاحب مرحوم کی تخلیقات کو تحریک اسلامی ہند کے مخصوص مزاج، اس کی سمت اور اس کے طریق کار کو سمجھنے کے لیے سب سے مدلل اور اطمینان بخش سرچشمے کی حیثیت حاصل رہی۔ اگرچہ ان موضوعات پر ان کی تصنیفات کی تعداد بہت کم ہے لیکن جو کچھ انہوں نے لکھا ہے وہ بڑا چشم کشا، بڑا مدلل اور بڑا اطمینان بخش ہے۔ تصنیفات کے ساتھ ساتھ ، اس محاذ پر ان کا بڑا کنٹری بیوشن وہ کردار ہے جو وہ جماعت کی فیصلہ ساز مجالس میں ادا کرتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم اُس دستور ساز مجلس نمائندگان کے رکن تھے جس نے ملک کی آزادی کے بعد جماعت اسلامی ہند کے پہلے دستور کو منظوری دی تھی ۔غالباً 1965سے بیرون ملک منتقلی تک وہ مسلسل مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔بیرون ملک منتقلی کے بعد بھی جماعت کی پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں وہ ممکنہ حد تک کنٹری بیوٹ کرتے رہے۔ مرکزی مجلس شوریٰ کی نشستوں میں ان کی شرکت بھرپور تیاری کے ساتھ ہوتی تھی۔ شوریٰ کی رودادوں میں ان کے جو مقالات اور تجویزیں ملتی ہیں ان کو دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تجاویز اور مباحث کبھی بھی برجستہ یا محض ذاتی وجدان اور تجربے کی بنیاد پر نہیں ہوتے بلکہ وہ موضوع سے متعلق سنجیدہ تحقیق اور گہرے مطالعے کے بعد ہی کوئی رائے قائم کرتے۔ ان کی تقاریر بھی اور شوریٰ و دیگر مشاورتی محفلوں کی پیشکش بھی، ہمیشہ مکمل تحریری صورت میں ہوتی۔ تربیتی پروگراموں میں بھی ان کی تقریروں کا ڈرافٹ مکمل طور پر لکھا ہوا اور محنت سے تیار کیا ہوا ہوتا۔قرآن وسنت اور اسلام کی اساسیات کے ساتھ ساتھ ، تحریک کی پالیسی سازی کے لیے انہوں نے معاصر علوم، سماجیات، سیاسیات، عمرانیات وغیرہ سے بھرپور استفادہ کیا۔ معاشیات تو ان کا اصل میدا ن تھا ہی۔
ان سنجیدہ کوششوں سے ہندوستان کی اسلامی تحریک کے لیے بدلے ہوئے حالات میں قابل عمل اور مفید لائحہ عمل کی تشکیل میں انہوں نے اہم رول ادا کیا۔ ڈاکٹر صاحب مرحومؒ ہندوستان کی اسلامی تحریک کے لیے سب سے اہم کام دعوت دین کو قرار دیتے تھے۔ برادران وطن سے گہرے تعلقات، قومی تعصبات سے اوپر اٹھ کر ان کے ذہن و مزاج کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش اور ان کی سوچ پر اثر انداز ہونے کی جدوجہد، ان کے نزدیک تحریک کی اصل جدوجہد ہونی چاہیے۔
اسی طرح مسلم امت کی ہمہ جہت ترقی اور اس کو سماجی قوت سے آراستہ کرنے کی کوشش، مرحوم ؒکے نزدیک بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ سیاسی کوششوں کو بھی وہ ضروری سمجھتے تھے لیکن ان کا یہ خیال بڑا اہم ہے کہ سماجی قوت کے بغیر سیاسی قوت کا حصول ممکن نہیں ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کا اصل مسئلہ سماجی قوت سے محرومی ہے۔سماجی قوت کیا ہے اور اس کو کیسے بڑھایا جاسکتا ہے؟ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا ذہن بہت صاف تھا ۔
آج تحریک کے ایک کارکن کو یہ باتیں انوکھی باتیں محسوس نہیں ہوتیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے جس زمانے میں ان خیالات کو پیش کیا اور تحریک اسلامی ہند کا اپنا منفرد وژن تشکیل دینے کی کوششیں شروع کیں ، اس وقت بہر حال یہ چونکانے والی باتیں تھیں۔خود میں اپنے تعلق سے کہہ سکتا ہوں کہ جس زمانے میں، میں تحریک سے قریب آیا اس وقت ہر جگہ دعوت دین کا چرچا ضرور تھا لیکن اس کی گہری نظریاتی بنیادیں اور تحریک کی مجموعی حکمت عملی میں اس کام کی اساسی اہمیت کا شعور ڈاکٹر صاحب مرحوم کی تحریریں پڑھ کر ہی حاصل ہوا۔
بڑے آدمی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بڑے آدمی پیدا کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم ؒ اس حوالے سے بھی اپنی صف میں ممتاز نظر آتے ہیں۔ ان کی کارگہ فکر کے انجم نے تحریک میں ہم عصروں کو بھی متاثر کیا اور تحریک کے باہر بھی اہل علم و فضل کی ایک بڑی جماعت نے مختلف سطحوں پر ان کے اثرات قبول کیے۔ علی گڈھ میں ان کے معاصرین خواہ فکری اعتبار سے کسی بھی خیمے سے تعلق رکھتے ہوں، ان پر مرحوم نے اپنی شخصیت، اپنے افکار وتصورات اور اپنی درد مندیوں کا گہرا اثر ڈالا ہے۔عالمی سطح پر اسلامی معاشیات اور فکر اسلامی کے نجانے کتنے سرکردہ نام ہیں جنہوں نے آپ سے بھرپور استفادہ کیا۔جہاں تک ان کے شاگردوں کا تعلق ہےوہ تو آج دنیا کے ہر گوشے میں موجود ہیں اور اسلامی معاشیات اور فکر اسلامی کے علم اٹھائے ہوئے ہیں۔
تربیت و شخصیت سازی کے کام میں ان کامیابیوں کا سہرا جہاں ان کے علم و فضل کو جاتا ہے وہیں ان کی خورد نوازی، عالی ظرفی، شفقت و محبت ، اور قدر دانی کے مزاج نے بھی اس میں اہم رول ادا کیا ہے۔ گزشتہ صدی کے اواخر میں ان سے پہلی ملاقات سے لے کر چند سال پہلے ان کی بیماری میں شدت آنے تک، بزرگ شخصیات میں میرا سب سے زیادہ رابطہ مرحوم ہی سے رہا۔ دلی و حیدرآباد میں قرب و جوار میں رہنے والے اہل علم سے بھی استفادہ اتنا آسان نہیں تھا جتنا سات سمندر پار ڈاکٹر صاحب سے ہوجاتا تھا۔ ای میل کیجیے، شام تک جواب آجاتا۔ فون کیجیے تو جواب میں ان کے لہجے کی گرمجوشی اور محبت و شفقت سے کبھی بار بار فون کرنے اور زحمت دینے میں تکلف نہ ہوتا۔ میں انہیں اپنے مضامین رہنمائی و مشورے کے لیے ارسال کرتا تو ، سطر سطر پر ان کے نوٹ اور تبصرے یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہوتے کہ انہوں نے رسماً ہمت افزائی کے کلمات کہہ کر پیچھا نہیں چھڑایا بلکہ مضمون کا لفظ لفظ سنجیدگی سے پڑھا ہے۔کبھی مضمون پر تبصرے کے لیے فون کرتاتو مضمون کی کاپی سمانے رکھ کر بات کرتے۔ صفحہ نمبر اور سطر نمبر کے حوالوں کے ساتھ اس تفصیل سے تعریف و تحسین یا اصلاح و مشورے کا اہتمام فرماتے کہ حیرت ہوتی۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم کا تربیت و حوصلہ افزائی کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ ہم جیسے طالب علموں کو اپنی تحریریں اشاعت سے قبل ارسال فرماتے اور اس پر مشورے طلب فرماتے۔ ہمارے بے تکلف مشوروں بلکہ تنقیدوں پر نہ صرف یہ کہ کبھی برا نہیں مانتے بلکہ بہت خوش ہوتے۔ مجھے اس وقت اپنے بعض وہ تبصرے یا د آرہے ہیں جنہیں ارسال کرنے کے بعد مجھے گھنٹوں شرمندگی کا احساس رہا۔ سخت تنقیدوں کی وجہ سے ، یہ تحریریں ہرگز اس لائق نہیں تھیں کہ ایک کم علم طالب علم کی جانب سے ڈاکٹر صاحب جیسی شخصیت کی خدمت میں پیش ہوتیں۔ لیکن جس فراخ دلی سے بلکہ خوشی سے ان باتوں کا استقبال کیا گیا، اس نے نہ صرف میری علمی ہمت بڑھائی بلکہ میری تربیت میں بھی اہم رول ادا کیا۔ سنجیدہ علمی مزاج، جس عالی ظرفی، وسعت قلبی، غیر جانب داری، اور شائستگی کا تقاضہ کرتا ہے، ڈاکٹر صاحب مرحوم کی شخصیت اس کا خوبصورت نمونہ تھی۔ خیال اور رائے کی جو جراء ت میں نے ڈاکٹر صاحب میں دیکھی ہے وہ شاید ہی کہیں اور دیکھی۔ جس بات کو درست سمجھتے اسے کہنے میں انہیں کبھی باک نہیں ہوتا۔ کسی جگہ کسی صوفی کا قول پڑھا تھا کہ خدا کا خوف عقل کی ابتدا ء ہے اور خدا کا سچا خوف ہر ناقد اور ہر مخالف کے خوف سے نجات عطا کرتا ہے اس لیے دوسروں کی تنقیدوں اور مخالفت سے بے خوفی (بے نیازی نہیں بلکہ بے خوفی) یہ بھی عقل کی ابتداء ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کا مزاج اس کا مکمل عکاس تھا۔ انہوں نے جو بات صحیح سمجھی اور جو محسوس کیا اسے پوری علمی دیانت کے ساتھ بیان کردیا۔
حالیہ دنوں میں راقم نے جگہ جگہ لائف لانگ لرننگ کی اہمیت و ضرورت کو اپنی تقریروں کا موضوع بنایا ہے۔ اس پر بات کرتے ہوئے بھی ذہن میں ہمیشہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا تصور رہا ۔ عمر کے آخر پڑاو پر بھی، نئی چیزیں سیکھنے کا جو جذبہ اور صلاحیت میں نے مرحوم میں دیکھی وہ کہیں اور نہیں دیکھی۔ آج سے بیس پچیس برس پہلے، جب ای میل اور کمیونکیشن ٹکنالوجی کا استعمال نوجوانوں میں بھی عام نہیں ہوا تھا، ڈاکٹر صاحب اس کا بھرپور استعمال فرماتے تھے۔ اردو کمپیوٹنگ اور یونی کوڈ میں اردو کے استعمال پر اس زمانے میں ہم نے بھی کچھ اہم کام کیے تھے۔ مجھے یا د آتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کئی دفعہ فون کرکے اور مسلسل مراسلت کرکے یونی کوڈ کے مفید استعمال کے سلسلے میں ہم کو خدمت کا موقع عنایت فرمایا تھا۔
یہ بات مجھے اور میری بیگم کو ہمیشہ یاد رہی کہ میرے نکاح پر ای میل پر مبارکبادی، انجنیرنگ کے دوستوں کے علاوہ ، صرف ڈاکٹر صاحب مرحوم ؒکی موصول ہوئی تھی۔ اس کے بعد ہر خط میں وہ میری بیوی کو بھی ان کےنام کے ساتھ یاد فرماتے اور دعاوں سے نوازتے۔مجھے ان سے ملنے کے لیے اُن تمام مقامات پر جانے کے موقعے ملے جہاں ہندوستان میں ان کا قیام رہتا۔ علی گڈھ، ان کا آبائی وطن گورکھپور، بمبئی جہاں وہ اپنے نسبتی بھائی کے یہاں تشریف لے جاتے اور دلی جہاں انہوں نے آخر میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ہر جگہ مرحومؒ کی اور ان کی اہلیہ محترمہ (اللہ ان کا سایہ دراز فرمائے)کی جس شفقت و محبت اور گرمجوش مہمان نوازی کا تجربہ ہوا وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ بظاہر یہ باتیں بہت چھوٹی ہیں لیکن ان سے تربیت و شخصیت سازی کے عمل میں کامیابی کے اہم رازوں سے پردہ اٹھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے ۔ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ ان خدمات کے فیض کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ ان کی خوبیوں کی اتباع کی ہم سب پسماندگان کو توفیق بخشے ۔ آمین
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم: ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ – سید سعادت اللہ حسینی
previous post