دربھنگہ: عالمی ادب میں نظمیہ شاعری کو ہمیشہ فوقیت حاصل رہی ہے اور بالخصوص طویل شاعری کی روایت ملتی ہے۔اردو میں بھی ابتدا سے ہی نظمیہ شاعری موضوع اور مواد دونوں اعتبار سے عالمی شاعری کے ہم پلّہ رہی ہے۔کیوں کہ عالمی نظمیہ شاعری کی طرح اردو کی نظمیہ شاعری بھی حقیقت پسندی کی آئینہ دار رہی ہے ۔محمد حسین آزاد اور حالیؔ نے غزلیہ شاعری کے ماحول میں نظمیہ شاعری کو فروغ دینے کی جو بنا رکھی وہ آج بہت ہی مستحکم ہو چکی ہے اورعصرِ حاضر میں اس میں نہ صرف ہیئتی تجربے ہوئے ہیں بلکہ موضوعاتی طورپربھی ایک بڑی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔مذکورہ خیالات کا اظہار اردو کے نامور ادیب وناقد پروفیسر ندیم احمد ، شعبۂ اردو جامعہ ملّیہ اسلامیہ نئی دہلی نے کیا ۔ پروفیسرندیم ادارہ ’’جہانِ اردو‘‘ دربھنگہ کے زیر اہتمام ڈاکٹر مشتاق احمد کے شعری مجموعہ ’’آئینہ حیران ہے ‘‘ کی رسمِ اجرا تقریب میں بطورِ مہمانِ خصوصی کیا۔پروفیسر ندیم نے کہا کہ ’’آئینہ حیران ہے ‘‘ کی شاعری بلا شبہ حیران کرنے والی شاعری ہے ۔کورونا وباء کے خوفناک ماحول میں ایک تخلیقی فنکار کے ذہن کی یہ ادبی اُپج نہ صرف موضوع کے اعتبار سے بلکہ معیار ووقارکے اعتبار سے بھی حوالہ جاتی حیثیت کی حامل ہے۔کورونا وباء نے جس طرح عالمی انسانی معاشرے کو متاثر کیا ہے اور اس کے مضر اثرات نمایاں ہوئے ہیں ان سب کی عکاسی ’’آئینہ حیران ہے ‘‘ کی مشمولہ تیس نظموں میں ہوا ہے ۔ بالخصوص ’’یومِ احتساب، روشن اندھیرا، میں چپ ہوں ، ہم شرمندہ ہیں، عنکبوت، آئینہ حیران ہے ، بدلتے لمحوں کا کرب‘‘ اور ’’لاک ڈاؤن کی عید‘‘ شاعر ڈاکٹر مشتاق احمد کے عرفانِ تخیل اور فنّی دسترس کی غمّاز ہیں۔کورونا کی عاڑ میں کس طرح مزدوروں پر ظلم ڈھائے گئے ہیں اور سیاست نے بدلتے دورمیں سماجی تانے بانے کو کس طرح تار تار کیا ہے اس کی عکاسی بھی نظموں میں دیکھی جا سکتی ہے ۔پروفیسر ندیم نے کہا کہ ڈاکٹر مشتاق احمد اردو دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں کہ وہ ایک ناقد اور کالم نگار کے طورپر اپنی مستحکم شناخت رکھتے ہیں لیکن یہ شعری مجموعہ ’’آئینہ حیران ہے ‘‘ ان کی شعری تخلیقیت کو روشن کرتا ہے۔پروفیسر آفتاب اشرف، صدر شعبۂ اردو للت نرائن متھلا یونیورسٹی ، دربھنگہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ’’آئینہ حیران ہے ‘‘ کی نظمیں اجتماعی شعور کا تخلیقی آئینہ ہے۔ اردو میں نظمیہ شاعری بیش بہاادبی خزانے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ڈاکٹر احمد نے مشمولہ نظموں میں جدید جمالیاتی حسّیات کو تخلیقیت کے پیکر میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔نظموں کی قرأت سے ایک خاص تاثر قائم ہوتا ہے۔ انسان کے اندرونی کرب اور ذہنی انتشارکا امتزاج دکھائی دیتا ہے۔پروفیسر افتخار احمد ، شعبہ اردو متھلا یونیورسٹی دربھنگہ نے کہا کہ ڈاکٹر احمد کی نظموں میں تنوع کا احساس ہوتا ہے اورتجربے ومشاہدے کی فنکاری نظر آتی ہے ۔ڈاکٹر محمد ارشد حسین سلفی نے کہا کہ ’’آئینہ حیران ہے ‘‘ کی نظمیں کورونا اور لاک ڈاؤن کے عرصے کی تخلیق ہے اور اس اذیت ناک عرصے میں عالمی سطح پر جو تصویر سامنے آئی ہے اس کا تخلیقی اظہار یہاں دکھائی دیتاہے۔واضح ہو کہ حال ہی میں ڈاکٹر مشتاق احمد کا شعری مجموعہ ’’آئینہ حیران ہے ‘‘ اردو اور دیوناگری (ہندی) رسم الخط میں الگ الگ شائع ہوا ہے۔اس موقع پر ڈاکٹر مشتاق احمد نے کہا کہ میرا واضح نظریہ ہے کہ تخلیقی قدر وقیمت کے تعین کا آزادانہ اظہارِ حق قاری کو حاصل ہے ، قاری اپنی تنقیدی بصیرت وبصارت کی بدولیت متن کے بطن کی خوشبو کو نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ اپنی حتمی رائے بھی قائم کرتا ہے اورایسا ہونا فطری عمل ہے ۔تخلیق تو فنکار کے اندرون سے پھوٹنے والی ایک کرن کا نام ہے اوروہ کرن تخلیق کار کے آفتابِ تخیل کی دین ہوتی ہے۔ انہوںنے تمام شرکاء کے تئیں اظہارِتشکر پیش کیا کہ اس بحرانی دور میں بھی اس مذاکرے میں شرکت کرکے میری حوصلہ افزائی فرمائی۔
ڈاکٹر مشتاق احمد کے شعری مجموعہ ’’آئینہ حیران ہے ‘‘ کی رسمِ اجرا
previous post