چندنبارہ : پروفیسر کوثر مظہری کی شناخت اردو تنقید میں جرأت و بے باکی، راست گوئی، صلابتِ فکر اور اقدار اساس رجحان کے حوالے سے نہایت مستحکم ہے، اس کے باوجود کوثر مظہری کا امتیاز یہ ہے کہ وہ صرف ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر تنقیدی جگالی ہی نہیں کرتے بلکہ زندگی کے میدانِ عمل میں اتر کر تعلیم، سماج اور خدمتِ خلق سے بھی گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار صاحبِ اعزاز ڈاکٹر خالد مبشر نے مظہر فاؤنڈیشن انڈیا (رجسٹرڈ) کے زیر اہتمام مظہرالحق میموریل لائبریری، چندنبارہ، چمپارن میں منعقد کی گئی استقبالیہ تقریب میں کیا۔ محفل کی صدارت کے فرائض انجام دیتے ہوئے ماسٹر معراج نے کہا کہ علم اور معلم کی عظمت دنیا کے ہر مذہب ، تہذیب، قوم، خطہ اور ہر زمانے میں مسلم رہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے گاؤں کی ایک علمی شخصیت پروفیسر کوثر مظہری نے جو شمع روشن کی، ان کے شاگرد ڈاکٹر خالد مبشر اسی روشنی کو فروغ دینے میں سرگرداں ہیں اور یہ سلسلہ تیسری نسل تک جاری ہے، جس کی نمائندگی کرتے ہوئے آج شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے لائق و فائق طلبا کا ایک وفد یہاں موجود ہے۔ پروگرام کے آغاز میں مظہر فاؤنڈیشن کا تعارف کراتے ہوئے ظفر حبیبی نے کہا کہ مظہر فاؤنڈیشن انڈیا کے تحت گاؤں میں سن ڈائل اسکول قائم کیا گیا ہے، جہاں غریب بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام دہلی میں کئی سیمینار منعقد کیے جاچکے ہیں اور گاہے گاہے فلاحی اور رفاہی خدمات بھی انجام دی جاتی رہی ہیںاور اسی فاؤنڈیشن کے تحت مظہرالحق میموریل لائبریری بھی قائم کی گئی ہے۔ استقبالیہ تقریب میں مولانا رضوان احمد ندوی نے ڈاکٹر خالد مبشر کی شال پوشی کی اور نظامت کے فرائض طنزیہ و مزاحیہ شاعر ماسٹر مشتاق احمد نے انجام دیے۔ اس موقع پر ایک نہایت باوقار اور معیاری شعری نشست کا بھی انعقاد عمل میں آیا جس میں مہمان خصوصی ڈاکٹر خالد مبشراور شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہونہار طلبا سفیر صدیقی، فیض حمیدی اور نوید یوسف کے علاوہ مقامی شعرا میں ظفر حبیبی اور ماسٹر مشتاق احمد نے اپنا کلام پیش کیا۔ اس محفل میں مشہور ڈرامہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر محمد علیم ، سابق سرپنچ محمد اکرام الحق، فیاض ندوی، ظفر احمد ساجد، عبدالصبور اور ماسٹر جمشید وغیرہ موجود تھے۔ تقریب کاآغاز جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم عبدالرحمن کی تلاوت سے ہوا۔ نمونۂ کلام ملاحظہ ہو:
بنامِ رنگ و نسل و ملک و قوم و مذہب و ملت
تعصب اور نفرت ہے، خدایا شعر نازل کر
(خالد مبشر)
حسنِ یار تھا میری جلوہ بار آنکھوں میں
اور شوق اپنا تھا غم گسار آنکھوں میں
(ظفر حبیبی)
دن میں دیوانوں سا ہنستا ہوں شبِ ہجر پہ میں
رات میں لیتی ہیں دن بھر کی خبر دیواریں
(سفیر صدیقی)
اک روایت جو نہ ہوتی تو تمھیں دکھلاتے
فیضؔ سر پھوڑنے میں کیا در و دیوار لگے
(فیض حمیدی)
ہر ایک ظلم پہ چپی ہے مصلحت کیسی
کہیں یہ نفس نہ اپنا غلام ہو جائے
(مشتاق احمد شیداؔ)
نوید مجھ سا نہیں اس پہ مرنے والا کوئی
وگرنہ ایسے بہت ہیں جو اس کے مارے ہیں
(نوید یوسف)
مظہر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ڈاکٹر خالد مبشرکے اعزاز میں استقبالیہ تقریب کا انعقاد
previous post