نئی دہلی:معروف افسانہ نگار اور ناقد ڈاکٹر عشرت بیتاب کے اعزاز میں تسخیر فاؤنڈیشن دہلی اور تنظیم الخیر فاؤنڈیشن بنگال کے اشتراک سے ایک ادبی پرو گرام کا انعقادکیا گیا جس میں مختلف شخصیات نے ان پر اپنے مقالات وخطبات پیش کیے۔صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے سابق چیئر پرسن سی آئی ایل پروفیسر انور پاشا نے کہا کہ ڈاکٹر عشرت بیتاب نے اپنے ادبی سفر میں متعدد تحریکات کو دیکھا۔ انھوں نے اپنے عہد کی تحریکوں کااثر ضرور قبول کیا مگر افسانے کی بنت اور لفظی انتخاب میں اپنی انفرادیت قائم کرنے کی کا میاب کوشش کی۔پروفیسر پاشا نے کہا کہ عشرت بیتاب اپنے افسانوی کرداروں کی روح میں اتر تے ہیں اور کرداروں کو سماج سے جوڑ کر تخلیقی تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کی یہ بھی خوبی ہے کہ انھوں نے ہر عہد کے قارئین کی ذہنی سطح کو سمجھنے کی کوشش کی اور افسانہ لکھتے وقت قاری کے مزاج کوبھی سامنے رکھا ہے۔شازیہ فخر( آسن سول) نے عشرت بیتاب کو اس عہد کا پریم چند قراردیتے ہوئے کہا کہ وہ گاؤں سے جڑے ہوئے مسائل پر بھی غور وفکرتے ہیں اور انسانی نفسیات پر بھی۔ڈاکٹر فاروق اعظم (رانی گنج گرلس کالج بنگال )نے کہا کہ عشرت بیتا ب نے تخلیق و تنقید کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ان کی تنقیدی وتحقیقی سات کتابیں شائع ہیں،وہیں ان کے سات افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے۔ عشرت نے اپنے عہد کو اپنے زاویہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے کسی بڑے افسانہ کے رنگ سے ان کے رنگ کو جوڑنا بہتر نہیں۔ان کے علاوہ محترم رب نواز ( کولکاتا) ، معراج احمد معراج نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ طلعت انجم فخر(بنگال)نے عشرت بیتاب کی استادانہ شفقت کا خصوصی ذکر کیا اور شگوفہ تمنا نے عشرت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ کیا۔ڈاکٹر ارشاد ندوی( رام پور) نے عشرت بیتا ت کے متعدد افسانوں کا جائزہ لیا۔ پروگرام کی نظامت ساجد حسین ندوی ( دی نیو کالج چنئی ) نے کی۔ جب کہ ڈاکٹر عشرت بیتا ب نے اپنے تخلیقی برتاؤ اور علامتی افسانوں پر روشنی ڈالی ۔ انھوں نے کہا کہ تخلیقی اور تنقیدی دونوں امور سے میری دل چسپی رہی اور میں نے مغربی بنگال کی افسانوی تاریخ ترتیب دینے کی کوشش کی۔ اس آن لائن پروگرام میں خورشید عالم، ڈاکٹر امان اللہ ایم بھی (چنئی)ڈاکٹر ظہور الدین، نعیم النسا قریشی،ڈاکٹر خلیل رشی ،محمد نصر ،نہاں انصاری،جوشی عشرت،ڈاکٹر شہریار احمد،زمرودہ محمدمیر،ریحان احمد قادری، منہاح احمد ،کے علاوہ درجنوں کی تعداد میں سامعین موجود تھے۔