مصنف : مولانا عبدالحمید نعمانی
اشاعت:2020ء ، صفحات: 300 ، قیمت : -/295
ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی 25
مولانا عبدالحمید نعمانی بولتے کم کام زیادہ کرتے ہیں ، اور بولتے بھی ہیں تو کام ہی کی بات بولتےہیں ۔
اورمولانا کاکام ہے ، لکھنا پڑھنا ۔ ان کا یہ کام کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اُن کی کتابیں پڑھ کر آسانی سے ہوجاتا ہے ۔ لیکن اردو دنیا کا ایک افسوس ناک سچ ، کتابوں سے لوگوں کی دوری ہے ، اس لیے بہت ممکن ہے کہ مولانا عبدالحمید نعمانی نے ، حالاتِ حاضرہ ، بالخصوص ’ ہندوتو ‘ اور ’ ہندوتوادی قائدین ‘ پر جو کتابیں لکھی ہیں ، اُن سے بہت کم ہی لوگ مستفید ہوئے ہوں ( اللہ کرے میرا یہ خیال درست نہ ہو )۔ خیر ، اس رویے کو اب تبدیل کرنا ازحدمشکل ہے ، مگر کوشش کی جا سکتی ہے ، بلکہ کوشش کی جانی چاہیے کہ اردو دنیا ، کتابوں کے تئیں بےحسی کو درکنار کرے اور کتابوں سے رشتہ جوڑ لے ۔ مولانا عبدالحمید نعمانی کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ہے ، عرصہ تک جمعیتہ علماء ہند سے وابستہ رہے ، اب مسلم مجلس مشاورت کے جنرل سکریٹری ہیں ۔ مولانا کا کتابوں سے پرانا رشتہ ہے ، ’’ ہندو ازم‘ ‘ پر ، اسی نام سے ، ان کی کتابیں دارالعلوم دیوبند میں پڑھائی جاتی ہیں ، ایک علمی کتاب ’’ مسٔلہ کفو و اشاعتِ اسلام ‘‘ کے نام سے ہے ۔ مولانا کی دو اہم کتابیں ، جنہیں انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز ، نئی دہلی نے شائع کیا ہے ، ’’ ہندوتو : اہداف و مسائل ‘‘ اور ’’ ہندوتو اور راشٹرواد ‘‘ کے نام سے ہیں ۔ مولانا نے ہندوتو کی تریمورتی کہلانے والے تین ہندوتوادی قائدین پر تین کتابیں لکھنے کا منصوبہ بنایا تھا ، پہلی کتاب ساورکر پر تھی جو ’’ ساورکر فکر و تحریک : ایک مطالعہ ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوگئی ہے ، دوسری کتاب زیرِ تعارف و تبصرہ ’’ سنگھ کے بانی ڈاکٹر ہیڈ گیوار حیات وتحریک ‘‘ ہے ، تیسری کتاب گروگولوالکر پر ہے جو جلد ہی شائع ہوگی ۔ ان کتابوں کے ناشر بھی انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی ہی ہیں ۔ ڈاکٹر ہیڈگیوار ، راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس ) کے بانی تھے ، ان پر لکھی گئی یہ کتاب ’ نئے بھارت ‘ یا بالفاظ دیگر نریندر مودی ، امیت شاہ اور موہن بھاگوت کے آج کے بھارت کی تعمیر جن بنیادوں پر کی جا رہی ہے ، اُ ن بنیادوں کے لیے استعمال ہونے والے ’ مواد ‘ پر روشنی ڈالتی ہے ۔
کتاب سولہ ابواب پر مشتمل ہے ، اور ہر باب کے اپنے چھوٹے چھوٹے ضمنی عنوانات ہیں ، جس کی وجہ سے کتاب کا مطالعہ آسان ہو جاتا ہے ۔ ابتدا میں ’’ پیش گفتار ‘‘ کے عنوان سے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز ، نئی دہلی کے چیئرمین ، ڈاکٹر محمد منظور عالم نے ، کتاب کی اشاعت کا سبب بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ ہندوتو پر مبنی فکر و عمل کے حامی عناصر کے ذریعے ،’’ تہذیبی ، مذہبی ، وطنی اور تاریخی معاملات کی مخصوص قسم کی تعبیرات سے ملک و قوم کا نقشہ اور خد وخال کا رنگ تیزی سے بدلتا جا رہا ہے ۔ اس کے اسباب و عوامل سیکولر کہی سمجھی جانے والی پارٹیوں ، فلاحی اداروں اور مذہبی و سماجی تنظیموں ، سب کو معلوم ہیں ، لیکن تیزی سے بدلتے سیاسی اور نظریاتی منظرنامے پر سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی اور بے اعتنائی و غفلت شعاری سے کام لیا گیا ، جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں ۔‘‘ وہ آگے لکھتے ہیں ، ’’ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نے اس سوال پر توجہ دی کہ ملک میں یہ الگ طرح کی صورتِ حال کیوں پیدا ہوئی؟ اور کن شخصیات کی کوششوں سے یہ اثرات و نتائج مرتب و برآمد ہو رہے ہیں ؟ مذکورہ سوالات پر توجہ دیتے ہوئے ، ان کے جوابات پانے اور فراہم کرنے پر مولانا عبدالحمید نعمانی نے توجہ دی ۔‘‘ اور اسی توجہ کے نتیجے میں یہ کتاب وجود میں آئی ۔ ڈاکٹر منظور عالم کا کہنا ہے ،’’ سنگھ اپنے مزعومہ ماضی کو اور ہندوتو کو زندہ کرنے اور فروغ کے جو طریقے اپنا رہا ہے ، ان سے ماضی تو زندہ نہیں ہوگا ، لیکن حال ، ماضی میں دفن اور مستقبل راکھ کا ڈھیر ہوکر رہ جائیں گے ۔ ایسی حالت میں ایمان داری اور دیانت داری سے صورتِ حال کا جائزہ لینا ضروری ہوجاتا ہے ۔ ایسی شخصیات اور ان کے افکار و اعمال کا مطالعہ وقت کی اہم ضرورت ہے جو ماضی و حال پر مثبت و منفی لحاظ سے اثر انداز ہوئی ہیں ۔‘‘
مولانا عبدالحمید نعمانی ’’ دستک ‘‘ کے عنوان سے کتاب تحریر کرنے کی غرض وغائت پر بات کرتے ہوئے ، ایک دہلانے والی ، پیشن گوئی کرتے ہیں ، ’’ ہندوتو پر مبنی جارح قوم پرستی اگر اقتدار کے حصول میں معاون بن جائے تو اس سے دست برداری کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ بی جے پی سے یہ بھی امید رکھنا سادہ لوحی ہو گی کہ وہ جارح قوم پرستی اور ہندوتوادی راشٹرواد سے دست بردار ہوجائے گی ۔ ملک میں ہندوتو اور راشٹر واد کے نام پر جو حالات پیدا کر دیے گیے ہیں اس کے پیش نظر یہی لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں جارح قوم پرستی بی جے پی کی سیاست میں علامتی کردار ادا کرے گی ۔ اس سے سنگھ کی موجودہ قیادت کو ایک طرح سے یقین ہو گیا ہے کہ ڈاکٹر ہیڈ گیوار کے خوابوں کے ہندو راشٹر کے قیام میں گنتی کے چند دن رہ گئے ہیں ۔‘‘ اسی لیےمولانا نعمانی اس پر زور دیتے ہیں کہ ’’ داکٹر ہیڈگیوار نے ہندو راشٹر کا جو تصور ہیش کیا ہے ، اس کو سامنے رکھتے ہوئے بھارت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔‘‘ کیا ہے ڈاکٹر ہیڈگیوار کا ہندوراشٹرکا تصور ؟ اور اسے سمجھنا کیوں ضروری ہے ؟ اس کتاب کے ہر باب میں ان سوالوں کے جواب بھی مل جاتے ہیں ، اور ہندو راشٹر کے تصور کو ، عملی جامہ پہنانے کے لیے ، ڈاکٹر ہیڈگیوار کی منصوبہ بندی اور کوششیں بھی سامنے آ جاتی ہیں ۔ کتاب کے پہلے باب کا عنوان ہے ’’ ڈاکٹر ہیڈ گیوار کا ماحول ‘‘۔ اس باب میں ہیڈگیوار پر ، دورِ غلامی کے واقعات سے ، مرتب ہونے والے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے ، بتایا گیا ہے کہ وہ شیواجی سے متاثر تھے ، بال گنگا دھر تلک کے زیرِ اثر رہے ، تلک کے معاون ڈاکٹر بی کے مونجے کے ، جو مسولینی اورہٹلر سے بہت متاثر تھے ، انتہائی قریب رہے ۔ ہیڈگیوار تنظیم سازی و طرزِ عمل میں دونوں فاشسٹوں ، مسولینی اور ہٹلر سے متاثر ہوئے ۔ انہوں نے ساورکر کی کتاب ’’ ہندوتو ‘‘ سے خوب استفادہ کیا ، اور ہندوؤں کو متحد کرنے کی جدوجہد میں لگ گئے ۔ ساورکر کی مذکورہ کتاب میں اسلام ، مسلمانوں اور عیسائیوں کو ’ بیرونی ‘ قرار دے کران کے اثرات کو ختم کرنے پر زور دیا گیا گیا ہے ۔ ہیڈگیوار کی سوچ پر ’ مسلمانوں کے لیے الگ نمائندگی کےمسٔٔلے ،‘ ’ تحریک خلافت ،‘ اور ’ کانگریس کے ہندوتوادی لیڈروں کے ذریعے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک لکیر کھینچنے کی کوششوں ‘ نے ، ہیڈگیوار کی سوچ کو ،کہ ہندوؤں کو متحد کیا جانا چاہیے ، مزید پختہ کیا ۔ انہوں نے کولکتہ میں اپنی تعلیم کے دوران ’خفیہ سرگرمیوں ‘ میں بھی حصہ لیا تھا ، لہذٰا وہ خوب جانتے تھے کہ ’ مقصد ‘ تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے ۔ اور ۲ ، ستمبر ۱۹۲۵ ء کو انہوں نے آر ایس ایس کا قیام کر دیا ۔ اس باب میں یہ بھی ذکر ہے کہ ہیڈگیوار کانگریس میں شامل تھے ۔ دوسرے باب ’’ سنگھ کے قیام کے اسباب و مقاصد ‘‘میں مولانا نعمانی نے تفصیل کے ساتھ اور مصدقہ ذرائع اور حوالوں سے اس سچ کو اجاگر کیا ہے کہ سنگھ کے قیام کا بنیادی مقصد ملک کی آزادی کے لیے جدوجہد نہیں تھا ، جیسا کہ سنگھ کے حلقے دعویٰ کرتے ہیں ۔ مولانا نعمانی لکھتے ہیں کہ ’’ ان کو لگ رہا تھا کہ دلتوں کے عروج اور مسلم اور عیسائی آبادی کی موجودگی سے برہمن واد اور منووادی افکار و روایات کے غلبے و تفوق پر مبنی جو سماج تشکیل پایا تھا ، وہ گزرتے دنوں کے ساتھ کم زور اور بے چہرہ ہوتا جا رہا ہے ۔‘‘ لہذٰا ’’ انھوں نے دلتوں اور محنت کرنے والے طبقات کا سیدھے سیدھے مقابلہ کرنے کےبجائے ، برہمن وادی سماج کو ہندو سماج کا نام دے کر اس (برہمنوں ، اونچی ذاتوں اور سورنوں ) کے زوال اور کم زوریوں کو عروج اور طاقت میں بدلنے کا منصوبہ بنایا ۔‘‘ آر ایس ایس اسی منصوبے کی تکمیل کا پلیٹ فارم تھا ، اور ہے ۔ اس سچ کو ثابت کرنے کے لیے ہیڈگیوار کی تقاریر کے اقتباس ’ داخلی شہادت ‘ کے طور پر کتاب میں پیش کیے گئے ہیں ۔ اس باب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چونکہ کانگریس میں رہتے ہوئے وہ یہ سب نہیں کر سکتے تھے ، اس لیے وہ کانگریس سے علیحدہ ہوئے تھے ۔ اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ ہیڈگیوار نے ہر’’ فرقہ وارانہ اتحاد ‘‘ کی مخالفت کی تھی ۔ اس باب میں سنگھ کی فکر اور اس کے طرزِ عمل پر بھی بات کی گئی ہے ۔ سنگھ اور اس کی ذیلی تنظیموں کی ایک ہی فکر ہے ، ’’ ہندوتو کے نام پر سنگھ کے حلقے کو ہر شعبۂ زندگی اور نظام میں برتری و تفوق حاصل ہو جائے اور ہندوراشٹر قائم کر کے دیگر تمام کو محکوم و مقہور کی زندگی گزارنے کے لیے تیار کر دیا جائے ، اس طور سے کہ ان کی کوئی تہذیبی ، مذہبی اور نظریاتی شناخت نہ رہ جائے ۔ ‘‘ اور اِن دنوں اس کی پوری کوشش ہے ۔ اس کے لیے ’ خوف کی سیاست اور نفسیات ‘ کا استعمال کیا جاتا ہے ، ’ احساسِ فخر و برتری پیدا کر کے ماحول سازی کی جاتی ہے ‘ ، اس کے لیے ’ شکتی پوجا ‘ کا عمل ہے ،’ راشٹرواد ‘ کا شور ہے ،’ ابہام ‘ سے مقاصد تک پہنچنے کی راہ آسان کرنا ہے ۔ تیسرا باب ’’ ڈاکٹر ہیڈگیوار کا تہذیبی و مذہبی نظریہ ‘‘ انتہائی اہم ہے کہ اس میں حوالوں سے ثابت کیا گیا ہے کہ جسے ’ تہذیب ‘ کہا جاتا ہے وہی ’ دھرم ‘ ہے ۔ ہیڈگیوار کی ایک تقریر کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا ’’ اس دیس سے ہندو سماج اور ہندو سنسکرتی ( تہذیب) ختم ہو کر آزادی ملتی ہے تو وہ ہندواستھان کی آزادی نہیں ہوگی اور اس آزادی کی حقیقت میں کوئی قیمت بھی نہیں ہوگی ۔‘‘
کتاب کا ایک اہم باب ’’ تحریکِ آزادی میں ڈاکٹر ہیڈگیوار کا رول ‘‘ ہے ۔ مولانا نعمانی سرکاری و غیر سرکاری دستاویزات ،تاریخ ِ آزادی پر مستند تحریروں اور خود سنگھ کے لٹریچر کے حوالوں کی بنیاد پر لکھتے ہیں کہ آزادی کی تحریک میں ڈاکٹر ہیڈگیوار کا ذکر ’’ نہیں کے برابر ہے ۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہیڈگیوار ’’ برہمن وادی سنسکرتی کو ہندوستان کے نام پر بچانے کی کوششوں کو تحریکِ آزادی پر ترجیح دیتے تھے اور آزادی کے لیے جدوجہد ترجیحات میں بہت پیچھے چلی گئی تھی ، وہ براہِ راست لوگوں کو تحریکِ آزادی سے الگ رہنے کی بات کہنے کی بجائے ذرا گھما کر اور کچھ باتوں کو درمیان میں لا کر کہتے تھے ۔ ان کی کوشش یہ نظر آتی ہے کہ سنگھ اور ان کا نام برٹش حکومت کے مخالفوں کی فہرست میں شامل نہ ہو ۔‘‘ آگے کے ایک باب میں ہیڈگیوار کی سرگرمیوں پر انگریز حکمرانوں کے شکوک اور الزامات کا ، بالخصوص نازی ازم اور ہٹلر شاہی کے الزام کا ، تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے ۔ اور اس بات پر خاص زور دیا گیا ہے کہ ہیڈگیوار نے انگریزی حکومت کے شکوک ، اقدامات اور پابندی کے باوجود آر ایس ایس کو آگے بڑھانے کی جدوجہد جاری رکھی ، بلکہ ’ پابندیوں کو مواقع کے طور پر استعمال کیا ‘۔ ایک باب ’’ ڈاکٹر ہیڈگیوار ، سنگھ ، ساورکر اور ہندو مہاسبھا نزدیکیاں اور دوریاں ‘‘ کے عنوان سے ہے ، اس میں ہندوتوادی تنظیموں اور ہندوتوادی قائدین کے درمیان نزدیکیوں اور اختلافات پر بات کی گئی ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ ہیڈگیوار نے کبھی بھی سنگھ کو دوسری تنظیموں اور ہندوتوادی قائدین کے زیرِ سایہ ، نہ تو چلنے دیا نہ ہی جانے دیا ۔ آر ایس ایس کی اپنی ایک علیحدہ شناخت برقرار رکھی ۔ کتاب میں ہیڈگیوار اور مختلف شخصیات کے درمیان تعلقات پر بھی تفصیلی مواد شامل کیا گیا ہے ، مثلاً مونجے ، تلک اور مہاتما گاندھی سے تعلقات ۔ ایک دلچسپ باب ’’ ڈاکٹر ہیڈگیوار اور کانگریس ‘‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس باب میں کانگریس میں شرکت ، کانگریس کی ضرورت اور کانگریس سے علیحدگی کی اہم تاریخ سمو دی گئی ہے ۔ کتاب کا اہم ترین باب ’’ ڈاکٹر ہیڈگیوار ، اسلام اور مسلمان‘‘ ہے ۔ اس باب کا خلاصہ یہ ہے کہ سنگھ نے اپنے آغاز سے لے کر آج تک اسلام اور مسلمانوں کو مرکز میں رکھا ہے کیونکہ ’’ اس کے بغیر ڈاکٹر ہیڈگیوار اور سنگھ کے دیگر اہلِ مناصب کو لگتا رہا ہے کہ ہماری تنظیم بےزمین سی ہو جائے گی اور اس کا سفر درمیان ہی میں رک جائے گا ۔‘‘ ہندوراشٹر کے تعلق سے باب میں مولانا نعمانی نے آسانی کے ساتھ یہ سمجھا دیا ہے کہ ’’ ہندتو اور ہندو راشٹر ‘‘ کسے کہتے ہیں ؟ وہ لکھتے ہیں ’’ ہندو راشٹر قائم ہوئے بغیر اس کا ( ہندوتو کا ) راشٹر وجود میں نہیں آسکتا ۔‘‘ کتاب میں آر ایس ایس کی تنظیموں ، اداروں ، تشہیری ذرائع اور اخباروں و جریدوں کی بھی تفصیلات بھی پیش کی گئی ہیں اور سنگھ کی توسیع اور شاکھاؤں کے قیام کی تاریخ اور عمل کو بھی بیان کیا گیا ہے ۔ اردو میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جو سنگھ کے بانی ہیڈگیوار کی حیات اور فکر کے حوالے سے سنگھ کی سرگرمیوں اور اس کے سچ اور جھوٹ اور منصوبوں کو پوری تفصیل سے سامنے لاتی ہے ۔ مولانا نعمانی نے اس کے لیے سنگھ کے لٹریچرکا گہرا مطالعہ کیا ہے ، اس کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا جانا چاہیے ۔
ہیڈگیوار کے حوالے سے یہ کتاب آج کے ، اور آنے والے ہندوستان کی ، تصویر دکھاتی ہے ، اس لیے اس کا مطالعہ ہم سب کے لیے ضروری ہے ۔ اس موقع پر ایک بات کتاب کے ناشر ، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز ، اور اس کے چیئرمیں ڈاکٹر منظور عالم سے کہنی ہے ۔ کتاب کے لیے آپ کا شکریہ لیکن اس کتاب کے پروڈکشن پر کیوں توجہ نہیں دی گئی؟ آپ کا ادارہ ایک بڑا ادارہ ہے ، اس کا یقیناً اپنا ایڈیٹوریل بورڈ بھی ہوگا ( اگر نہیں ہے تو انتہائی افسوس ناک بات ہے ) آخر کیوں اس نے کتاب کی تصیح پر اور اس کی ایڈٹنگ پر توجہ نہیں دی ۔ کتاب کے ہر صفحہ پر پروف کی بے شمار غلظیاں ہیں ، جملے بے ربط ہو گئے ہیں ۔ میں مثالیں نہیں دوں گا بس اتنی درخواست کروں گا کہ اس کتاب کا پروف پھر کروائیں اور اسے اس کے شایان شان شائع کریں تاکہ مولانا عبدالحمید نعمانی نے جو محنت اس پر کی ہے اس کا انہیں صلہ مل سکے ۔