Home مکالمہ ڈاکٹر تابش مہدی سے ایک ملاقات-ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی

ڈاکٹر تابش مہدی سے ایک ملاقات-ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی

by قندیل

سوال (۱): محترم ! میں چاہوں گا کہ سب سے پہلے آپ کے خاندانی پس منظر سے قارئین کو آگاہ کیا جائے۔ براہ کرم اس سلسلے میں کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالیں۔

جواب: گرچہ میرا آبائی وطن ضلع پرتاب گڑھ کا وہ حصہ ہے جو ضلع جون پور کے مغربی سرحد سے تقریباً پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اُسے رام دیو پٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لیکن وہ میرا وطن محض نام اور نسبت کی حد تک ہے۔ میری پیدایش اور ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے نانیہال موضع ناجیہ پور میں ہوئی، جو شہر پرتاب گڑھ کی آغوش میں ندی کے اس پار واقع ہے۔میرے نانا محترم میاں ثابت علی ناجیہ پوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے عہد کے معروف درویش، صوفی اور صاحب تقویٰ و طہارت بزرگ تھے۔ پرتاب گڑھ اور اس کے مضافات میں انھیں مرجع کی حیثیت حاصل تھی۔لوگ دور دور سے ان کے پاس مختلف بیماریوں کے علاج اور جھاڑ پھونک کے لیے بھی آتے تھے اور اپنے خانگی یا ہمسائی جھگڑوں کے فیصلوں کے سلسلے میں بھی۔ نانا محترمؒ کو یہ امتیاز اس وجہ سے بھی حاصل تھا کہ وہ انیسویں صدی عیسوی کے ربعِ آخر اور بیسویں صدی کے ربع اوّل کے مشہور داعی، مصلح اور مجدّد حضرت مولانا سیّد محمد امین نصیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ سے شرف ارادت رکھتے تھے۔حضرت سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ امیر المؤمنین ، مجاہد یگانہ حضرت سید احمد شہید رائے بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادے کے ایک روشن و تاب ناک چشم و چراغ تھے اور علمِ حدیث و فقہ میں انھیں علامہ عبدالحئی فرنگی محلیؒ کا اعتماد و اعتبار حاصل تھا۔ اضلاع پرتاب گڑھ، سلطان پور، جون پور، اعظم گڑھ اور باندہ کے بعض حصوں میں ان کی مسلسل آمد و رفت رہتی تھی۔ ان کے مواعظ میں لوگ جوق در جوق شریک ہوتے تھے اور اصلاح و تربیت حاصل کرتے تھے۔ ان کی اصلاح و تربیت کا انداز کچھ ایسا منفرد تھا کہ لوگ اس سے فیض یاب بھی ہوتے تھے اور دیر تک ان کے دلوں پر اس کا اثر بھی قائم رہتا تھا۔ اس اندازِ تربیت کا بڑا حصہ نانا محترمؒ کے حصے میں بھی آیا تھا ۔ علاقے کے ہندو مسلم اور چھوٹے بڑے ہر ایک کے دل میں ان کی عظمت بھی تھی اور خوف بھی۔ اس لیے کہ حضرت سید نصیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح وہ بھی سامنے والے پر، اس کی سرکشی اور حق سے واضح انحراف پر ہاتھ بھی اٹھا دیتے تھے۔

چوں کہ گھر میں کوئی چھوٹا بچہ نہیں تھا اور ان کی بیٹیوں اور بیٹوں کی اولادنرینہ میں مجھے اولیت حاصل تھی، اس لیے میری پیدایش کے فوراً بعد ہی نانا محترمؒ اور نانی محترمہؒ نے اعلان فرمادیا تھا کہ یہ نواسہ ہمیشہ ہمارے ہی پاس رہے گا اور ہم ہی اس کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پوری زندگی میں ناجیہ پور میں ہی رہا اور انھی کی نگرانی میں میری ابتدائی تعلیم و تربیت ہوئی۔ آبائی وطن سے کبھی کوئی نام کا بھی تعلق نہیں قائم ہوسکا۔لیکن نانا محترم اور نانی محترمہ کے انتقال کے بعد میرے لیے وہ سہولتیں نہ باقی رہیں، جو ان دونوں بزرگوں کی موجودگی میں تھیں۔ میں نے وہاںغیر معمولی تنگی محسوس کی۔ چناں چہ بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں ہی میں کسی اطلاع کے بغیر گھر سے باہر نکل گیا اور حصول علم میں سرگرداں رہا۔ اس وقت بھی نہ جانے کیوں وطن کی طرف توجہ نہیں ہوئی۔مجھے اپنے اس رویے پر اب تک حیرت ہے۔ حالاں کہ سب خصوصاً والدۂ محترمہ میرے لیے بے حد مضطرب رہتی تھیں۔ تعلیم کا ایک مرحلہ طے کرلینے کے بعد سے والد اور والدہ کی حیات تک میں وقفے وقفے سے میں اپنے آبائی وطن جاتا رہا ہوںاور قیام بھی کرتا رہا ہوں، لیکن اس قیام کی مدت بس مہمانوں جیسی ہی رہی۔

سوال (۲):ڈاکٹر صاحب! اب میں آپ کے تعلیمی سفر کے بارے میں ذرا تفصیل سے جاننا چاہوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا یہ سفر ہمارے لیے افادیت سے خالی نہیں ہوگا۔

جواب: سب سے پہلے تو آپ پر یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ میری تعلیم منصوبہ بند طریقے سے یا کسی ترتیب کے ساتھ نہیں ہوئی۔ جیسا کہ میں نے پہلے سوال کے جواب میں بتایا ہے کہ میری ابتدائی تعلیم و تربیت میرے نانا حضرت شاہ ثابت علی ناجیہ پوریؒ کی نگرانی اور سرپرستی میں ہوئی۔ ۱۹۶۳م میں ان کے انتقال کے کچھ ہی دنوں کے بعد نانی محترمہؒ کا بھی انتقال ہوگیا۔ میں بہ وجوہ نہ اپنے نانیہال میں رہ سکا اور نہ اپنے والد اور والدہ ہی کے پاس جانے کی بات ذہن میں آئی۔ نانا اور نانی کے انتقال کے بعد میں یکایک حفظ قرآن کی غرض سے شہر پرتاب گڑھ کے مدرسوں مدرسہ بیت العلوم اور مدرسہ امینیہ میں رہا۔ اس کے بعد مدرسہ عالیہ سبحانیہ الٰہ آبادمیں داخلہ لے لیا۔ الٰہ آباد کا یہ مدرسہ اپنے زمانے میں پورے ملک میں تجوید و قرأت کے لیے مشہور تھا اور مجھے اس فن سے فطری مناسبت تھی۔ چوں کہ دنیا میں میرا کوئی سرپرست و کفیل نہیں تھا، اس لیے الٰہ آباد یا جہاں بھی میں زیر تعلیم رہا اپنے خوردونوش کا انتظام بھی میرے ذمے تھا۔ اس کم عمری میں میں نے کس طرح اس کا نظم کیا یا اس کے لیے مجھے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے، یہ ایک لمبی اور تکلیف دہ داستان ہے۔جب الٰہ آباد سے میں نے بہ روایت حفصؒ تجوید و قرأت کی سند حاصل کرلی تو اس غرض سے حصول علم کا سلسلہ ترک کرکے بہت کم عمری ہی میں ضلع پرتاب گڑھ کے قصبۂ بابو گنج کے مدرسہ باب العلوم کی ملازمت اختیار کرلی اس ارادے سے کہ ملازمت سے معتدبہ رقم اکٹھا ہوجانے کے بعد کسی عربی مدرسے میںداخلہ لے کر عربی(درسِ نظامی) کی تعلیم حاصل کروں گا۔ کم عمری کا زمانہ تھا، آواز بھی خاصی اچھی اور دل کش تھی،اس لیے وہاں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔مدرسے میں تجوید و قرأت کی وجہ سے اپنی اس غیرمعمولی پزیرائی کو دیکھ کر دل میں جذبہ پیدا ہوا کہ میں تجوید و قرأت کے سلسلے کی تعلیم کو کچھ اور آگے بڑھائوں۔عربی و فارسی کی تعلیم اس کے بعد حاصل کروں گا۔اُسی زمانے میں پرتاب گڑھ شہر میں مدرسہ شاہی مرادآباد کے نام ور عالم دین حضرت مولانا اختر شاہ سنبھل رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بڑی محبت و شفقت کا معاملہ فرمایا۔ چناں چہ حضرت مولانا اختر شاہ سنبھلی ؒکی وساطت سے میں نے ضلع مراد آباد کے قصبے حسن پور کا رخ کیا۔ وہاں شیخ القراء حضرت قاری حفظ الرحمن پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کے ممتاز شاگرد حضرت قاری شوکت علی قاسمی چلکانویؒ تجوید و قرأت کا ایک ادارہ چلارہے تھے۔حضرت قاری شوکت علی ؒ کی وجہ سے اسے غیر معمولی شہرت حاصل تھی۔ وہاں رہ کر میں نے قرأت سبعہ کی مشق بھی کی اور اجرا بھی۔ وہاں کے بعد پھرمیں اپنے سابقہ عزائم کی بنیاد پر ایک مدرسے میں ملازم ہوگیا۔ اب یہ جذبہ زور پکڑگیا کہ بہت جلد کسی عربی مدرسے میں داخلہ لے کردرسِ نظامی کی تکمیل کروں۔

ابھی میں نے ایک مدرسے میں ملازمت کا سلسلہ شروع ہی کیا تھا کہ ایک جلسے میں اپنے عہد کے جید عالم و خطیب اورتاریخ نگار شاعر مولانا بلالی علی آبادی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے۔ مولانا بلالی علی آبادی جید عالم دین بھی تھے اور ہر دل عزیز خطیب و مقرر بھی اور درویش صفت سخن ور بھی۔انھیں ایک سے زائد ارباب تصوف سے ارادت و اجازت کا بھی شرف حاصل تھا۔ شاعری میں بڑے زودگو اور قادرالکلام واقع ہوے تھے۔ معراج، ہجرت اور کربلا کے واقعات کو انھوں نے بڑی تفصیل اور فنّی چابک دستی کے ساتھ نظم کیا ہے۔جلسے میں ان سے ملاقات ہوئی۔ میرا کسی قدر تفصیلی تعارف ہوا۔ اس کے بعد ان کے ساتھ ضلع کے کئی جلسوں میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔میں نے مدرسے والوں سے ایک ہفتے کی رخصت لے لی تھی۔ اس دوران میں انھیں میری صلاحیتوں کا بھی اندازہ ہوا اورمیری ان مجبوریوں کا بھی، جو تعلیمی ارتقا میں مانع تھیں۔

مولانا محترم ؒ نے ان جلسوں سے فارغ ہونے کے بعد میرا پتا نوٹ کیا اور کچھ دنوں کے بعد اپنے وطن جاکر مجھے طلب فرمالیا ۔مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے وطن ضلع بہرائچ کے قصبۂ نواب گنج علی آباد کا مدرسہ فیض العلوم کے نام سے ایک بڑا مدرسہ قائم تھا۔اس کے سربراہ مولانا محترمؒ ہی تھے۔ لیکن بعض مقامی انتشارات کی وجہ سے وہ ترقی نہیں کرپارہا تھا۔ مولانا نے مجھے اپنے اس مدرسے میں ایک مجود اور مقری کی حیثیت سے رکھنے کا ارادہ کیا تو مقامی طور پر ہلچل مچ گئی۔ ہلچل کی سب سے بڑی وجہ میری کم عمری تھی۔ اس وقت تک میں بہت کم عمر تھا ۔میری داڑھی کے بال بھی نمودار نہیں ہوئے تھے۔یہ بات قصبے والوں کی سمجھ سے باہر تھی کہ ایک کم عمر لڑکا اتنی ذمے داری کا شعبہ سنبھال سکے گا۔ یوں بھی وہ لوگ کسی اور کی سفارش کررہے تھے۔

مولانا محترم ؒنے نواب گنج علی آباد کی مقامی سیاست سے مجبور ہوکرارادہ ملتوی کردیا۔ البتہ انھوں نے میرے لیے یہ طے کیا کہ میں نواب گنج سے قریب کی ایک بستی راجا پور میں امامت و تدریس کی خدمت انجام دوں اور روزانہ وہاں سے آکر مولانا سے عربی و فارسی پڑھوں۔ چناں چہ یہ سلسلہ کافی دنوں تک چلتا رہا۔ میں راجا پور سے کئی میل کے فاصلے سے چل کر روزانہ پیدل آتا اور مولانا محترمؒ سے سبق لے کر واپس چلا جاتا تھا۔ پہلے فارسی پڑھی آمد نامہ، گلزار دبستاں، گلستاںاور بوستاں۔ اس کے بعد عربی کی ابتدائی کتابیں شروع کیں۔

نواب گنج آمد و رفت کا میرا سلسلہ پابندی جاری رہا لیکن مجھے رفتہ رفتہ یہ محسوس ہونے لگا کہ یہ سلسلہ میری تعلیم کے لیے زیادہ سود مند نہیں رہے گا۔ اس لیے کہ اولاً تویہ کہ مولانا محترمؒ زیادہ تر سفر پر رہتے تھے۔ وعظ و تقریر کے لیے انھیں دور دور جانا ہوتا تھا۔کبھی کبھی مجھے بھی رفیقِ سفر رکھتے تھے۔ ایسی صورت میں تعلیم میں اختلال ضروری تھا۔ اس لیے کہ میری تعلیم کا سلسلہ صرف انھی سے تھا۔ دوسری بڑی وجہ یہ کہ تعلیم کے لیے استاذ اور مدرسے کے ساتھ ساتھ ایک ماحول بھی ضروری ہے۔ آنا سبق لے کر چلے جانا اور سبق بھی اکیلے ہی لینا یا سنانا تعلیم خصوصاً عربی تعلیم کے لیے زیادہ کارآمد نہیں۔الّا ماشاء اللہ۔ چناں چہ میں نے اپنے اس احساس کا ذکر استاذ محترمؒ سے بھی کیا۔ آں محترمؒ نے اس کی تصویب فرمائی اور میری سوچ کی تحسین بھی کی۔

اگلے سال میں نے استاذ محترمؒ اور مخدومی حضرت مولانا ابوالوفا شاہ جہاں پوریؒ کے مشورے سے مرکز علوم مدرسہ قرآنیہ جون پور میں داخلہ لے لیا۔مرکز علوم مدرسہ قرآنیہ مشرقی یو پی کا سب سے قدیم مدرسہ ہے۔ دارالعلوم دیوبند سے بہت پہلے اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔یہاں درس نظامی کے ساتھ علوم شرقیہ کے عربی و فارسی کے مولوی، عالم، فاضل، منشی اور کامل کے امتحانات کی تیاری کرائی جاتی تھی۔مرکز علوم مدرسہ قرآنیہ میں تعلیم کے دوران میں بھی میرا کچھ ایسا سلسلہ بن گیا کہ میں اپنے مصارف کے لیے خود کفیل رہا۔ اساتدہ اور ذمہ داران مدرسہ نے بھی مجھ پر خصوصی توجہ رکھی۔ وہاں کی تعلیم کے دوران میں نے نہایت خاموشی کے ساتھ مولوی اور عالم کے امتحانات پاس کیے۔ پھر ایک مرحلہ ایسا آیا کہ میں نے مدرسے کو خیرباد کہہ دیا۔ اس کے بعد کئی سال تک میرا تعلیمی سلسلہ منقطع رہا۔ میں مختلف اداروں میں ایک آوارہ پنچھی کی طرح جاتا اور وہاں سے رخصت ہوتا رہا۔

۱۹۷۴م کے اواخر میں میں دارالعلوم امروہہ میں مجوّد و مقری کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگا۔ اسی دوران میںسلطان سخن علامہ شہباز صدیقی امروہویؒ سے وابستگی ہوئی۔ ان کی سیادت و نگرانی میں میں نے فارسی کے منشی اور کامل اور جامعہ اردو علی گڑھ کے بعض امتحانات پاس کیے۔ انگریزی بھی انھی سے پڑھی اورعلم عروض میں جو تھوڑی بہت مجھے شُد بُد ہے وہ انھی کا فیضان ہے۔ اس کے بعد پھر امتحانات کا سلسلہ چل پڑا ۔۱۹۸۹م میں آگرہ یونی ورسٹی سے اردو میں امتیازی نمبروں کے ساتھ ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو میں پروفیسر عنوان چشتی کی رہ نمائی میں پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن کرالیا ۔ یہاں سے جامعہ کی اردو تنقید سے متعلق پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

یہ ہیں آپ کے سوال کے مطابق میرے تعلیمی سفر کی تفصیلات۔ اس میں کتنی ژولیدگیاں اور پیچیدگیاں ہیں، انھیں آپ محسوس کرسکتے ہیں۔اس سلسلے کی مزید تفصیلات کے لیے ایک ضخیم کتاب درکار ہے۔

سوال (۳): آپ نے اپنے صحافتی سفر کا آغازدیوبند کی رسائل ’تجلی‘ ،’اجتماع‘ اور ’الایمان‘ وغیرہ سے کیا۔براہ کرم ذرا تفصیل کے ساتھ اپنی صحافتی زندگی کے بارے میں بھی بتائیں۔

جواب: میری صحافت کا آغاز پندرہ روزہ ’پیغام حق‘ سے ہوتا ہے۔ یہ پندرہ روزہ جنوری ۱۹۷۲م پرتاب گڑھ سے جاری ہوا تھا۔ ان دنوں میں ابوالکلام آزاد اسکول پرتاب گڑھ سے وابستہ تھا، جو کہ اب ڈگری کالج کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اپنے عہد کے جید عالم ،ادیب اور دانش ور مولانا محمد اسرار خاں اس کے مدیر اعلیٰ اور طابع و ناشر تھے۔جب کہ میں اس کا مدیرتھا۔ چوں کہ مکرمی اسرار صاحب پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے، اس سلسلے میں ان کی مصروفیات زیادہ تھیں، اس لیے میری کم عمری اور ناتجربہ کاری کے باوجوداس کی ساری ذمہ داریاں میرے ہی سپرد تھیں۔ لیکن بہ وجوہ یہ اخبار زیادہ دنوں تک نہیں چل سکا۔ ۱۹۷۷م میں ڈاکٹر جلیس سہسوانی نے مجھے اپنے ادبی ماہ نامہ ’گل کدہ‘ کا معاون مدیر مقرر کردیا۔یہ رسالہ سہسوان ضلع بدایوں سے نکلتا تھا۔ان دنوں میرا قیام تو امروہہ میں تھا، لیکن میں ’گل کدہ‘ کے لیے مسلسل ساعی اور کوشاں رہتا تھا۔اسی دوران میں مشہور عالم دین و مصنف مولانا محمد یوسف اصلاحی نے اپنے مقبول عام مذہبی و ادبی ماہ نامہ ’ذکریٰ‘ رام پور کا معاون مقرر کیا ۔ کچھ دنوں میں نے امروہہ رہتے ہوئے اس کی اعزازی خدمت انجام دی، اس کے بعد مستقل ملازم کی حیثیت سے رام پور چلا گیا اور اپنے حصے کی مختلف ادارتی ذمہ داریاں انجام دیں۔

اگست ۱۹۷۸م میں اپنے استاذ محترم مولانا عامر عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی اہلیہ محترمہ اور ان کے داماد و قلمی جانشیں مولانا حسن احمد صدیقی(موجودہ حسن الہاشمی) مدیر ماہ نامہ ’تجلی‘ دیوبند کی طلب پردیوبندچلا گیا اور اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے ماہ نامہ ’تجلی‘ کی تمام مفوضہ ذمہ داریاں انجام دینے لگا۔ اسی دوران میں ادارۂ ’تجلی‘ کے ذمہ داروں کا پندرہ روزہ اخبار ’اجتماع‘ کے اجرا کا پروگرام بناتو مجھے اس کا مدیر بنادیا گیا۔ چناں چہ یہ ذمہ داری بھی میں انجام دینے لگا۔ جولائی ۱۹۷۹م میں بہ وجوہ مجھے ادارہ ’تجلی‘ سے علاحدہ ہونا پڑا۔ میں عارضی طور پر سہ روزہ و روزنامہ اخبار ’دعوت‘ دہلی میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ ’دعوت‘ سے وابستگی کے دوران میں ہی میں دلی سے نکلنے والے ادبی ماہ نامہ ’سند‘ میں جزوقتی ملازم رہا۔ اس لیے کہ میری شادی ہوچکی تھی اور ’دعوت‘ سے آمدنی اتنی نہیں تھی کہ گھر کا خرچ آسودگی کے ساتھ چلایا جاسکے۔ یہ سب سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ مغربی دنیا کے مشہور داعی و مبلغ ڈاکٹر عبدالرحمن داعی کو دیوبند سے ایک اصلاحی ماہ نامہ جاری کرنے کا خیال آیا۔ چوں کہ وہ ماہ نامہ تجلی دیوبند اور پندرہ روزہ ’اجتماع‘دیوبند میں میری تحریریں پڑھتے رہتے تھے اور انھیں یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ میں ادارۂ ’تجلی‘ سے الگ ہوگیا ہوں، اس لیے اس کی ادارت کے لیے ان کی نظر انتخاب اس ناچیز کی طرف گئی۔وہ خود نائیجیریا کے شہرزاریا میں احمددبیلو یونی ورسٹی میں اسلامی قانون کے پروفیسر تھے اورمسلسل تبلیغی سفر بھی کرتے رہتے تھے۔ اس لیے ان کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ دیوبند سے نکلنے والے کسی رسالے کی ادارتی و انتظامی ذمہ داری سنبھال سکیں۔ چناں چہ ۱۹۸۰م میں دیوبند سے ماہ نامہ ’الایمان‘ کا اجراء ہوا اور میں ہی اس کا ایڈیٹر بھی تھا اور پرنٹر، پبلشر اور پروپرائٹر بھی۔ الحمدللہ یہ رسالہ بڑی کام یابی کے ساتھ کئی برس تک چلتا رہا اور اس کے کئی وقیع نمبر بھی شائع ہوئے۔

فروری ۱۹۹۱م میں ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی جب ماہ نامہ ’زندگیٔ نو‘نئی دہلی کے مدیر منتخب ہوئے تو انھوں نے بہ حیثیت معاون مدیر میرا تقرر کرلیا۔ کم و بیش ایک سال کے بعد میرا ’زندگی‘ سے رشتہ منقطع ہوگیا اور میں مرکزی مکتبہ اسلامی میں ایڈیٹر کی حیثیت سے ملازم ہوگیا۔ اس ادارے میں ایڈیٹر کی حیثیت سے کسی کی یہ پہلی پوسٹنگ تھی۔ شاید اب تک آخری بھی ہے۔ مسودات کو تصنیفی قواعد و ضوابط میں ڈھال کر اور ان کے علمی و فنی نقائص کو دور کرکے کتابت یا کمپوزنگ کے لیے انھیں دینا، یہی میری ذمہ داری تھی۔ کتابوں کا پیش لفظ اور مصنفین کا تعارف بھی میں ہی لکھتا تھا۔ ڈاکٹر فریدی نے جولائی ۱۹۹۶م میں پھر میری ضرورت محسوس کی اور جون ۱۹۹۶ سے مجھے جزوقتی طور پر ’زندگیٔ نو‘ کا اسسٹنٹ ایڈیٹر بنادیا۔ یہ سلسلہ ۱۹۹۹م تک چلتا رہا اسی دوران میں دلی سرکار کے اردو ادارے ’اردو اکادمی دہلی‘ کے ادبی ترجمان ’ایوان اردو‘ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے میراتقرر ہوگیا۔ میں مرکزی مکتبہ اسلامی اور ماہ نامہ زندگیِ نو سے طویل رخصت لے کر اردو اکادمی چلا گیا اور ’ایوان اردو‘ کی ادارتی ذمہ داریاں سنبھالنے لگا۔لیکن وہاں زیادہ دنوں تک بات نہیں بن سکی۔ کیوں؟ یہ تفصیل طلب امر ہے۔ بہ ہر حال میں پھر مرکزی مکتبہ اسلامی میں لوٹ آیا۔ ۳؍جولائی ۲۰۰۹م کو میں مرکزی مکتبہ اسلامی کے قانون کے مطابق ۵۸سال کی عمر میں وہاں سے رٹائرڈ ہوگیا تو ماہ نامہ ’زندگیٔ نو‘ کے ذمے داروں نے سہ بارہ مجھے ماہ نامہ ’زندگی نو‘ میں بہ حیثیت معاون مدیر رکھ لیا اور یہ سلسلہ فروری ۲۰۱۳م تک چلتا رہا۔

اب گرچہ میں کسی اخبار یا رسالے میں ملازم نہیں ہوں تاہم اعزازی طور پر ماہ نامہ ’پیش رفت‘ نئی دہلی اور عالمی رابطۂ ادب اسلامی کے اردو ترجمان سہ ماہی ’کاروان ادب‘ لکھنؤ کی مفوضہ خدمات حسب توفیق انجام دیتا رہتا ہوں۔

سوال(۴): ڈاکٹر تابش مہدی صاحب! آپ دیو بند میں ایک مدت تک قیام پزیر رہے۔ آپ کے ادبی اور صحافتی سفر میں دیوبند کا کس قدر دخل ہے؟

جواب: عزیزم! میں دیوبند میں قیام پزیر ہی نہیں رہا، اب بھی دیوبند میں میرا قیام ہے۔ دیوبند کے محلہ خانقاہ میں میرا مکان ہے، مسلسل آمد و رفت رہتی ہے۔ وہاں سے جو رشتہ ہے، شاید وہ کبھی منقطع نہ ہوسکے۔ میرے بچوں کا نانیہال اور میری سسرال دیوبند ہی ہے۔ دیوبند اور وہاں کی نورانی و روحانی فضا سے میں خود کو کبھی الگ نہیں کرسکا اور نہ کرسکوں گا۔

یوں تو دیوبند سے میرا قلبی و روحانی رشتہ بہت قدیم ہے۔ لیکن ۱۹۷۸م سے اس میں زیادہ استحکام پیدا ہوا ہے۔ جب میں وہاں پہنچا ہوں تو سب سے پہلے وہاں کے بعض اکابر علما سے میرا رابطہ ہوا۔ ان میں سے بعضوں کی مجلسوں کامیں حاضرباش رہا۔ حضرت قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عصری مجالس میں تو میں ان کی زندگی بھر شریک ہوتا رہا۔ چوں کہ میں ادارۂ ’تجلی‘ میں کام کرتا تھا اورجماعت اسلامی سے متعلق میری سرگرمیاں مشہور و معروف تھیں،اس لیے میں باضابطہ طور پردارالعلوم میں داخلہ نہیں لے سکا۔ البتہ خاموشی کے ساتھ حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی، حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیریؒ، حضرت مولانا نصیراحمد خاںؒ اور حضرت مولانا سید فخرالحسن صاحبؒ کے دروس حدیث میں پابندی کے ساتھ شریک بھی ہوتا رہا ہوں اور ضروری نوٹ بھی تیار کرتا رہا ہوں ۔ گویا میں کہہ سکتا ہوں کہ میں دارالعلوم دیوبند کا دورۂ حدیث کا طالب رہا ہوں۔ دیو بند اور دارالعلوم دیوبند سے مجھے بے حد فیض پہنچا ہے۔

یہ تو صحیح ہے کہ میں نے ہندستان کے مختلف رسائل و جرائد اور اخبارات میں کام کیا ہے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ ایک مصنف یا صحافی کی حیثیت سے میں دیوبند ہی سے متعارف ہوا ہوں۔ وہاں کی مجلسوںخصوصاً حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیریؒ، سید محبوب رضویؒ، اور استاذ محترم مولانا عامر عثمانی کی صحبتوں نے مجھے بہت کچھ دیا ہے۔ میرے فکر و قلم کو بُرّش یہیں سے حاصل ہوئی۔

سوال (۵): ڈاکٹر صاحب! آپ ادیب و شاعر بھی ہیں اور تنقید نگار بھی۔ نقد و تحقیق میں آپ کی کئی کتابیں حوالے کا درجہ رکھتی ہیں۔ براہ کرم بتائیں کہ کیا دہلی، لکھنؤ، عظیم آباد وغیرہ کی طرح دیوبند کو بھی اردو زبان و ادب کا ایک دبستاں قرار دیا جاسکتا ہے؟

جواب: بلا شبہ دیوبند کو علمی، مذہبی اور فقہی دنیا میں ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے ۔ ہندستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے بڑے علمی طبقے میں اسے ازہر الہند کی حیثیت دی جاتی ہے اوراُسے یہ حیثیت کوئی یوںہی نہیں دے دی گئی، بل کہ اس کے پیچھے دیوبند کی وہ خدمات ہیں، جو کم و بیش ڈیڑھ صدیوں کو محیط ہیں۔لیکن اردو زبان و ادب میں ایک دبستاں کی حیثیت سے اس کی تعیین قدر کرنا محض عقیدت کی بات ہوگی، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

سوال(۶): آپ نے بہت کم عمری میں اپنے استاذ محترم علامہ شہباز امروہوی کے ہم راہ مشاعروں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ بعد میں عالمی سطح پر بھی آپ کو مشاعروں میں شرکت کا بھرپور موقع ملا۔ بہ راہِ کرم اپنے تجربات کا اشتراک کریں؟

جواب: میں نے سب سے پہلے اپریل ۱۹۷۰ میں ضلع جون پور کے قصبہ صبرحد کے مشاعرے میں شرکت کی۔ یہ میری شاعری کا بالکل ابتدائی دور تھا۔ اس زمانے میں میں علامہ بلالی علی آبادی سے وابستہ تھا اور خط و کتابت کے ذریعے سے اپنی ٹوٹی پھوٹی شاعری پرانھی سے اصلاح لیتا تھا۔ پھر کچھ دنوں کے بعد حضرت آرزو لکھنوی کے ممتاز شاگرد حضرت سروش مچھلی شہری سے اصلاح لینے لگا۔ وقتاً فوقتاً مچھلی شہر جاکر بھی ان سے استفادہ کرتا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے، جب میں پرتاب گڑھ میں مقیم تھا۔ اس کے بعد مولانا عامر عثمانی سے وابستگی ہوئی اور ڈاک کی وساطت سے کئی غزلوں پر ان سے اصلاحیں لیں۔ پھر جب میں بہ غرض ملازمت امروہہ پہنچا، وہاں کی شعری و ادبی محفلوں میں شرکت کی اور علم و ادب کی ہر سطح پر دبستان مصحفی کے نامور سخن ور، اردو و فارسی شعریات و ادبیات اور علم عروض کے جید عالم علامہ شہباز صدیقی امروہوی کے جلوے دیکھے تو کامل طور پر انھی کی بارگاہ سے وابستہ ہوگیا۔ علامہ شہباز امروہوی ایک سنجیدہ شاعر تھے۔ خصوصاً نعت و مناقب میں انھیں یدطولیٰ حاصل تھا۔ لیکن ۱۹۵۵ میں آنکھوں کی شدید بیماری کے بعد جب وہ نابینا ہوگئے تو ان کا اشہب قلم طنز و ظرافت کے میدان میں بھی دوڑنے لگا۔ پھر اس میدان میں انھیں اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ انھیں اکبر ثانی کے لقب سے یاد کیا جانے لگا اور ہندو پاک کے بڑے بڑے مشاعروں میں انھیں صدر کی حیثیت سے مدعو کیا جانے لگا۔ امروہہ پہنچنے تک میں مشاعروں کی دنیا میں میں خاصا متعارف ہوگیا تھا، استاذ محترم کی معیت نے اس میں اضافہ کردیا اور مجھے بہ کثرت چھوٹے بڑے مشاعروں میں مدعوکیا جانے لگا۔ یہ میری خوش نصیبی رہی ہے کہ میں جن اساتذہ یا مربیوں سے وابستہ رہا ہوں، وہ سب کے سب اپنی اپنی جگہ پر علم و ادب کی دنیا میں آفتاب و ماہ تاب کی حیثیت بھی رکھتے تھے اور مذہبی و روحانی طور پر بھی انھیں ایک بڑے حصے میں درجۂ اعتبار حاصل تھا ۔ان سب کا مجھ پر یہ اثر مرتب ہوا کہ مشاعروں کی دنیا سے وابستہ ہونے اور اسے اپنا ذریعہ معاش بنالینے کے باوجود میں وہی تابش مہدی رہا جو آج قارئین شعرو ادب کے سامنے ہوں۔ میں نے کبھی نہ حالات سے سمجھوتا کیا، نہ سامعین کی سطح پر آکر ان کی پسند و ناپسند کا خیال کرکے شاعری کی۔دوسرے معاملات میں بھی وہ رویہ نہیں اختیار کیا جو آج کے مشاعرے باز شعرا کا طرۂ امتیاز ہے۔ اس لیے کہ مجھے ہمیشہ اپنی شناخت اور اپنے مربیوں سے اپنی وابستگی کا احساس رہاہے۔اِسی احساس نے میری حفاظت کی ہے۔

سوال (۷): محترم تابش مہدی صاحب! آپ تقریباً بیس ہی سال کی عمر سے جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے تھے۔ لیکن آپ نے خود کو تنظیمی خول میں بند کرکے نہیں رکھا۔ اس کے پس پردہ کوئی خاص وجہ؟

جواب: عزیزم! آپ کی یہ معلومات درست نہیں کہ میں بیس سال کی عمر سے ہی جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوں۔ جماعت اسلامی ہند سے میری وابستگی کی داستان بڑی دل چسپ ہے۔ میں اس وقت جماعت اسلامی سے وابستہ قرار دے دیا گیا تھا، جب میں نے جماعت اسلای کا شاید نام تو سن رکھا ہو لیکن وہ کیا ہے؟ وہ کیا چاہتی ہے یا اس کے بانی کون ہیں؟ اس کا مجھے کوئی علم نہیں تھا۔

جس زمانے میں میں جون پور میں زیر تعلیم تھا، وہاں اچانک ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ میں جماعت اسلامی کا فرد ہوں ۔ کئی اساتذہ مجھے تیکھی نگاہوں سے دیکھنے لگے اور طلبہ ساتھی تو مسلسل ’مودودیہ‘ کہہ کر لعن طعن کرتے رہے۔میں نے جب اس کا ذکر اپنے مربی مولانا نورالحسن خان صاحب اور مدرسہ کے مدرس اعلیٰ استاذ محترم مولانا محمد ایوب صدیقی سے کیا تو انھوں نے برے تأسف کے ساتھ کہا کہ ’بابو! تمھارے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ تم جماعت اسلامی کے فرد ہو اور یہاں طلبہ میں تم اس کی تبلیغ بھی کرتے رہتے ہو۔ جب کہ جماعت اسلامی ہمارے یہاں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھی جاتی۔ اس کے بانی ابوالاعلیٰ مودودیؒ نہایت آزاد فکر اور باطل نظریے کے آدمی ہیں۔‘ میں نے عرض کیا کہ حضرت! میں تو جماعت اسلامی یا ابوالاعلیٰ سے واقف ہی نہیں ہوں۔ آپ کی بات میں سمجھ نہیں سکا۔انھوں نے فرمایا کہ ’یہ بات مصدق ہے کہ تم جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہو۔ ابھی کل رات ہی تم نے اس کے اجتماع میں شرکت کی تھی۔‘ اب مجھ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ گزشتہ شب مدرسے کے ایک معزز ممبر حکیم ظہیر حیدر صاحب کی معیت میں، میں جس جلسے میں شریک ہوا تھا اور وہاں ان کے کہنے سے تلاوت قرآن مجید بھی کی تھی، وہ یقینا جماعت اسلامی والوں کا کوئی جلسہ تھا ۔ حالاں کہ میں اس جلسے میں صرف تلاوت قرآن مجید کی حد تک ہی شریک ہوسکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شاید حکیم صاحب نے جلسے والوں سے وعدہ کرلیا تھا کہ میں اپنے مدرسے کے ایک طالب علم کو لائوں گا، اس کی تلاوت سے اجتماع کا آغاز کیا جائے۔ پھر میں نے اپنے اساتدہ،ساتھیوں اور اس ماحول کو بہت مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ میرا تعلق جماعت اسلامی سے نہیں ہے ۔میں اس سے واقف بھی نہیں ہوں۔ لیکن کسی نے میری ایک نہ سنی۔ آخر کار مجھے درمیان سال ہی میں مدرسے کو الوداع کہنا پڑا۔ پھر نہ جانے میری پیشانی پر کیا لکھا ہوا تھا کہ جب میں امروہے کے دارالعلوم چلہ سے وابستہ ہوا تو وہاں بھی لوگ مجھے جماعت اسلامی ہی کا فرد سمجھتے رہے۔ اسی دوران میں ایک بہت بڑے عالم دین اور شیخ الحدیث کی ایک کتاب جماعت اسلامی اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے خلاف آئی۔ (یہاںکتاب اور مصنف کا نام بتانا مناسب نہیں) تودارالعلوم کے صدر مدرس اور شیخ الحدیث حضرت مولانا انصارالحق صدیقی جو بہ وجوہ مجھ سے بے حد محبت کرتے تھے اور میرے وہاں کے تقرر میں پیش پیش تھے۔ انھیں جماعت اسلامی سے میری وابستگی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ جماعت سے میری کسی قسم کی وابستگی نہیں تھی۔ انھوں نے مراد آباد سے وہ کتاب منگواکر اپنے شاگرد مولانامحمد یٰسین مرادآبادی کے ذریعے سے مجھ تک پہنچائی۔ محترم مولانا کا خیال تھا کہ وہ کتاب پڑھنے کے بعد جماعت اسلامی اور اس کے بانی ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا زیغ و ضلال مجھ پر واضح ہوجائے گا اور میں اس سے تائب ہوجائوں گا۔یہ بہ ہر حال ان کی مخلصانہ سوچ تھی۔ لیکن یہ عجیب لطیفہ ہوا کہ وہی کتاب پڑھنے کے بعد جماعت اسلامی بھی میری سمجھ میں آئی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نظریہ و فکر بھی مجھ پر واضح ہوا۔ وہیں سے جماعت اسلامی سے میری وابستگی کا آغاز ہوا۔

جماعت اسلامی سے میرا باقاعدہ تعلق ۱۹۷۷ میں ہوا۔ا س کے بعد کچھ دنوں تک میرا یہ حال تھا کہ جہاں کہیں بھی میں جماعت اسلامی کے خلاف کوئی کتاب یا مضمون دیکھتا، اسے ضرور پڑھتا اور ان حوالوں کی تہ تک بھی پہنچنے کی کوشش کرتا تھا،جو اس کتاب یا مضمون میں ہوتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ میری یہ سرگرمی اس حد تک بڑھ گئی کہ جماعت اسلامی اور اس کا پیغام ہی میرا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ لیکن چوں کہ جیسا کہ پیچھے کہیں میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ میری تعلیم و تربیت ایک روحانی اور متصوخانہ گھرانے میں ہوئی، عمر کے بہت ابتدائی حصے میں اپنے عہد کے نام ور شیخ طریقت اور اویس دوراں حضرت شاہ فضل رحماں گنج مراد آبادیؒ کے سلسلے کے مشہور بزرگ حضرت مولانا شاہ محمد احمد پھول پوری رحمۃ اللہ علیہ کا دامن گرفتہ ہوگیا تھا، کم و بیش دو برس تک مصلح الأمت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ فتح پوری رحمۃ اللہ علیہ کی صباحی مجالس سے فیض یاب ہوتا رہا ہوں اور میرے دوسرے اساتذہ بھی روحانی سلاسل سے تعلق رکھتے تھے، ان سب کے اثرات نے مجھے ہمیشہ روحانی گرفت میں رکھا اور جہاں یاجوباتیں مجھے اُن قدروں سے متصادم نظر آئیں، ان سے مجھے ہمیشہ نفرت سی رہی۔ اس سلسلے میں میں کبھی کسی گروہ یا تحزب کا شکار نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ حلقۂ جماعت اسلامی میں بھی جہاں تعقل پسندی، آزاد خیالی، انکارحدیث، عدم تکریم صحابہ یا پرویزیت کے اثرات نظر آئے، میں نے کسی رو رعایت کے بغیر اپنی حیثیت و بساط کے مطابق ان کی مخالفت کی ۔ زبانی بھی اور تحریری بھی۔ مجھے اپنے اس رویے کی وجہ سے گرچہ ظاہری طور پر نفرت و تعصب کی نگاہ سے تو نہیں دیکھا گیا، لیکن میرا احساس ہے کہ ایک وہ طبقہ مجھ سے بعد اختیار کرنے لگا، جو کبھی میرے بعض علمی و تحقیقی کاموں کی وجہ سے مجھے عزیز و محبوب رکھتا تھا۔

سوال (۸): آپ ادب اور مذہب کو کس نظریے سے دیکھتے ہیں؟

جواب: آپ کے اس سوال کا جواب تو بہت سامنے کا ہے۔ ادب کو ادب کی نظر سے دیکھا جائے گا اور مذہب کو مدہب کی نظر سے۔ ادب حسن کلام اور تاثیر کلام کا نام ہے۔ میں اس ادبی حلقے سے تعلق رکھتا ہوں جو ادب کو سماج یا معاشرے کے مصلح و مربی کے طور پر دیکھتا ہے۔ مذہب بھی انسانوں کی اصلاح و تربیت کا علم بردارہے، جس شخص میں جتنی گہری مذہب سے وابستگی ہوگی، اتنا ہی وہ شخص سماج، معاشرے، ملک، اور پوری دنیا کے لیے مفید اور مؤثر ہوگا۔اسی طرح سے آپ یہ سوچ سکتے ہیں جس شاعر یا ادیب میں جس حد تک مذہب کی اخلاقی، روحانی اور انسانی قدروں کی پاس داری ہوگی، اسی حد تک وہ اپنے ادب میں بھی اپنی ان خوبیوں یا خصوصیتوں کو سمو سکے گا۔ دراصل یہی وہ ادب ہوگا، جسے ہم سید عبداللہ، حسن عسکری ،نثار احمد فاروقی، عنوان چشتی، ابن فرید، عبدالمغنی اور بعض دوسرے ناقدین کے نظریے کے مطابق سماج یا معاشرے کا مصلح ، مربی یا معلم سمجھتے ہیں۔

سوال (۹):ڈاکٹر تابش مہدی! اردو زبان کی تعمیر و ترقی میں دینی مدارس کا اہم رول رہا ہے اور ضمناً ادب کی ایک سے زائد اصناف میں بھی اہل مدارس نے اپنی شرکت درج کرائی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب: میں آپ کے اس نظریے سے متفق ہوں کہ اردوزبان کی تعمیر و ترقی میں مدارس عربیہ کا اہم رول رہا ہے۔ بل کہ ایک قدم آگے بڑھ کر میرا نقطۂ نظریہ ہے کہ کم از کم ہندستان کی حد تک جو چند اہم اور ممتاز شعرا بیسویں صدی کے اہم ستون سمجھے جاتے رہے ہیں، ا ن کی پوری کی پوری تعلیم صرف اور صرف مدارس عربیہ کی ہی رہین منت رہی ہے۔ خواہ وہ شفیق جون پوری، نیاز فتح پوری، نشور واحدی، مجروح سلطان پوری اور کیفی اعظمی، ہوں خواہ عامر عثمانی، فضا ابن فیضی، عزیز ربانی عزیز اور ابوالمجاہد زاہد وغیرہ۔ اس طرح کے نہ جانے کتنے نام میں درج کراسکتا ہوں، جن کی پوری تعلیم مدارس عربیہ میں ہوئی۔ مدارس عربیہ کے علاوہ کہیں ہوئی ہی نہیں۔

سوال (۱۰): ڈاکٹر صاحب! کیا مدارس میں اردو زبان و ادب کو باضابطہ نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا؟

جواب: ہندستانی مدارس میں چوں کہ تعلیم اردو ذریعۂ تعلیم سے ہوتی ہے۔ اس لیے عام طور سے یہ خیال پایاجاتا ہے کہ فارغین مدارس کو اردو زبان آگئی۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ اردو زبان و ادب میں اُنھی فارغین مدارس کی کوئی شناخت بنی ہے، جنھوں نے فراغت کے بعد علاحدہ سے اپنے طور پر اس سلسلے میں کچھ کوشش کی ہے۔ اگر وہاں اردو زبان و ادب کو نصابی حیثیت حاصل ہوتی تو فارغین مدارس کو جو وقت زبان و ادب کی تعلیم پر صرف کرنا پڑتا ہے، وہ کسی اور جز پر صرف ہوتا۔پھر بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی۔ میں اکثر ذمہ داران مدارس سے گزارش کرتا رہتا ہوں کہ وہ اپے اپنے طور پر اردو زبان و ادب کو اپنے نصاب میں شامل کریں۔

سوال (۱۱): کیا آپ کی نظر میں اردو زبان و ادب کی کوئی ایسی تاریخ ہے، جس میں دینی مدارس کی لسانی و ادبی خدمات کو بھی جگہ دی گئی ہو؟ اگر نہیں تو اس کے اسباب و عوامل کیا رہے ہوں گے؟

جواب: میرے محدود علم اور مطالعے کے مطابق اردو زبان و ادب کی ایسی کوئی تاریخ موجود نہیں ہے، جس میں دینی مدارس کی ادبی و لسانی خدمات کو جگہ دی گئی ہو۔ اس کے عوامل بہت کچھ ہو سکتے ہیں۔ اس کی تفصیل کے لیے وقت درکار ہے۔ سردست بس اتنا ہی کافی ہے۔

سوال (۱۲): ڈاکٹر صاحب ! آپ کی معلومات بہت وسیع ہے۔ براہ کرم مدارس کے تربیت یافتگان میں بیس ایسے مستند و معتبر شعرا وادبا کے اسمائے گرامی بتائیں، جنھیں استاذ کی حیثیت حاصل رہی ہو اور دوسرے اسکول کے شعرا و ادبا نے بھی ان سے استفادہ کیا ہو؟

جواب: عزیزم !آپ نے بیس کی تعداد لکھ کر اپنے سوال کو امتحانی پرچے کی حیثیت دے دی ۔ گزشتہ سطور میں آپ کے سوال کے ذیل میں میں نے جن شعرا کے اسماے گرامی لکھے ہیں، وہ سب اساتذہ کی ہی فہرست کے لوگ ہیں۔ ان سے ہر طبقے کے شعرا نے استفادہ کیاہے۔ آپ چاہیں تو ان میں علامہ سید افق کاظمی امروہوی، علامہ بلالی علی آبادی، مولانا ابوالوفا عارف شاہ جہاں پوری، مولانااحسن مارہروی، مفتی نسیم احمد فریدی امروہوی، مولانا کاشف الہاشمی،مولانا رونق گیاوی کا اضافہ کرسکتے ہیں۔

سوال (۱۳): ڈاکٹر صاحب! آپ نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی فرمائی ہے۔ کیاادب اطفال میں بھی آپ نے کچھ لکھاہے؟

جواب: میں نے اطفالی شعرا پر بھی لکھا ہے اور نثر نگاروں پر بھی اور ادب اطفال کی اہمیت و افادیت کو ہمیشہ میں نے محسوس بھی کیا ہے، لیکن میں نے خود بچوں کے لیے نظم یا نثر میں کبھی کچھ نہیں لکھا۔یہ میری محرومی ہے۔ حالاں کہ یہ صنف زیادہ توجہ کی مستحق ہے۔

سوال(۱۴): اردو کے تحفظ کے لیے آپ کی نظر میں سب سے ٹھوس، مؤثر اور عملی قدم کیا ہوسکتا ہے؟

جواب: میرے عزیز!اردو زبان کے تحفظ کے لیے بنیادی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم دلائیں۔ ابتدائی بھی اور ثانوی اور اعلیٰ تعلیم بھی۔ اپنے اعزہ و اقربا کو بھی اس کے لیے آمادہ کریں اوروسیع پیمانے پر مختلف سطحوں کے اردو مدارس کے ساتھ ساتھ شبینہ و صباحی نظام کے تحت بھی اردو تعلیم کا نظم کریں۔ اردو رسائل، جرائد اور کتب خریدکر پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ اگر ہم کسی ادارے، کالج یا کسی دوسری نوعیت کی صنعتی کمپنی کے ذمے دار ہیں تو اس میں ملازمتوں کے لیے ان لوگوں کو ترجیحی حیثیت دیں ،جن کے پاس متعلقہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اردو نوشت و خواندکی بھی صلاحیت ہے۔ اور وہ اردو کی کوئی نہ کوئی سند رکھتے ہیں۔ میرے نزدیک اردو کے فروغ و ارتقا کے لیے یہ ایک مؤثر اور قابل عمل منصوبہ ہوگا۔

سوال (۱۵): اردو کی نئی نسل کے نام آپ کا کوئی پیغام؟اگر شعری پیکر میں ہوتو اور بھی اچھا ہے۔

جواب: عزیزم! نئی نسل کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ تاہم میں اردو زبان و ادب سے جڑے ہوئے نوجوانوں کو اس بات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ اردو محض ایک زبان نہیں ہے، یہ ایک تہذیب اور کلچر بھی ہے۔ ہم جہاں اور جس معاشرے میں بھی رہیں، اپنے اخلاق ، تہذیب، چلت پھرت اور باہمی میل جول سے یہ ضرور ثابت کرتے رہیں کہ ہم اردو والے ہیں۔ اس سلسلے میںمیرے ایک عزیز نوجوان کا یہ شعر حرز جاں بنانے کے لائق ہے:

وہ اردو کا مسافر ہے یہی پہچان ہے اس کی

جدھر سے بھی گزرتا ہے سلیقہ چھوڑ جاتا ہے

You may also like