اردو میں فرسودہ فرامین و فرمودات ہی تنقیدی بحث و مباحثہ کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ اکثر سمیناروں کے موضوعات میں بھی کہنگی ہوتی ہے، ان میں بھی صرف مخصوص چہروں اور ناموں کی نمائش ہوتی ہے اور زیادہ تر سمیناروں میں کنوینر پروفیسر کی ذریت کا ہی تسلط رہتا ہے۔ اسی لیے یہ تصور عام ہوتا جارہا ہے کہ اردو کی موضوعاتی زمین تنگ سے تنگ تر ہوگئی ہے۔ اردو کی تنگ دامانی کا گلہ پہلے غیروں کو تھا مگر اب اپنے بھی شکوہ بداماں ہیں کہ اردو زبان وادب میں نئی جہات اور زاویوں کے امکانات بھی معدوم ہوئے جا رہے ہیں۔ تحقیق و تنقید کی سطح پر جمود کی سی کیفیت ہے مگر اس منجمد اور مضمحل ماحول میں کچھ ایسے متحرک اذہان بھی ہیں جو نئے موضوعاتی جزیرے کی تلاش میں کامیاب ہیں اور نئی موضوعاتی قندیل سے ذہن و نظر کو نئی روشنی عطا کررہے ہیں۔ ڈاکٹر عابد معز کا شمار ایسے شہیدان جستجو میں کیا جاسکتا ہے جو تحقیق و تنقید میں نئی رہگزر تلاش کرلیتے ہیں اور نئی برق تجلی سے حیرت زدہ بھی کرتے رہتے ہیں۔
اردو کے ڈاکٹر قلمکار بھی ایک نیا موضوعی منطقہ ہے جس کی سیاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر عابد معز نے ایسے نجوم و جواہر اور گوہر تابدار تلاش کر لیے ہیں جن کا اردو سے پیشہ ورانہ رشتہ تو نہیں مگر اس زبان سے ذہنی اور جذباتی لگاؤ ضرور ہے۔ اس لیے اردو سے باضابطہ وابستہ نہ ہونے کے باوجود ایسے افراد نے اردو زبان کی فنی و فکری ثروت میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ یہ بھی احساس دلایا کہ اردو نہ فسانہ بادہ و ساغر ہے اور نہ ہی گل و بلبل کی حکایت سے عبارت ہے بلکہ یہ علمی اور سائنسی زبان بھی ہے۔ تراجم کے ذریعہ ہی سہی مگر اردو نے اپنے دامن میں بیشتر عصری علوم و فنون کو سمیٹ لیا ہے۔ اس ذیل میں شمس الامراء اور دار الترجمہ عثمانیہ کا ذکر ضروری ہے کہ ان کی بدولت اردو سائنسی اور سماجی علوم سے آشنا ہوتی گئی اور جدید سائنسی تکنیکی ایجادات اور تحقیقات بھی اردو زبان کا حصہ بنتے گئے۔ امیر کبیر نواب محمد فخرالدین خاں شمس الامرا حیدرآبادی نے علم پرور اور ادب دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے اردو زبان کو سائنسی سرمایے سے مالال کیا۔ فلکیات، ریاضیات، ہیئت اور دیگر علوم کی کتابوں کے علاوہ میڈیسن سے متعلق بھی کئی اہم کتابوں کے ترجمے کرائے اور طب سے متعلق کتابیں شائع کروائیں۔ ان میں نافع الامراض، خلاصۃ الادویہ، کفایۃ العلاج اور بھوگ بل قابل ذکر ہیں۔ اس کی مزید تفصیل خواجہ حمیدالدین ایم اے عثمانیہ کی کتاب ’شمس الامرا کے سائنسی کارنامے‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
اسی طرح سلطان العلوم میر عثمان علی خان کا قائم کردہ ادارہ جامعہ عثمانیہ کی خدمات بھی آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ اس ادارے کا امتیازی اختصاص یہ رہا ہے کہ یہاں ابتدا تا انتہا ذریعۂ تعلیم اردو تھا۔ جملہ سائنسی اور سماجی علوم کی تعلیم اردومیں دی جاتی تھی۔ شاید اسی مقصد کے تحت دارالترجمہ (سرشت تالیف و ترجمہ کا قیام عمل میں آیا) اور ایک مجلس وضع اصطلاحات بھی قائم کی گئی جس سے ملک کے اعیان و اکابر وابستہ تھے۔ یہاں سے بھی میڈیسین کی کئی اہم کتابوں کے تراجم بھی شائع کیے گئے۔ امراض چشم اور پراکٹیکل فارمیسی جیسی کتابوں کی اشاعت عمل میں آئی۔ ہیلی برٹن کی کتاب کا ترجمہ ’مبادیِ جنسیات‘ کے نام سے ڈاکٹر حیدر علی نے کیا تھا۔ اس طرح کے اور بھی مترجمہ کتابیں شائع کی گئیں۔
یہ فیض ہے ان شخصیات کا بھی جن کا اردو سے پیشہ ورانہ تعلق نہیں ہے بلکہ وہ دوسرے شعبوں اور زبانوں کے فیض یافتہ ہیں یا انھوں نے اسناد حاصل کی ہیں۔ میں نے اپنے مضمون ’اردو سے غیرپیشہ ورانہ افراد کی اردو خدمات‘ موشوعہ ماہنامہ ’یوجنا‘ نئی دہلی، فروری 2021میں ایسے معتبر و مستند ادیبوں اور شاعروں کے حوالے سے لکھا ہے جو معاشیات، کامرس، جغرافیہ، ریاضیات، لاء، انجینئرنگ، نباتات یا تاریخ کے سند یافتہ تھے یا انگریزی ادبیات اور نفسیات سے تعلق رکھتے تھے مگر اردو زبان و ادب کو نئے زاویوں اور امکانات سے روشناس کرایا ہے اور اس زبان کو جمود و تحرک سے باہر نکالا ہے۔ ناوابستگانِ اردو کی اس فہرست میں ادبی مورخین اور تذکرہ نویسوں نے تاریخ ادب اردو، انگریزی کے مصنف رام بابو سکسینہ ایم اے انگریزی اور ضخیم تذکرہ ’خمخان جاوید‘ لکھنے والے لالہ سری رام (ایم اے انگریزی) کے نام بہت ہیں۔ اسی طرح ارد وکے مستند و معتبر محققین میں مالک رام، مختارالدین احمد، کالی داس گپتا رضا، قاضی عبدالودود ، نثار احمد فاروقی، پروفیسر نذیر احمد اوررشید حسن خان ہیں جو اردو کے نہیں بلکہ دوسری زبانوں یا علوم کے سند یافتہ ہیں۔ اردو نقادو ںمیں الطاف حسین حالی، امداد امام اثر، شبلی نعمانی، کلیم الدین احمد، اسلوب احمد انصاری، فضیل جعفری، دیویندر اسر، کرامت علی کرامت وغیرہ کا بھی اردو زبان و ادب سے براہِ راست نصابی یا تدریسی رشتہ نہیں ہے۔ شعری منظرنامے میں بھی زیادہ تر معتبر نام انہی کے ہیں جن کا اردو سے پیشہ ورانہ یا تدریسی تعلیمی تعلق نہیں ہے۔ ایسی شخصیات میں علامہ اقبال، فیض احمد فیض، میراجی، ن م راشد، مجروح سلطانپوری، ساحر لدھیانوی جیسی بڑے نام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فکشن میں بھی رشید جہاں، مصطفی کریم، انور سجاد، حسن منظر، آصف فرخی، خالد سہیل، بلند اقبال وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ دیگر اصنافِ ادب ڈراما، طنز و مزاح، مثنوی اور قصائد کابھی یہی معاملہ ہے حتی کہ اصطلاحات سازی اور فرہنگ نویسی بھی اردو کے آؤٹ سائڈرز کی دین ہیں۔ اس تعلق سے مولوی وحیدالدین سلیم کا ذکر ضروری ہے کہ اصطلاحات سازی کے سلسلے میں ان کی کتاب ’وضع اصطلاحات‘ بنیادی حیثیت اور اہمیت کی حامل ہے۔ اسی طرح اردو میں سائنسی اور تکنیکی ادب تحریر کرنے والوں کی تعداد بھی کافی ہے۔ ان میں بیشتر وہی نام ہیں جن کا اردو ادبیات سے کوئی رشتہ نہیں ہے بلکہ یہ سب سائنس بیک گراؤنڈ کے ہیں۔ طبیعیات، نباتات اور دیگر سائنسی موضوعات کے ڈگری یافتگان ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غالبیات اور اقبالیات میں بھی بیشتر وقیع کام انہی لوگوں کا ہے جن کا دوسرے شعبوں سے تعلق رہا ہے اور جنھوں نے اقبال شناسی کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔ ان میں فزکس کے سند یافتہ وہاب قیصر کا نام نہایت ضروری ہے۔ انھوں نے تفہیم غالب کو ایک نیا زاویہ دیا اور کلامِ غالب کی سائنسی تعبیر و تفہیم کے ذریعے غالب شناسی کی ایک نئی راہ پیدا کی۔ ان کی کتاب ’سائنس اور غالب‘ اس تعلق سے بہت معروف ہے۔ اس کے علاوہ ’غالب کادل‘ کے عنوان سے انھوں نے اپنے ایک مضمون میں ’دل‘ سے متعلق غالب کے اشعار نقل کرنے کے بعد سائنسی زاویے سے ان کی تفہیم و تجزیے کی کوشش کی ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ غالب کے تعلق سے ادبی دنیا میں ایک فقرہ بہت مشہور ہے کہ ہندوستان میں دو مقدس کتابیں ہیں۔ ایک ’وید مقدس‘ اور دوسرا ’دیوانِ غالب‘۔ یہ فقرہ لکھنے والے ’محاسنِ کلام غالب‘ کے مصنف عبدالرحمن بجنوری ایل ایل بی اور باریٹ لا تھے۔ انھو ںنے جرمنی سے پی ایچ ڈی کی تھی۔ خلیفہ عبدالحکیم نے بھی اقبال کو ایک نئے زاویے سے سمجھا اور پرکھا۔ وہ بھی اردو کے نہیں انگریزی کے اسکالر تھے۔
جہاں تک میڈیکل سائنس سے وابستہ افراد کی بات ہے تو انھوں نے اردو زبان کو وسیع تر جولان گاہ عطا کی ہے اور نئی لفظیات واصطلاحات دی ہیں اور علاج تنگی داماں بھی کیا ہے۔ ان ڈاکٹروں نے صرف جسمانی امراض کی تشخیص نہیں کی بلکہ ادبیات عالیہ کی تشکیل و تجمیل میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ذہنی اور نفسیاتی امراض کے اسباب وعلل پر ہی نگاہ نہیں رکھی بلکہ ادب کے گیسوئے برہم کو سنوارا بھی ہے، مگر اردو زبان وادب کے باب میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود انھیں اردو کا آوٹ سائڈر قرار دیا گیا اور عمدا اغماض برتا گیا ۔ اردو سے پیشہ ورانہ رشتہ رکھنے والوں نے اس ذہنی اور جذباتی محبت کی قدر نہیں کی اور ارباب اردو کے جذبہ تکاثر و تفاضل کی وجہ سے اردو کا ایک زریں باب نگاہوں سے اوجھل رہا اور ان یاران اردو نے اس زبان اردو کو میر و غالب اور آتش و اقبال میں ہی الجھائے رکھا، اس سے آگے سوچنے کی جسارت نہیں کی۔ ڈاکٹر عابد معز نے بہت اچھا کیا کہ انھوں نے اس تنگ موضوعی حصار کو توڑا اور اردو کو ایک نیا موضوعاتی کینوس عطا کیا اور یہ بتایا کہ اردو میں بھی میڈیکل لٹریچر ہے ۔طبی ادب سے اردو والوں کے کان تو آشنا تھے مگر اردو میں جدید میڈیکل سائنس سے واقفیت ذرا کم تھی اور یہ بھی کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ایک زمانے میں میڈیکل سائنس کی تعلیم اردو زبان میں بھی دی جاتی رہی ہے اور سینکڑوں افراد نے اردو میڈیم سے ایم بی بی ایس کا کورس کیا ہے اور اس کا وسیلہ بنا جامعہ عثمانیہ حیدر آباد کا میڈیکل کالج جہاں سے ہزاروں طلبا نے اردہ میں ایم بی بی ایس کی ڈکری لی اور کامیاب معالج بنے، مگر صرف طبی تحقیقات و ا انکشافات سے سروکار نہیں رکھا بلکہ مختلف النوع تخلیقات کے ذریعہ زبان و ادب کی ثروت میں بھی اضافہ کیا ۔ عالمی ادبیات میں بہت سے ایسے فزیشین رائٹر ہیں جنھوں نے ادبیات کو نئے زاویوں اور امکانات گی نئی دنیا سے روشناس کرایا اور بنی نوع انسان کو صحت بخش ذہنی و فکری غذا بھی مہیا کی۔ اسمال پاکس ٹیکے کے موجد ایڈورڈ جینز بہت عمدہ نظمیں لکھتے تھے، ملیریا کا جرثومہ دریافت کرنے والے سر رونالڈ راس ناول نگار تھے ۔ انسانی قلب کی پیوند کاری کے لیے مشہور کرسچن برناڈ کالم نگار تھے، انھوں نے آپ بیتی بھی لکھی ۔ امراض قلب کے ماہر گیان چترویدی ہندی کے طنر و مزاح نگار تھے۔ کینسر کے ماہر (oncologist) سدھارتھ مکھرجی بہترین ناول نگار تھے ۔ ڈاکٹر عابد معز نے وہ جنھیں ڈاکٹر قلم کار کہا جاتا ہے عنوان کے تحت اسی نوع کی بیش قیمت معلومات فراہم کی ہیں۔ انھوں نے اسی کے ذیل میں ماہر اعصابیات و نفسیات سگمنڈ فرائڈ اور انٹون چیخوف کا بھی ذکر کیا ہے جنھوں نے کہا تھا کہ طب میری منکوحہ ہے اور ادب میری محبوبہ ان لوگوں نے واقعی محبوبہ کے ناز نخرے اٹھانے اور انھیں سجانے و سنوارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور منکوحہ سے بھی وفاداری برقرار رکھی۔
ڈاکٹر عابد معز کا موضوعی ارتکاز جامعہ عثمانیہ کے اردو قلمکار ڈاکٹر پر ہے، اس لیے اردو زبان کے ذریعہ ڈاکٹری تعلیم پر بالتفصیل روشنی ڈالی ہے اور حیدرآباد میڈیکل اسکول کا ذکر کیا ہے کہ اردو میں میڈیکل کی تعلیم کا آغاز یہیں سے ہوا اور یہ سلسلہ جامعہ عثمانیہ میڈیکل کالج تک پہنچا جہاں مدتوں اردو میڈیم کے ذریعہ میڈیکل کی تعلیم و تدریس جاری رہی۔ شاید اردو میں میڈیکل تعلیم و تدریس کا ہی فیض ہے کہ اردو میں میڈیکل ڈکشنریاں وجود میںآئیں جن میں میڈیکل کی انگریزی اصطلاحات کو اردو پیراہن عطا کیا گیا، ان میں مخزن الجواہر، انگریزی اردو ڈاکٹری لغات (ڈاکٹر غلام جیلانی خان)، لغات طب (حکیم غلام نبی ، ایم اے)، وصی میڈیکل ڈکشنری (مولانا حکیم عزیز الرحمن اعظمی فاضل دیوبند) قابل ذکر ہیں۔ بعد میں حالات اور دیگر تقاضوں کے مدنظر 1950 میں انگریزی میڈیم کر دیا گیا۔ انھوں نے کتاب کے تیسرے باب کو جامعہ عثمانیہ کے اردو ڈاکٹر قلمکار سے مختص کیا ہے اور اس ذیل میں جتنے عثمانیین ڈاکٹر کی جستجو ممکن ہوپائی ان سب کے سوانحی کوائف اور تحقیقی اور تخلیقی آثار سے رو شناس کرانے کی بہت عمدہ کوشش کی ہے۔ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جن کی ڈاکٹری /طبی پہچان پر ادبی شناخت حاوی ہوگئی ہے، ان میں راج بہادر گوڑ، تقی عابدی ، عابد معز کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
عابد معز نے میڈیسین کے کچھ ایسے ماہرین و متخصصین کا بھی تذکرہ قلمبند کیا ہے جنھوں نے اپنی طبی تحقیقات انیقہ کے ساتھ اردو کی ادبیات عالیہ کو توانائی اور تابندگی بخشی ہے۔ ان میں فلوروسس flurosis پر تحقیق کرنے والے ابو الحسن صدیقی، تغذیہ کے ماہر ڈاکٹر عابد معز کے نام اہم ہیں۔ ان ڈاکٹروں میں کچھ شعرا،کچھ مزاح نگار، کچھ کالم نگار ، کچھ محقق اور تنقید نگار ہیں۔ ڈاکٹر شعرا میں مشہور رباعی گو رباعیات الہام، الہامِ ثانی و الہام ثالث کے مصنف رگھو نندن راج سکسینہ ، ماہر امراض قلب اور انگریزی و اردو کے نظم نگار ڈاکٹر ماجد قاضی، ڈاکٹر محمد فصیح الدین خاں ، معروف غزل گو رنگاراؤ رنگین، اینستھیا لوجسٹ اور نظم کے شاعرسعید نواز بہت اہم نام ہیں۔ اردو اخبارات میں کالم نگاری کرنے والوں میں ڈاکٹر مجید خان، سکندر حسن، محمد قطب الدین کے نام آتے ہیں جنھوں نے صحت عامہ سے متعلق کالم لکھ کر بہت اہم معاشرتی فریضہ انجام دیا۔ تحقیق و تنقید میں دو نام تو ایسے ہیں جنھیں کبھی فراموش نہی کیا جاسکتا۔ راج بہادر گوڑ اور تقی عابدی۔
ڈاکٹر راج بہار گوڑ اپنی گراں تنقیدی نگارشات’ادبی مطالعے‘، ’ادبی جائزے‘ اور ’ادبی تناظر‘ کی وجہ سے ادبی حلقے میں مضبوط اور مستحکم شناخت رکھتے ہیں۔ انھوں نے ایک اہم کام یہ بھی کیا کہ اردو ادب سے متعلق انگریزی میں مضامین تحریر کیے جو کتابی شکل میں Randsom Writing کے عنوان سے شائع ہوئے۔ ڈاکٹر تقی عابدی علم وادب کی نہایت معتبر شخصیت ہیں۔ ان کی تحقیقی و تنقیدی کتابوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ ان میں باقیات و ناظرات فیض، فیض فہمی، فیض شناسی، چوں مرگ آید، امجد فہمی، ابواب المصائب او رکائنات نجم بہت اہم ہیں۔
تصنیف و تالیف کے باب میں بھی بہت سے اہم نام ہیں، ان میں سے ابو الحسن صدیقی (انسانی امراض و طب جدید )، ڈاکٹر مجید خان (جدید نفسیات، فکر انگیز نفسیات، شخصیت کی پہچان )، سکندر حسن (عجائبات زندگی، مہد سے لحد تک )، محمد فصیح الدین خان (ارتقا ئے تمدن میں اسلام کاحصہ )، محمد یوسف احمد (مملکت آصفیہ میں اردو زبان کی ترقی و ترویج)، سید اختر احمد (خالق کائنات، اسرار کائنات )، محمد سالک (ڈاکٹر بطور مسیحا )، سید عبدالجلیل (رہنماے صحت )، مصطفی علی زیدی (خلق اعظم، خلق معظم ، پیام امن )، آر طاہر قریشی (ذرا مسکرا دو) وغیرہ ہیں جنھوں نے مقصدی اور مفید موضوعات پر کتابیں لکھیں اور خلق خدا کو فیض و فائدہ پہنچایا۔
ڈاکٹر عابد معز صاحب تصانیف کثیرہ ہیں۔ ان کی مطبوعہ کتابوں میں بات سے بات، موٹاپا ہماری صحت کا دشمن، چکنائی اور ہماری صحت، کولیسٹرال کم کیجیے، نمک کا استعمال کم کریں، ذیابیطس کے ساتھ ساتھ فارغ البال، اردو ہے جس کا نام ہے ،عرض کیا ہے بہت اہم کتابیں ہیں۔ اس کے علاوہ ’حیدرآباد میں اردو زبان کے ذریعے جدید طب‘ ان کی تازہ اہم ترین کتاب ہے جس میں انھوں نے حیدرآباد میں جدید طبی تعلیم کے آغاز اور آصف جاہی حکمرانوں کی سرپرستی کے حوالے سے تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کے بقول حیدرآباد میں جدید طبی تعلیم کا آذاز بذریعہ اردو 1846 میں ہوا اور یہاں اردو زبان سے بے پناہ لگاؤ اور دلچسپ کی وجہ سے جارج اسمتھ کی ادارت میں جدید طب کا جنرل ’طبابت‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ مظفر شہ میری نے اس کتاب پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے بڑی معنی خیز اور فکرانگیز بات لکھی ہے کہ ’’ڈاکٹر عابد معز صاحب دراصل دو بنیادی کام کررہے ہیں، ایک ’تحفظ تاریخ‘ اور دوسرا ’تحفظ فن‘۔‘‘ جامعہ عثمانیہ اور اردو زبان ادب کے حوالے سے ان کی جتنی بھی نگارشات ہیں ان کے پیچھے یہی دو مقاصد کارفرما ہیں۔ یہ کتاب ’جامعہ عثمانیہ کے اردو قلمکار‘ کو بھی اسی سلسلے سے جوڑ کر دیکھا جانا چاہیے۔ اس کتاب کی تصنیف کے محرکات کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ:
’’اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول تویہ کہ میں جامعہ عثمانیہ کا ایم بی بی ایس ڈگری یافتہ میڈیکل ڈاکٹر ہوں اور دوئم یہ کہ جامعہ عثمانیہ کی انفرادیت اردو زبان تھی۔ عثمانیہ یونیورسٹی برصغیر کی پہلی یونیورسٹی ہے جس میں کسی ہندوستانی زبان (اردو) کے ذریعے اعلیٰ تعلیم بشمول طبِّ جدید اور انجینئرنگ پڑھائی جاتی تھی۔‘‘
اس نوع کی کتابیں محنت شاقہ اور عرق ریزی کے بعد ہی وجود میں آسکتی ہیں۔ عابد معز نے نہایت مشکل معرکہ بآسانی سر کر لیا اس کے لیے انھیں صمیم قلب سے مبارکباد۔ مجھے ان کی مسیحا صفت شخصیت سے امید ہے کہ میرے ان مریضانہ الفاظ کو ضرور شرف قبولیت بخشیں گے۔
ڈاکٹر قلم کاروں کی اردو خدمات – حقانی القاسمی
previous post