امریکہ کے سابق صدر براک اوبامہ نے ایک بار کہا تھا کہ ’جب ڈاکٹر من موہن سنگھ بولتے ہیں تو دنیا سنتی ہے‘۔ آج ڈاکٹر من موہن سنگھ خاموش ہو گئے ہیں اور دنیا ان کی بات کر رہی ہے۔ وہ عالمی سطح پر معروف اور تسلیم شدہ ممتاز ماہر معاشیات تھے۔ ان کے اٹھ جانے سے ہندوستان نے اپنا ایک انتہائی لائق سپوت کھو دیا ہے۔ حالانکہ وہ کبر سنی اور متعدد امراض کی وجہ سے خانہ نشین تھے لیکن بحیثیت وزیر خزانہ و وزیر اعطم اٹھائے گئے ان کے اقدامات سے ہندوستان اب بھی فیض پا رہا ہے۔
نرم گفتار، مہذب اور شریف النفس ڈاکٹر من موہن سنگھ ہندوستان میں اقتصادی اصلاحات کے معمار مانے جاتے ہیں۔ پہلے سکھ وزیر اعظم بننے سے قبل انھوں نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے ہندوستانی معیشت کو اپنی اصلاحات سے رفتار دی اور ملک میں ایک نئے اقتصادی دور کا آغاز ہوا۔ انھوں نے 1991 میں اپنی اصلاحات سے ہندوستان کو عالمی معیشت میں تبدیل کر دیا۔ ان کے اصلاحی اقدامات کے نتیجے ہی میں ہندوستان کے بازار عالمی تجارت کے لیے کھل گئے اور انہی اصلاحات کے سبب آج ہندوستان ملک کی تیزی سے ابھرتی ہوئی عالمی معیشت بن گیا۔ موجودہ حکمراں جماعت کے متعدد رہنما اکثر و بیشتر من موہن سنگھ کو طنز و تشنیع کا نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن انھوں نے جو بیج بویا تھا اس کا پھل موجودہ حکومت کھا رہی ہے۔ آج اگر ہندوستان کو تیزی سے ابھرنے والی عالمی معیشت کہا جا رہا ہے تو اس کا سہرا من موہن سنگھ کے سر جاتا ہے۔ اگر انھوں نے ہندوستانی بازاروں کو عالمی تجارت کے لیے نہ کھولا ہوتا اور سرکاری کمپنیوں کے ڈس انوسٹمنٹ کے اقدامات نہ کیے ہوتے تو ہندوستان بھی عالمی اقتصادی کساد بازاری کا شکار ہو کر اپنی معیشت کے عروج سے محروم ہو گیا ہوتا۔
انھیں 1971 میں وزارت تجارت کا اور 1972 میں وزارت خزانہ کا مشیر بنایا گیا۔ وہ 1991 میں پہلی بار راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔ اسی سال انھیں وزیر خزانہ مقرر کیا گیا۔ اس سے قبل وہ پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین اور ریزرو بینک کے گورنر رہے ہیں۔ 2004 کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کی قیادت میں یو پی اے کی کامیابی کے بعد محاذ کی چیئرپرسن سونیا گاندھی نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت لوگوں کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب انھوں نے من موہن سنگھ کو وزیر اعظم نامزد کر دیا۔ 2009 میں بھی یو پی اے کو کامیابی ملی اور من موہن سنگھ کو دوبارہ وزیر اعظم بنایا گیا۔ انھوں نے وزیر اعظم کی حیثیت سے اقتصادی اصلاحات کو آگے بڑھایا اور ملک کی ترقی کے لیے متعدد پروگراموں کا آغاز کیا جن میں منریگا جیسا دیہی علاقوں کی ترقی کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
انھوں نے 2008 میں ایک تاریخی قدم اٹھایا۔ انھوں نے ہندوستان اور امریکہ کے درمیان جوہری تعاون معاہدے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت حکومت کی حلیف بائیں بازو کی جماعتوں نے اس کی سخت مخالفت کی اور حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی۔ لیکن وہ اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ بائیں بازو نے اپنی حمایت واپس لے لی۔ لیکن سماجوادی پارٹی نے اپنا فیصلہ بدلا اور حکومت کی حمایت کی۔ من موہن سنگھ کو پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت ثابت کرنی پڑی۔ ووٹنگ کے دوران حکومت کے حق میں 275 اور مخالفت میں 256 ووٹ پڑے۔ اس طرح حکومت بچ گئی۔ بالآخر انھوں نے امریکہ کے ساتھ جوہری تعاون معاہدہ کیا۔ اس سے ہندوستان ایک ذمہ دار جوہری طاقت بنا۔ موہن سنگھ کے میڈیا مشیر سنجے بارو نے اپنی کتاب ’دی ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘ میں لکھا ہے کہ اس معاملے میں انھوں نے جو سخت موقف اختیار کیا اس نے اس عوامی تاثر کو مٹا دیا کہ وہ سونیا گاندھی کے تابعدار ہیں۔ بالآخر یہ ثابت ہوا کہ ’سنگھ از کنگ‘۔ یہ جوہری تعاون معاہدہ فریقین کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات اور گہری دوستی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ انھوں نے امریکہ سے تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کا جو قدم اٹھایا تھا آج وزیر اعظم نریندر مودی اسی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
ڈاکٹر من موہن سنگھ پاکستان کے ساتھ بھی دوستانہ رشتوں کے قیام کے حق میں رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے بحالی اعتماد کے متعدد اقدامات کیے جن میں سری نگر مظفر آباد بس سروس بھی شامل ہے۔ لیکن ممبئی حملوں کی وجہ سے دونوں ملکوں میں دوستانہ رشتے قائم نہیں ہو سکے۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے 2019 میں کہا تھا کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کرتارپور کاریڈور کے افتتاح پر ایک کل جماعتی جتھے کے ساتھ درشن کو جانے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے من موہن سنگھ کو کرتارپور صاحب کے افتتاح میں شرکت کے لیے باضابطہ مدعو کیا تھا۔ لیکن من موہن سنگھ ایک عام شہری کی حیثیت سے اہلیہ کے ساتھ کرتاپور جانا چاہتے تھے۔ وہ پاکستان میں اپنے آبائی وطن جانا چاہتے ہیں لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی۔
ڈاکٹر من موہن سنگھ 26 ستمبر 1932 کو غیر منقسم بھارت کے پنجاب کے موضع گاہ میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ علاقہ اب چکوال (پنجاب) پاکستان میں پڑتا ہے۔ کم عمری ہی میں ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کی دادی نے ان کی پرورش کی۔ ان کا خاندان 1947 میں ہندوستان آگیا۔ انھوں نے اپنے گاوں میں درجہ چار تک کی تعلیم حاصل کی تھی۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کیا۔ بعد ازاں کیمبرج یونیورسٹی سے اقتصادیات میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ کانگریس رہنما راجیو شکلا نے اپنی کتاب ’تقسیم کی حقیقی کہانیاں‘ میں لکھا ہے کہ ہندوستان سے باہر ملازمت کے دوران وہ ایک بار اپنے ایک دوست کے ساتھ راولپنڈی گئے تھے۔ کتاب لکھنے کے دوران انھوں نے ان سے کہا تھا کہ ان کا دل پاکستان جانے کو بہت چاہتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ پاکستان میں کہاں جانا چاہتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ وہ اپنے آبائی گاوں جانا چاہتے ہیں۔ جب راجیو شکلا نے پوچھا کہ کیا وہ اپنا آبائی گھر دیکھنا چاہتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ میرا گھر تو بہت پہلے ختم ہو گیا۔ میں اس اسکول کو دیکھنا چاہتا ہوں جہاں میں نے درجہ چار تک کی تعلیم حاصل کی تھی۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ اردو سمیت کئی زبانوں کے ماہر تھے۔ وہ اپنی تقریریں اردو رسم الخط میں لکھتے تھے۔ وہ علامہ اقبال کے مداح تھے اور ان کے بہت سے اشعار اپنی تقریروں میں استعمال کرتے تھے۔ ان کی حکومت میں ایک بار پارلیمنٹ میں ہونے والی ایک بحث کے موقع پر خطابت میں ماہر سینئر بی جے پی رہنما سشما سوراج نے ان سے سوال کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا کہ: تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا، مجھے رہزنوں سے غرض نہیں سے تری رہبری کا سوال ہے۔ اس پر انھوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ وہ سشما سوراج کی طرح خطابت میں ماہر تو نہیں ہیں لیکن وہ بھی ایک شعر سے ان کو جواب دینا چاہیں گے۔ انھوں نے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا کہ: مانا کہ تری دید کے قابل نہیں ہوں میں، تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ۔
ان کے بعض سخت فیصلوں کے باوجود انھیں ایک کمزور وزیر اعظم کی حیثیت سے دیکھا گیا۔ 2014 میں اپنی حکومت کی مدت کے خاتمے سے کچھ دنوںقبل انھوں نے اپنی آخری پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ میں یہ نہیں سمجھتا کہ میں ایک کمزور وزیر اعظم تھا۔ میں ایمانداری کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ تاریخ میڈیا کے مقابلے میں میرے ساتھ کہیں زیادہ رحم دلی کا مظاہرہ کرے گی۔ میں نے جو سب سے بہتر ہو سکتا تھا وہ کیا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے وہ اکثر و بیشتر اشعار کا استعمال کیا کرتے تھے۔ جب آخری دور میں ایک پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں وہ خاموش رہے تو ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا، آپ خاموش ہیں۔ اس پر انھوں نے کہا تھا کہ : مرے جواب سے بہتر ہے میری خاموشی، نہ جانے کتنے سوالوں کی آبرو رکھ لی۔ آج ڈاکٹر من موہن سنگھ خاموش ہو گئے ہیں۔ لیکن ہندوستانی سیاست و معیشت کے میدان میں ان کے کارنامے ہمیشہ بلند آواز سے بولتے رہیں گے۔
ڈاکٹر من موہن سنگھ: مرے جواب سے بہتر ہے میری خاموشی -سہیل انجم
previous post