Home ستاروں کےدرمیاں ڈاکٹر حسن احمد نظامی:اردو کا ایک بے لوث استاد-معصوم مرادآبادی

ڈاکٹر حسن احمد نظامی:اردو کا ایک بے لوث استاد-معصوم مرادآبادی

by قندیل

اگر آپ کو اپنی طالب علمی کے زمانے میں کوئی ایسا استادمیسرآ جائے جو خود اپنی جیب سے آپ کی فیس ادا کرکے آپ کا فارم بھرے اور پھر امتحان میں پاس کرانے کے لیے رات ودن آپ کو پڑھائے۔ جب آپ اچھے نمبروں سے پاس ہوجائیں تو آپ کو اچھی ملازمت دلانے کی تگ ودو میں مصروف ہوجائے۔ ایسے استاد کوآپ کیا کہیں گے؟ شاید ایسے شخص کو کوئی نام دینے کے لیے آپ کو لغت میں آسانی سے کوئی ایک لفظ نہ ملے۔ظاہر ہے ایسے بے مثل استاد کو آپ کسی ایک لفظ میں خراج تحسین پیش کربھی نہیں سکتے۔جس استاد میں ماں باپ جیسی شفقت ومحبت اور وارفتگی ہو،اسے لفظوں کے حصار میں قید کرنا یوں بھی ممکن نہیں۔
جی ہاں، آج میں آپ کا تعارف ایسے ہی ایک بے مثل استاد سے کرارہا ہوں جس نے اپنی زندگی میں ہزاروں نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم سے ہی آراستہ نہیں کیا بلکہ انھیں اچھی ملازمتیں بھی دلوائیں تاکہ وہ بہتر زندگی کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکیں۔ یہ ہیں رامپور رضا ڈگری کالج کے سابق استاد ڈاکٹر حسن احمد نظامی، جنھوں نے روہیل کھنڈ کے کئی شہروں میں اردو کے طالب علموں کے مستقبل میں چار چاند لگائے اور پیرانہ سالی کے باوجودوہ آج بھی اپنے مشن پر گامزن ہیں۔ ان کا دروازہ ہر اس شخص کے لیے کھلا ہوا ہے جو اردو کا کوئی بھی امتحان پاس کرنا چاہتا ہے۔ میں جب بھی انھیں دیکھتا ہوں تو مجھے گزرے زمانے کے وہ اساتذہ علم وفن یاد آتے ہیں جن کے نزدیک علم کی ترسیل وتبلیغ ہی زندگی کا واحد مقصد تھا اور جو صبح سے شام تک اسی شغل میں مصروف رہ کر طمانیت محسوس کرتے تھے۔ ایک ایسے دور میں جب تعلیم اور تجارت میں کوئی فرق باقی نہیں رہ گیا ہے،مجھے نظامی صاحب کی شخصیت مینارہ نور نظر آتی ہے۔انھوں نے اپنی پوری زندگی تعلیم وتدریس کے کام میں گزاری ہے اور کبھی کسی سے اس کا معاوضہ طلب نہیں کیا بلکہ اپنی تنخوا ہ سے سیکڑوں نادار طالب علموں کی خاموش مدد بھی کی۔
یادش بخیر!یہ 1987 کا واقعہ ہے۔ایودھیا تحریک کی وجہ سے ملک کے حالات دگرگوں تھے۔ میں ایک نامہ نگار کے طورپر ان حالات کی رپورٹنگ کے لئے دوڑدھوپ کررہا تھا۔ایک دن اچانک ایک پوسٹ کارڈ موصول ہوا۔ اس میں لکھا تھا کہ”میں نے تمہار ایم اے کافارم بھردیا ہے۔ فیس بھی جمع کرادی ہے۔فلاں فلاں تاریخ کو رامپور میں تمہیں امتحان دینا ہے۔“یہ خط میرے کرم فرما ڈاکٹر حسن احمد نظامی کی ہی طرف سے تھا۔ اس خط کو دیکھ کر جہاں خوشی کا احساس ہوا‘ وہیں یہ فکر بھی دامن گیر ہوئی کہ میں اپنی ہنگامہ خیز مصروفیات سے کیسے نجات پاؤں گا۔تقاضا اتنا سخت تھا کہ میں دفتر سے دوہفتہ کی چھٹی لے کر امتحان کی تیاری کے لیے رامپور پہنچ گیا۔نظامی صاحب کے دولت کدے پر حاضر ہوا تو وہاں طالب علموں کا ہجوم تھا جس میں ہرعمر کے مردوخواتین تھے۔اردو میں بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے والوں نے نظامی صاحب کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ساتھ ہی چائے کی ایک کیتلی بھی نظر آئی جس میں سے ایک طالب علم فرداً فرداً سب کو وقفہ وقفہ سے چائے پلارہا تھا۔کھانے کا وقت ہوا تو نظامی صاحب کی اہلیہ نے سب کے لیے دسترخوان سجادیا۔ یہ سبھی طالب علم وہ تھے جن سے کوئی ٹیوشن فیس وصول نہیں کی گئی تھی طلباء کے لیے خورد ونوش کا بندوبست بھی تھا اور ساتھ ہی ایک جنون بھی کہ ہر طالب علم اچھے نمبروں سے پاس ہو۔ میں بھی اس ہجوم بے کراں کا حصہ بن گیا۔طالب علم اپنی پیاس بجھارہے تھے۔ سبق درسبق سب کو پڑھایا جارہا تھا اور اس کے ساتھ ہی طلبا کے سوالوں کا سلسلہ۔ مجال ہے کہ نظامی صاحب کی پیشانی پر بل پڑھ جائے یا وہ تھک جانے کا بہانہ کرکے بستر پر دراز ہوجائیں۔ صبح سے رات گئے تک یہ سلسلہ بلا روک ٹوک جاری وساری۔شعر وشاعری، تنقیدوتشریح اور ادب کا دریا ہے کہ بہتا چلا جارہا ہے۔
نظامی صاحب نے اپنی زندگی میں نہ تو موٹی موٹی تحقیقی اور تنقیدی کتابیں لکھیں اور نہ خود کو سیمیناروں کی غذا بنایا بلکہ ایسے ہزاروں شاگرد تیار کردئیے جوتصنیف وتالیف کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور ان کا فیض جاری رکھے ہوئے ہیں۔یہ حقیر پرتقصیر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔میں نے اپنی زندگی میں جن اساتذہ کو دیکھا اور جانا ان میں نظامی صاحب اس اعتبار سے سب سے منفرد ہیں کہ ان کے ہاں اپنے طالب علموں کو سرخرو ہوتے ہوئے دیکھنا ہی سب سے بڑی معراج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے فیض حاصل کرنے والے جملہ طلباء اور طالبات ان سے عقیدت ومحبت کا تعلق رکھتے ہیں۔وہ طلباء اور طالبات کو ان کے موضوع اورمضمون کے انتخاب کے بعد اس سے وابستہ زیادہ سے زیادہ معلومات بہم پہنچانے کی فکر میں ہمہ تن مصروف نظرآتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ کس یونیورسٹی اور ادارے میں کون کون سے کورس چل رہے ہیں، کون سے نئے کورس آئے ہیں، ان میں داخلے کی کیا شرطیں ہیں اور کب داخلے ہونے ہیں، یہ سب باتیں ان کے نوک زبان پررہتی ہیں۔صبح پانچ بجے سے رات گیارہ بجے تک طلباء اور طالبات کا ایک میلہ ان کے مکان پر لگا رہتا ہے۔
ڈاکٹر حسن احمدنظامی کا وطنی تعلق مغربی اترپردیش کے مردم خیز قصبہ بچھراؤں سے ہے۔وہی بچھرایوں جوڈاکٹر حامد حسن قادری، خواجہ احمد فاروقی اور عزیز وارثی جیسوں کا وطن ہے۔ان کی پیدائش 26 دسمبر 1949 کو ہوئی اسی بچھراؤں میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم بچھرایوں کے جونیر ہائی اسکول میں ہوئی۔ بعدازاں مرادآباد کے مسلم انٹر کالج سے ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ پاس کیا۔پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فرسٹ ڈویژن میں پہلے بی اے اور پھر ایم اے پاس کیا۔1977 میں یہیں سے ’شمالی ہند کی اردوشاعری میں ایہام گوئی‘ کے موضوع پر پروفیسر عتیق احمد صدیقی کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی۔1979 میں گورنمنٹ رضا پوسٹ گریجویٹ کالج رامپور سے بطور استاد وابستہ ہوئے اور یہیں سے سبکدوش بھی ہوئے۔تقریباً تیس سال گریجویٹ اور ستائیس سال پوسٹ گریجویٹ کلاسوں میں درس وتدریس سے وابستہ رہے۔جن طلباء نے آپ کی نگرانی میں روہیل کھنڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ان میں ڈاکٹر شمس بدایونی، ڈاکٹر اطہر مسعود خاں، ڈاکٹر رباب انجم وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے فیض یافتہ دیگر لوگوں میں ڈاکٹر غیاث ا لرحمن سید، ڈاکٹر ظہیر رحمتی، ڈاکٹر شعیب رضا خاں وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔آپ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔
علی گڑھ میں نظامی صاحب کو جن اساتذہ سے کسب فیض کا موقع ملا، ان میں پروفیسر آل احمد سرور،پروفیسر معین احسن جذبی،پروفیسر خورشید الاسلام، پروفیسرخلیل الرحمن اعظمی،پروفیسر نادر علی خاں اور پروفیسر اخلاق محمدخاں شہریارجیسے لائق وفائق اساتذہ شامل ہیں۔علی گڑھ میں پروفیسر شمیم حنفی کی سرپرستی بھی انھیں حاصل رہی۔ پروفیسر حنفی نے انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:
”حسن احمد نظامی صاحب نے کس طرح طالب علمی کے دور سے نکل کر معلمی کے دائرے میں قدم رکھا، اس کی پوری تفصیل میرے مشاہدے کا حصہ رہی ہے۔جن دنوں وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کررہے تھے، میں شعبہ اردو سے وابستہ تھا۔وہ ایک نہایت شائستہ مزاج، اپنے کام سے کام رکھنے والے طالب علم تھے، اساتذہ اور طلباء میں یکساں طور پر مقبول۔خوشی کی بات یہ ہے کہ اپنا تحقیقی منصوبہ مکمل کرنے اور ملازمت مکمل کرنے کے بعد، ان کے علمی مشاغل میں فرق نہیں آیا اور وہ یکسوئی کے ساتھ لکھنے پڑھنے میں مصروف ہیں۔ایک منصب آگاہ معلم کی زندگی ہمیشہ کچھ اخلاقی اصولوں کی پابند رہتی ہے۔حسن احمد صاحب نے اس سطح پر بھی ایسی روش قائم رکھی اور دنیا کے ان معاملات سے دور رہے جو علمی اور اخلاقی زندگی کے سفر میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔“(’ڈاکٹر حسن احمد نظامی:حیات وخدمات‘مرتب ڈاکٹر اطہر مسعود خاں، صفحہ 11)
کئی برس کی بات ہے کہ رامپور کی سرکردہ علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر اطہر مسعودخاں نے ڈاکٹرحسن احمد نظامی کی حیات وخدمات پرمشتمل چارسو صفحات کی ایک کتاب شائع کی تھی۔یہ کتاب کیا ہے جذبات واحساسات کا ایک سیل رواں ہے جس میں ان کے شاگردوں، چاہنے والوں اور معاصرین نے دل نکال کر رکھ دیا ہے۔ شاید اس سے بہتر خراج تحسین کوئی اور نہیں ہوسکتا۔حالانکہ ڈاکٹر حسن احمد نظامی کو اپنی زندگی میں اگر کسی شے سے بیر رہا ہے تو وہ ہے شہرت اور ناموری، وہ بھی ایک ایسے دور میں جب ہماری ادبی اور علمی دنیا کے لوگوں کا واحد مشغلہ ہی شہرت حاصل کرنے کے لیے جوڑتوڑکرنا ہے۔نظامی صاحب کے شاگردخاص اور مشہور ادیب ڈاکٹر شمس بدایونی لکھتے ہیں:
”شہرت کمال وہنر کا لازمی نتیجہ نہیں اور ڈاکٹر صاحب تو شہرت کو مردہ لوگوں کی غذا سمجھتے ہیں، جو قبروں میں پڑے اسے چاٹ رہے ہیں۔لہٰذا انھیں شہرت کی حاجت نہیں۔اسی لیے وہ چھپنے چھپانے، ملنے ملانے اور نئے نئے روابط بنانے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ خاموشی کے ساتھ وہ اپنے فرائض درس وتدریس انجام دیتے رہتے ہیں اور خدمت خلق کے تصور سے سرشار رہتے ہیں۔ان کو اپنی اہمیت کا مطلق احساس بھی نہیں۔بقول شاعر
شوخیاں تیری نہ ظاہر ہوئیں خود تجھ پہ کبھی
تجھ کو دھوکے میں تری شرم وحیا نے رکھا
(ایضاًصفحہ 193)
ڈاکٹر حسن احمد نظامی کا تدریسی کارواں آج بھی جاری وساری ہے۔ طلباء و طالبات ان کے دولت خانے پر اسی طرح کسب فیض کررہے ہیں۔ نظامی صاحب اپنی تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر انھیں اعلیٰ تعلیم سے سرفراز کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا سایہ تادیر سلامت رکھے اوروہ یونہی اردوزبان وتہذیب کی آبیاری کرتے رہیں۔

You may also like

Leave a Comment