ترجمہ : نورالزماں ارشد
عام لوگوں کے علاوہ تاریخ دانوں کے مابین بھی یہ تصورعام ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت ’دوقومی نظریہ‘ (Two Nation Theory)کے حق میں تھی۔ یہ تصور مسلمانوں سے نفرت کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ حالانکہ بہار میں لیگ کے علیحدگی پسندی پر مبنی رجحانات و فرقہ پرستانہ سیاست کی مخالفت و مزاحمت میں امارت شرعیہ، جمعیۃ العلما، شیعہ ، مومن و راعین اور ان کی جماعتوں کے علاوہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادکمر بستہ تھی۔اس تناظر میں یہاں بہار کے حوالے سے تاریخی تفصیلات دی جارہی ہیں۔
صرف مسلمانوں پر تقسیم ہند کا الزام عایدکرنے کی سیاست کی تردید کے لیے بہار کی مثال ضروری ہے ۔ مسلمانوں کی جانب سے علاحدگی پسندی کی مخالفت اور مزاحمت پنجاب، بنگال اور اترپردیش میں بھی تھی۔ لیکن مسلم لیگ کی فرقہ پرستانہ سیاست کے خلاف سب سے زیادہ سخت آواز بہار کی مسلم قیادت نے اٹھائی تھی۔ مشترکہ اور متحدہ وطنیت کے لیے بہار کے مسلمانوں نے کہیں زیادہ وابستگی ظاہر کی۔ شاہ محمد (۱۹۷۸- ۱۸۹۴) نے اپنی سوانح حیات ’تلاش منزل‘ میں پہلی باراس پر اپنا اظہار خیال پیش کیا۔ اس کتاب کو ۴۴-۱۹۴۲ء میں تب لکھا گیا تھا جب وہ ۱۹۴۲ء کے بھارت چھوڑو آندولن میں حصہ لینے پر ہزاری باغ جیل میں قید تھے۔ یہ کتاب ۱۹۶۷ء میں شائع ہوئی تھی۔
جہاں تک مسلم لیگ کے لاہور اجلاس اور پاکستان کی تجویز کی قبولیت کا تعلق ہے، تو اجلاس میں شرکت بڑھانے کے لیے بڑی تعداد میںاشتعال انگیز پروپگنڈا اور سرگرم مہم چل رہی تھی۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تیزی سے بدلتے مناظر میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مذہب اور مذہبی مقامات کا استعمال کھل کر کیاگیا۔ مسلمانوں اور متعلقہ قوم پرست گروہوں نے ۲۹-۲۷؍اپریل ۱۹۴۰ کو دہلی میں ایک کانفرنس منعقد کی، تاکہ مسلم فرقہ پرستوں کی رجعت پسندی اور تخریبی طاقتوں کو شکست دی جاسکے۔ اس اجلاس میں ہندو مسلم اتحاد اور مذہبی رواداری پر زور دیا گیا۔
’’نقیب‘‘ نے دو قومی نظریہ کو مسترد کردیا:
مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد (۱۹۴۰-۱۸۸۰ء) نے لیگ کی علاحدگی پسندی کے خلاف انتہائی بہترین اور تیز ردعمل کا اظہار امارت شرعیہ کے اردوہفتہ واراخبار نقیب کے ۱۴؍اپریل ۱۹۴۰ء کے شمارے میں کیا۔ اس طویل مضمون کا عنوان ’مسلم انڈیا اور ہندوانڈیا کی اسکیم پر ایک اہم تبصرہ‘ تھا۔ یہ عنوان نہ صرف امارت شرعیہ (۱۹۲۱ء) کے سیاسی نظریے کی عکاسی کرتا ہے بلکہ استعمار کے خلاف اسلامی وسائل کے استعمال کا تحریری ثبوت بھی پیش کرتا ہے۔ مولانا سجاد نے جناح و ان کے ساتھیوں کے سامنے کچھ بے حد مشکل سوال رکھ دیے۔ ہندو اکثریتی صوبوں میںمسلمانوں پر ہورہے ظلم و ستم پر جناح و لیگ کے رہنما ہائے توبہ مچارہے تھے، جبکہ وہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک بنانا چاہتے تھے۔ مولانا سجاد نے لوگوں سے اپیل کی کہ ہندو و مسلمان مل کر مکمل آزادی کے لیے جدو جہد کریں اور ایک ایسا جمہوری ہندوستان قائم کرنا چاہئے جہاں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے ماتحت نہیں ہوں گے۔
اس سے قبل نقیب (۲۰؍فروری ۱۹۴۰ء) میں مولانا سجاد نے فرقہ وارانہ تنازعہ کے حل کے لیے کچھ حد تک جارحانہ تجاویز پیش کی تھیں۔ اپنے مضمون ’فرقہ ورانہ معاملات کا فیصلہ کن اصولوں پر ہونا چاہیے‘؟ میں لکھتے ہیں کہ کسی کو بھی اپنے مذہبی عقیدے کو عوامی شعبے میںاس طرح ظاہر نہیں کرنا چاہئے کہ یہ دوسروں کے عقیدے کے لیے بھی بحران پیدا کردے۔ اسے ذاتی حد تک ہی محدود ہونا چاہیے۔ جناح سے ہوئے خط و کتابت میں انھوں نے اس بات کاذکر کیا ہے کہ لیگ نے جاگیرداروں اور سرمایہ دارانہ مسلمانوں کے برعکس عام مسلمانوں کے لیے کسی بھی طرح کا کوئی تعمیری اقتصادی پروگرام پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ علیحدہ قومی ریاست کو عمل میں لانے والی لیگ کی حکمتوں کے خلاف مولانا سجاد کی دانشورانہ تنقیدان کے فکر کی عکاسی کرتی ہےکہ آنے والے وقت میں مذہب کے نام پر جذباتی استحصال کا ہتھیار نہیں بننا چاہیے۔
امارت شرعیہ کے مولانا سجاد کی ہی طرح دیو بند کی قیادت بھی ہندوستان کے اتحاد کے لیے کھڑی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند نے بہت سارے دوسرے مسلم اداروں کے ساتھ مل کر ۳۰-۲۷؍اپریل ۱۹۴۰ء کو دہلی میں ’آزاد مسلم کانفرنس‘ کا انعقاد کیا۔ سید طفیل احمدمنگلوری (۱۹۴۶-۱۸۶۸ء) نے اپنی کتاب’ مسلمانوں کا وروشن مستقبل‘ میں لکھا ہے کہ الگ الگ علاقوں اور ریاستوں کے تقریباً ۷۵ ہزار افراد نے اس کانفرنس میںشرکت کی تھی۔ اس کانفرنس نے اقلیت کی آواز ہونے کا دعوی کیا۔ اس نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کا مقصد مکمل آزادی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے مذہبی اور فرقہ پرست حقوق کا تحفظ بھی ہے۔
بقول منگلوری ۶تا۸مئی ۱۹۴۴ء کو کلکتہ میں شیخ محمد جان کے زیر انتظام ’آل انڈیا مسلم مجلس‘ کے زیر اہتمام کچھ مسلم گروہ دہلی میں دوبارہ جمع ہوئے۔ آل انڈیا مسلم مجلس کا مقصدیہ تھا کہ ہندوستان بادستور ایک متحدہ ملک رہنا چاہیے۔ منگلوری نے خود ’مسلمانوں کاروشن مستقبل ۱۹۳۷ء کے پانچویں ایڈیشن میں پاکستان کے تخیل پرتنقید کی تھی۔ جس کے ذیلی عنوان کچھ اس طرح تھے۔ ’تاریخی پس منظر‘ پاکستان ایک بڑی رکاوٹ، کیسے مسلم اکثریتی صوبہ کو مسلم اقلیتی صوبہ میں تبدیل کردیا گیا۔(جناح،۱۹۱۶لکھنؤ معاہدہ)۔ اسی طرح جمعیۃ العلماء ہند کے مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی (۱۹۶۲-۱۹۰۱)نے۴۶-۱۹۴۵ کے انتخابات سے قبل ہی اپنے کتابچہ ’تحریک پاکستان پرایک نظر‘ میں لیگ کے نظریہ پاکستان پر تنقید کی تھی۔ یہ بجنور کے نیم ہفتہ وار’ مدینہ‘ میں شائع ہونے والے ان کے مضامین کا مجموعہ تھا۔
مسلمانوں کی بڑی تعداد آزاد مسلم کانفرنس کے ساتھ ہو، یہ لیگ اور برطانوی حکومت کے عین موافق نہ تھا۔ یہ بات حسین شہید سہروردی (۱۹۶۰-۱۸۹۲ء) اور لیوپولڈ امری(۱۹۵۵-۱۸۳۷ء) کے مابین ہوئے خط و کتابت سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس مراسلے میں آزاد پارٹی کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا گیا کہ مسلم لیگ بلاشبہ ہندوستانی مسلمانوں کے خیالات کی نمائندگی کرتی ہے۔
یہ مراسلت لیگ و برطانوی حکومت کی سازش کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ جب ستمبر ۱۹۴۴ء میں گاندھی جناح بات چیت چل رہی تھی، تو اس کو ناکام بنانے کے سرکاری منصوبے بھی چل رہے تھے۔ واویل نے کہا کہ ہم نے نچلے طبقوں کو کھینج کر اس میں شامل کیا اور ساتھ ہی دیگر بولنے والی اقلیتوں کو بھی واضح طور پر اکسایا کہ مسئلہ کے حل کی ہر کوشش ناکام کردیں۔
مومن کانفرنس کا لیگ کے خلاف احتجاج :
ایک اور تنظیم تھی مومن کانفرنس جو مستقل طور پر مسلم لیگ کے خلاف جدوجہد کررہی تھی۔ ۲۶-۱۹۲۵ء میں روہتاس میں قائم شدہ اس تنظیم کی شاخ بہار کے کئی اضلاع کے ساتھ ساتھ دوسری ریاستوں میں بھی تھی۔ اس سے پہلے ادارہ ’’فلاح المومنین‘‘ بھی تھا۔ اس کا ایک مقصد غیر اسلامی رذیل – شریف (کمترواشرافیہ) تقسیم بھی تھا۔ اسی دور میں مومن کانفرنس نے مسلم لیگ کے نعرے’ اسلام خطرے میںہے‘کی پر زور مخالفت کی۔ ۲۱؍اپریل ۱۹۴۰ء کو مسلم لیگ کی لاہور قرار داد کی مخالفت میں بہار ریاست مومن کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس میں عبدالقیوم انصاری (۱۹۷۴-۱۹۰۵ء)نے کہا ’’اسلام خطرے میں ہے‘‘ کہنا کفر ہے۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں فرقوں کے مابین لیگ کے ثقافتی عدم مساوات کے دلائل قابل اعتبار نہیں ہیں۔ لیگ کے پاکستان منصوبہ پر تنقید کرتے ہوئے اپنا موقف ظاہر کیا اور کہا کہ پلان ہندو اکثریتی صوبوں میںمسلمانوں کے تحفظ میں ناکام ہوجائے گا۔ عبدالقیوم انصاری نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ اگر منصوبۂ پاکستان عمل میں آجاتا ہے تو ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی زبان و ثقافت خطرے میں پڑجائے گی ۔جس کے تحفظ پر مسلم لیگ ہنگامہ آرا ہے ۔ اس کانفرنس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیاگیا کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں مومن اور دیگر مزدور طبقوں کو رذیل سمجھا جاتا ہے اور ویسا ہی عمل کیا جاتا ہے۔ لہذا پاکستان کے مطالبہ کی تائید کے لیے کانفرنس میں انصاری نے بھی حوصلہ افزائی کی کہ غیر اسلامی مسلم لیگ کے وجود کو ختم کرنے کے لیے ہر سچا مومن کوشش کرے۔
مومن کانفرنس کے مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے قیوم انصاری نے راجندر پرساد کے ساتھ ہوئے اپنے خط و کتابت (۳۰؍اکتوبر۱۹۳۹ء) میں بیان کیا کہ لیگ کو اشراف یعنی اعلیٰ طبقے کے افراد چلا رہے ہیں۔ وہ بظاہر غریب مسلم اور نچلے طبقوں کے خلاف ہیں۔ زیادہ تر مومن غریب اور پسماندہ ہیں۔ لہٰذا لیگ جیسی اشرافیہ تنظیم سے انکا کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔
دسمبر ۱۹۳۹ء میں انصاری نے جواہر لال نہرو کو ایک اور خط لکھا ،جس میں انھوں نے کہا کہ تاریخ اور تجربہ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ اعلیٰ طبقوں کے مسلمانوں کے زیر انتظام کسی بھی ادارے پر اعتبار نہ کریں، مسلم لیگ ایسا ہی ایک ادارہ ہے۔ گاندھی جی اور راجندر پرساد سے ۱۹۳۹ء میں ہوئی اپنی ایک مراسلت میںانصاری نے یہاں تک مطالبہ کیا کہ مرکزی اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں اوردستور ساز اسمبلی میں مسلم نشستوں کا ۵۰ فیصد مومنوں یعنی ارذال کے لیے مخصوص کیاجائے۔
لیگ اور مومن کانفرنس کے درمیان اختلافات اتنے گہرے تھے کہ ووٹ شماری کے معاملے پر بھی ابھر کر سامنے آگئے، بہار صوبائی مسلم لیگ نے مسلمانوں کو یہ ہدایت دی کہ خود کو بطور مسلمان رجسٹریشن کروائیں۔ لیکن مومن کانفرنس نے اس بنیاد پر اس کی مخالفت کی کہ یہ نوآبادیاتی ریکارڈ میںمومنوں کی تعداد کو کم کرنے کی سازش ہے۔ مومن کانفرنس نے اپنے ممبروں سے کہا کہ وہ خود کو مومن کے طور پر رجسٹریشن کروائیں۔
یہ ایک معمّہ ہی ہے اور تحقیق کا موضوع ہے کہ عبدالقیوم انصاری بی آر امبیڈکر (۱۹۵۶-۱۸۹۱ء) کے ساتھ کسی بھی گفتگو اور افہام و تفہیم کے لیے آگے کیوں نہیں آئے؟ امبیڈکر کی کتاب پاکستان یا تقسیم ہند سے پہلے ہی شائع ہوچکی تھی۔ اس میںامبیڈکر نے مسلمانوں میں ذات پات کے نظام کے وجود کی تردید کی تھی۔انصاری نے رام منوہر لوہیا (۶۷-۱۹۱۰ء) کے ساتھ بھی اس معاملے میں کوئی بات چیت نہیں کی۔ ہماری معلومات کے مطابق انھوں نے دستور ساز اسمبلی کے کسی بھی رکن کو متاثر کرنے کی کوشش نہیں کی کہ ارذال مسلمانوں کو درج فہرست ذات /نچلے طبقے (SC) کے زمرے میں شامل کیا جائے۔
راعین اور منصوریوں کا مسلم لیگ پر اعتراض
مومنوں کے علاوہ مسلمانوں کی کچھ دوسری پسماندہ جماعتیں بھی ۱۹۴۰ء تک کافی منظم ہوگئی تھیں۔ بہار میں راعین کانفرنس (قائم شدہ:۲۰؍اکتوبر۱۹۳۲ء ) نے زین الدین کی صدارت میں، آرا میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیاجس میں انھوں نے مومن کی طرح مسلم لیگ کی اشرافیہ سیاست پر تنقید کی۔
امتیازی سلوک کے لیے لیگ کوتنبیہ کرتے ہوئے انھوں نے یہ کہا کہ وہ لیگ اور اعلیٰ ذات کے مسلمانوں کے خلاف لڑائی جاری رکھیں گے۔ مومنوں کی طرح نچلی ذاتوں کی مشترکہ طاقتوں کے ساتھ وہ بھی کانگریس میں پناہ لیں گے۔ اس راہ پر چلتے ہوئے مسلمانوں کی منصوری (دُھنیا) برادری نے ایک ادارہ بہار جمعیت المنصور قائم کیا،جو ۱۹۳۰ سے ہی کام کررہا تھا۔ جمعیت المنصور کے علاوہ جمعیت القریش (۱۹۳۰میں قائم شدہ کسائیوں کی تنظیم) بہار میںمومن کانفرنس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہی تھی۔
شیعوں نے جناح کو درکنار کیا
پسماندہ ذاتوں کی طرح مسلمانوں کے اہل تشیع نے بھی خود کو آل انڈیا شیعہ سیاسی کانفرنس کے طور پر منظم کیا۔ زیادہ تر شیعہ اشرافیہ ہی ہیں۔ بہار یونٹ کے شیعہ سیاسی کانفرنس نے ۱۸؍اپریل ۱۹۴۰ء کو چھپرا میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا۔ کانفرنس میں شامل تمام ممبران نے لیگ کی لاہور تجویز کی مذمت کی۔
۲۲؍اکتوبر ۱۹۴۴ء کو شیعہ سیاسی کانفرنس کے صدر سید علی ظہیر نے جناح کو ایک خط لکھا جس میںانھوں نے درخواست کی کہ مسلم لیگ مجوزہ پاکستان کے منصوبے میں شیعوںکی حیثیت کو واضح کرے۔انھوں نے مجوزہ پاکستان میں شیعوں کے لیے کچھ یقین دہانیوں کا مطالبہ کیا۔ ظہیر کے خط کے جواب میں جناح نے بظاہر کچھ نہیں کہا۔ یہ ابہام شیعہ سیاسی کانفرنس کو قبول نہ تھا۔
۳۱-۲۹؍دسمبر ۱۹۳۹ء کو چھپرا میں ہونے والے کانفرنس میں شیعہ سیاسی کانفرنس نے مخلوط طریقۂ انتخاب کا مطالبہ کیا۔ یہ جدا گانہ طریقۂ انتخاب کے خاتمے کا مطالبہ تھا۔ جلسہ میں کانفرنس کے جنرل سکریٹری جعفرحسین نے کہا کی شیعوں کے لیے یہ خطرناک ہوگا کہ وہ خود کو کانگریس سے دور رکھیں۔شیعہ سیاسی کانفرنس کے مقاصد کو پیش کرتے ہوئے مولوی سجاد نے کہا کہ شیعہ سیاسی کانفرنس کا مقصد ملک و قوم کے لیے زندہ رہنا اور مرنا ہے۔ انھوں نے مادر وطن کی آزادی کے لیے سب کچھ قربان کرنے پر بھی زور دیا۔ ’’سرچ لائٹ‘‘نے اپنے اداریہ میں لیگ کے ساتھ شیعہ رشتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ شیعہ منظم طور پر لیگ کے ساتھ نہیں ہیں اور اس کے ساتھ جانا بھی نہیں چاہتے ہیں۔
لیگ کے جداگانہ طریقۂ انتخاب کی منطق اورجھگڑے کی مخالفت کی بنیاد پر مومن، منصوری، راعین، شیعہ وغیرہ نظریات اور رجحانات کی جانچ پڑتال کے بعد انڈین نیشنل کانگریس کے مسلم سیاست دانوںکے خیالات و رجحانات کی جانچ کی جاسکتی ہے۔ لیگ کی لاہور تجویز پر انھوں نے کیا ردِ عمل ظاہر کیا؟ وہ اپنے رد عمل کے ساتھ عوامی سطح پرگئے ؟
سید محمود (۱۹۷۱-۱۸۸۹ء، کانگریس) نے لیگ کی لاہور تجویز پر سختی سے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دو قوموں کی تقسیم کے نظریہ اور منصوبے کی کوئی تاریخی اساس نہیں ہے۔ اس سے ہندوؤںیامسلمانوں کو نہیں بلکہ صرف انگریزوں کو فائدہ ہوگا۔
۲۹-۲۷؍اپریل ۱۹۴۰ء کو دہلی میں ہونے والی قوم پرست مسلمانوں کی کانفرنس میں شامل ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے عبدالباری، انیس الرحمن، ایس ایچ رضوی جیسے لوگوں نے کہا کہ تمام آزادی پسند، محب وطن مسلمانوں کو مسلم رجعت پسند تخریبی طاقتوں کو شکست دینے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔
اپریل۱۹۴۰ء میں دربھنگہ میں بہار ریاستی طلبہ کانفرنس نے اپنے جلسہ میںمسلم لیگ کی لاہور قرار داد کی کھلے طور پر مذمت کی اور غم و غصہ کا اظہار کیا۔ ۲۰؍اپریل ۱۹۴۰ء کو پٹنہ میں ’’یوم ہندوستان‘‘ کو جشن کی طرح منایاگیا۔ جس میں پاکستان کے منصوبے کی پرزور مذمت کی گئی۔ جلسے کو خطاب کرتے ہوئے عبدالباری نے اس معاملے کو اٹھانے کے لیے مسلم لیگ کی تنقید کی۔ لیگ کے پاس مسلمانوں کے لیے تخلیقی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ صرف وہی تحریک چل سکتی ہے جو لوگوں کی غربت، ناخواندگی، صحت اور معاشی پسماندگی جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کرتی ہو۔
سونپور میں ستیہ گرہ ٹریننگ کیمپ کے زیر اہتمام اپنے خطبات میں انھوں نے مسلم لیگ کے ارادوں کو شکست دینے کے لیے مسلمانوں سے براہ راست بات چیت کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ باری نے حسین احمد مدنی (۱۹۵۷-۱۸۷۹) رفیع احمد قدوائی (۱۹۵۴-۱۸۹۴ء) اور حافظ محمد ابراہیم (۱۹۶۸-۱۸۸۸) کے ساتھ مل کر تجویز پیش کی کہ کاشتکاروں کی فلاح و بہبود، اجرت میں کمی، مزدوری میں اضافہ، روزگار کی اسکیمیں نوآبادیاتی حکومت سے آزادی کے لیے ضروری شرائط ہیں۔
لیگ کے ارادوں کو مسمار کرنے کے لیے لیگ کے لاہور منصوبے سے کئی مہینے قبل ہی کوشش کی جارہی تھی۔ مسلم قیادت نے مسلمانوں کو ’لیگ سے دور رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ جنوری ۱۹۴۰ء انگریزی روز نامہ سرچ لائٹ میں عرب مسلمانوں کے ذریعہ جناح کی پرزورمذمت کی خبر موصول ہوئی۔ اس میں کہا گیا کہ جناح کے کارنامے غیر وقتی، غیر معقول اورغیرمفید ہیں۔
جمہور مسلم لیگ کی علیحدگی پسندی کے خلاف جدوجہد
مظفر پور کے مغفور احمد اعجازی (۱۹۶۶-۱۹۰۰ء) نے آل انڈیا جمہور مسلم لیگ (اپریل۱۹۴۰ء) صرف لیگ کی علیحدگی پسندی کی مخالفت کرنے کے لیے مظفر پور میں قائم کی تھی۔ لیگ کی لاہورتجویز کے خلاف اس نے گھر گھر جاکر(۴۷-۱۹۴۶ء) لوگوں سے ملاقات کرنے کی مہم چلائی۔ ۱۹۴۲ء میں انھوں نے اپنی لیگ کو کانگریس میں ضم کردیا۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اکثر ہورہے فرقہ وارانہ فسادات کے درمیان سائیکل پر گاؤں گاؤں کا دورہ کیا اور لیگ کی جدا گانہ قومیت کے خلاف مسلمانوں کو مذہبی انداز میں سمجھانے کی کوشش کی۔
متعدد مسلم پارٹیوں کی مسلم لیگ کی تجویز کی مخالفت کے باوجود گاندھی کا خیال تھا کہ لیگ مسلمانوں کی سب سے طاقتور تنظیم ہے اور جناح ہندوستانی مسلمانوں کے نمائندے ہیں ۔ گاندھی جیسی شخصیت کا جناح سے متعلق یہ خیال مومن کانفرنس کے لیے الجھن کی بات تھی۔مومن کانفرنس کا خیال تھا کہ ۱۹۳۹ء میں اگر کانگریس نے مسلمانوں کے چھ مطالبات کو تسلیم کرلیا ہوتا تو لیگ کے زہریلے دانت خود ہی ٹوٹ جاتے۔ ۱۹۴۰ء میں نہرو نے ان مطالبات کا جواب اس دلیل کے ساتھ دیا کہ نشستوں کے ریزرویشن سے کمیونٹی کمزور ہی ہوگی۔ یہ نہ توعملی ہے اور نہ ہی ضروری بلکہ اس کے برعکس یہ بہت خطرناک ہے۔
بہاری مسلمانوں کے علیحدگی پسندی اور نوآبادیاتی مخالف عزم کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ ۱۹۴۲ء کے بھارت چھوڑو آندولن میں بڑی تعداد میں شامل ہوئے۔ ۲۵ جولائی ۱۹۴۲ء کواپنے بیٹے کی موت کے باوجود مغفور ہمت کے ساتھ کھڑے رہے اور مضبوطی کے ساتھ بھارت چھوڑو آندولن ۱۹۴۲ء میںمظفر پور کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے رہیں۔ ۳؍ستمبر ۱۹۴۲ء کو سیتا مڑھی کے باجپٹی ریلوے اسٹیشن پر پولیس نے پانچ مسلمانوں کو شہید کردیا تھا۔
پٹنہ کے مشہور شاعر کلیم عاجز اپنی سوانح عمری میں یاد کرتے ہیں کہ پٹنہ میں بہار نیشنل کالج کے سامنے ایک نوجوان عبدالقدوس نے ایک ظالم پولس انسپکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پورے جوش میں نعرے لگائے بھارت چھوڑ دو، انقلاب زندہ باد۔ اس نے ایسا اثر ڈالا کی بالآخر وہ پولیس انسپکٹر اس قومی تحریک میں شامل ہوگیا۔
قوم پرست مسلم تنظیم اتنی مضبوط تھی کہ کانگریس کے بجائے امارت شرعیہ، جمعیت علماء اور مومن کانفرنس کے رہنما ہی ۱۹۴۶ء کی انتخابی مہم کی نگرانی کر رہے تھے۔ انتخاب سے عین پہلے جمعیت علماء بھی لیگ کی مخالفت میں آگئی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ مولانا مودودی (۷۹-۱۹۰۲ء) جمعیت علماء کے سابق رفیق اور ۱۹۲۵ میں اس کے ترجمان ’الجمعیۃ‘ کے مدیر تھے۔
ایسا اس لیے بھی ہوا کہ بعد میں الگ ہوکر انھوں نے ۱۱؍مارچ ۱۹۴۱ء کو پٹھان کوٹ(پنجاب) میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ لیگ کی پر زور مذمت کے بعد مولانا مودودی اس حد تک چلے گئے کہ جناح کی ذاتی زندگی اور پاکستان کے نظریے کی بھی شدید مذمت کی۔
۱؍مئی ۱۹۴۵ء کو لیگ کے اخبار ’’نوائے وقت‘‘ (لاہور) میں مودودی نے غیر منقسم ہندوستان میں ہندو مسلم مسئلہ کے حل کے لیے وفاقی نظام کے تحت تجاویز بھی پیش کیں۔ خاص طور سے مسلم اقلیتی صوبوں کے لیے۔ لیگ کے خلاف بہار کی تقریبا تمام بڑی تنظیمیں پر امید تھیں کہ وہ وسیع پیمانے پر انتخابی مہم چلاتے ہوئے اچھی نشستیں حاصل کریں گی ۔ یہاں تک کہ ۲ مارچ ۱۹۴۶ء کو راجندر پرساد کو بھی کانگریس سے منسلک تنظیموں کے بہار میں ۵۰ فیصد مسلم سیٹ حاصل کرنے کی توقع تھی۔ لیکن نتیجہ برخلاف اور صدمے کی طرح سامنے آیا۔ لیگ ۴۰ میں سے ۳۴ سیٹیں اپنے قبضہ میں کرنے میں کامیاب رہی۔ حالانکہ لیگ کو بھی ایسے نتائج کی توقع نہیں تھی۔ کانگریس نے مسلم حلقوں میں ۹؍امیدوار کھڑے کیے تھے لیکن کامیابی صرف ایک نے حاصل کی۔ کانگریس کے لیے سب سے بڑی پریشانی کا سبب پروفسیر عبدالباری کی شکست تھی جو تحریک خلافت کے دوان آزادی کی جدوجہد میں شامل تھے۔
۱۹۴۶ میں مسلم لیگ کی انتخابی فتح
یہ سوال ہمارے ذہن میں شدت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے کہ ۱۹۴۶ء میں مسلم لیگ کی فتح کی وجہ کیا تھی؟ مورخین کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ نظریۂ پاکستان کی جغرافیائی غیر یقینی صورت حال جناح کی سیاست کی طاقت تھی، جس سے پاپیا گھوش قطعی متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ۱۹۴۰ء میں مسلم لیگ کی لاہور قرار داد کے وقت یہ بات بالکل واضح ہوگئی تھی کہ مسلم اقلیتی صوبوں کو نئے پاکسان سے دور رکھا جائے گا۔ لیگ کے بیشتر رہنماؤں کو یہ واضح کرنا پڑا کہ اگر اقلیتی صوبوں میں ہندو مسلمانوںکے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں تو ہم مسلم اکثریتی صدبوں میں بھی ٹھیک ویسا ہی رویہ اختیار کریں گے۔
تاریخ دانوں کا خیال کچھ بھی ہو، عموماً لوگ منتقلی کے خوف سے لیگ کے پاکستان کی حمایت کرنے پر راضی نہیں تھے۔ لہٰذا لیگ کو ایک زبردست پروپگنڈا مہم چلانی پڑی لوگوں کو یقین دلانے کے لیے ،لاہور قرار داد میں منتقلی کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیاگیا۔ نظریۂ ضمانت کو آگے بڑھانے کے پیچھے یہی مقصد تھا۔ لوگوں کو سمجھایا گیا کہ جو لوگ جہاں ہیں وہیں رہیں گے۔ ہندو ملک میں مسلمان اور مسلم ملک میں ہندو ضامن ہونے کے ناطے دونوں ممالک میں اقلیتوںکے تحفظ کی ضمانت بن جائیگی۔
’یاد گار زندگی‘ (۱۹۷۲ء) کے اے حمید کی سوانح عمری ہے۔ اس میں درج ہے کہ انھوں نے سردار پٹیل کو تقسیم پر ایک خصوصی رائے عامہ کے لیے تیار کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ سردار پٹیل خاموش رہے۔ بعد میں حمید کو یہ احساس ہوا کہ پٹیل نے من ہی من یہ قبول کرلیا ہے کہ اسے نظر انداز کرنا ان کی غلطی تھی۔
تاریخ دانوں کے مابین اس بات پر پرزور بحث ہوئی کہ اگر اس مسئلے پر عمومی طور پر بالغوں کی رائے دہی ہوئی ہوتی ،تو مسلم لیگ کے لیے ملک کو تقسیم کرپانا ناممکن ہونا۔ تاہم ۱۹۴۶ء کے انتخابات ایک طرح سے پاکستان کے لیے رائے عامہ ہموار ہونے کے مترادف تھے۔
اپریل ۱۹۴۶ء میں بہار کے وزیر اعلیٰ سری کرشن سنہا(۱۹۶۱-۱۸۸۷ء) نے کہا تھا کہ اقلیتوں کا کانگریس پر پختہ یقین ہے۔ سنہا نے اعتراف کیا کہ لیگ کی انتخابی جیت کا تعلق پرتشدد انتخابی مہم سے ہے۔ اس نے کافی حد تک مسلمانوں کو خوفزدہ کیا۔
ایک بات یہ بھی تھی کہ پڑھے لکھے مسلمان بھی نہیں سمجھتے تھے کہ پاکستان کا کیا مطلب ہے۔اگر پاکستان بنایا گیا تو کیا صحیح ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ ۱۹۴۶ء کے انتخاب میں ہندوستان کی کل آبادی (جس میں ہندومسلم بھی شامل ہیں) کے صرف ۱۳ فیصد کو ہی رائے دہی کا حق تھا۔ نیز رائے دہی کا حق جائداد کی ملکیت کی شرائط سے وابستہ تھا۔۶۴روپیہ سالانہ مالگزاری یا ۲۵۔روپے چوکیداری ٹیکس دینے والا ساتھ ہی ہائی اسکول پاس مرد و پڑھی لکھی عورتوں کو ہی ووٹ ڈالنے کا حق حاصل تھا۔ نو آبادیاتی حکومت کو بخوبی اندازہ تھا کہ محدود رائے دہی کا حق جناح کی لیگ کے لیے مدد گار ثابت ہوگا۔
ہندو فرقہ پرستی: مہاسبھا- کانگریس کاگٹھ جوڑ
کانگریس کے مشہور رہنماؤں کے جیل میں ہونے کی وجہ سے ہی مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کا تیزی کے ساتھ زور بندھا۔ بہت سے کانگریسی ہندو مہا سبھا سے وابستہ تھے۔ غرض یہ کہ اسی سے مسلمانوں میں کانگریس کے خلاف عام عدم اطمینان پیدا ہوا۔ بہار میں بڑھتی فرقہ وارانہ کشیدگی کو مسلم لیگ نے کچھ حد تک اطمینان سے دیکھا۔ کیونکہ اس نے انتخابات میں نمایاں کامیابی کے لیے مواقع فراہم کیے۔ ۱۹۴۵ء کے بعد کانگریس قائدین نے ہندو مہاسبھا کے ساتھ انتخابی اتحاد کا اعلان کرنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ راجندرپرساد نے بھی اس سے اتفاق کیا۔ تاہم نہرو نے آگاہ کیا تھا کہ ایسا نظام لیگ کے پروپگنڈا کو مزید ہوا دے گا کہ کانگریس ہی اصل میں ہندو مہا سبھا ہے۔
انتخابات میں قوم پرست مسلم تنظیموں کی شکست کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس انتخابات لڑنے کے لیے بہت کم وسائل تھے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ نے انتخابی مہم میں بڑی رقم خرچ کی تھی۔ قائدین کو معلوم تھا کہ معاشی بے بسی انتخابات کے آخری نتائج میں بڑا کردار ادا کریگی اور مدد و تعاون کے لیے کانگریس سے خط و کتابت تک کرنی پڑی تھی، حالانکہ یہ درخواست نامنظور کردی گئی تھی۔ چنانچہ انتخابی شکست کی ایک بڑی وجہ قوم پرست سیاست دانوں کی مالی پسماندگی بھی تھی۔
دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ کانگریس اور قوم پرست مسلم تنظیمیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے میں ناکام رہیں۔ انتخابات میں ایک مشترکہ منشور کے سامنے نہ آنے کی وجہ سے انتخابی مہم نہ توواضح اور نہ ہی متفقہ رہی۔ مسلمانوں کے ساتھ ہورہے امتیازی سلوک لیگ کا اصل مسئلہ تھا۔ قوم پرست مسلمانوں نے کانگریس سے اس کو مسترد کرنے کے لیے کچھ مطالبات کیے جن کی تکمیل نہ ہوسکی۔
بہت پہلے ۱۹۳۹ء سے ہی بہار کی قوم پرست مسلم تنظیموں (امارت شرعیہ) نے کانگریس کے خلاف مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے فاصلے کے خلاف کانگریس کو آگاہ کرنا شروع کردیا تھا۔ لیکن معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اسی وجہ سے پٹنہ سے تعلق رکھنے والے قوم پرست مسلمان محمد یونس کو یہ کہنا پڑا کہ کانگریس مسلمانوں سے عوامی تعلقات کے بارے میں بات کرتی اور لکھتی تو ہے، لیکن کرتی کچھ بھی نہیں۔ اس کے لیے کانگریس کے علاوہ کوئی اور ذمہ دار نہیں تھی۔
امارت شرعیہ کے نائب امیر شریعت اور جمعیت علماء ہند کے بہار یونٹ کے صدر مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد (۱۹۴۰-۱۸۸۰ء) نے نمبر ۱۹۳۹ء میں کانگریس کو ایک خط لکھا۔ اس میں کانگریس اور مسلمانوں کے بڑھتے فاصلوں کو ترجیح کے ساتھ دیکھنے کی درخواست کی گئی تھی۔ مسلم تعلقات عامہ کی بنیاد پر اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے صاف طور پر کہا تھا کہ صرف عوامی رابطہ ہونا چاہئے۔ یہاں ہندو عوام سے رابطہ عیسائی عوام سے رابطہ سکھ عوام سے رابطہ جیسی کوئی چیز نہیں۔ انھوں نے کانگریس پر لاتعداد غلطیوں کا الزام عائد کیا۔
انتخابی شکست کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ کانگریس کے اندر دائیں بازو کے عناصر نے اس پرچے کی سختی سے مذمت کی جس میں ان کے سیاسی بالادستی کو حکم عدولی مل سکتی تھی۔ ہر مسلم عوامی رابطہ کے ساتھ دائیں بازو کے کانگریسیوں کو ہندو کانگریس میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد کا سامنا کرنا پڑا۔
ضلع کانگریس کمیٹیاں خاموش پڑی رہیں۔ کانگریس میںمسلم مخالفت والے لوگ زیادہ تر صوبائی اور ضلع کمیٹی کے ہیڈ تھے۔ ان کاایک پاؤں ہندو مہا سبھا میں رہتا تھا کچھ لوگ فرقہ ورانہ فسادات میں بھی ملوث تھے۔ ان لوگوں نے بڑی چالاکی سے عوامی رابطہ مہم کے فنڈ کو کمزور کردیا۔
اس طرح عوامی رابطہ کی مہم کو ختم کرتے ہوئے کانگریس نے جناح کو بڑھتی فرقہ وارانہ کشیدگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کیا۔ مسلمانوں کا علیحدگی پسندی کی طرف منتقل ہونا آسان ہوگیا۔ کے- ایم- اشرف (۱۹۶۲-۱۹۰۳ء) نے اسے یوں درج کیاہے’’ کانگریس کی اس ناکامی کی وجہ سے مسلم لیگ راتوں رات ایک مکمل منظم طاقت بن کر ابھری‘‘۔
جئے پرکاش نارائن (۱۹۷۹-۱۹۰۲ء) نے بھی اپنی ’فرقہ وارانہ سوال پر نوٹ‘ میں کچھ ایسا ہی کہا تھا۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ کانگریس کو کچھ اہم اقدامات اٹھانے چاہییں۔ مثلاً مسلمانوں کی معاشی اصلاح کے لیے کام کرنا، کانگریس کمیٹی میں ان کی نمائندگی طے کرنا ،سرکاری نوکریوں میں حصہ داری طے کرنا اور قوم پرست مسلمانوں کی حمایت کرنا۔ سردار پٹیل نے بھی راجندر پرساد کو ۱۵؍اکتوبر ۱۹۳۸ء کو لکھے اپنے ایک خط میں اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا تھا۔ لارڈ واویل نے بھی سراینڈیو کلو (گورنر بمبئی) کو ۷؍اکتوبر ۱۹۴۶ء کو لکھا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کی شکایت معاشی و سیاسی وجوہات سے تھی۔
صرف ۱۹۴۶ء کی لیگ کی انتخابی کامیابی نے پاکستان کو عملی شکل نہیں دی۔ پاکستان کو حقیقت بنایا نوآبادیاتی حکمرانوں نے، فرقہ پرستی کی طرف سے حمایت اور حوصلہ ملا۔ بنگال میں لیگ کی طرف سے براہ راست اقدام کے نتیجے میں ہندوؤں کے خلاف بھاری خونریزی ہوئی۔ اس کے رد عمل میں بہار کے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ بہت سے لوگ بے گھر ہوگئے اور بنگال جانے پر مجبور ہوگئے۔ یہی وہ جبری منتقلی تھی جس نے لیگ کی سازشوں کو کامیاب بنایا۔ بہار میں سب سے زیادہ حیران کن اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ کانگریس نہ صرف فسادات کی بھیڑ کو آگے بڑھانے میں شامل تھی بلکہ رہنمائی بھی کررہی تھی۔ گاندھی کے سامنے کچھ کانگریسیوں نے بھی فسادات میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔
مسلم لیگ یہ بھی جانتی تھی کہ انتخابی فتوحات کے باوجود کم از کم بہار میں وہ عوامی سطح پر تعاون حاصل کرنے میںناکام رہے گی۔ لہٰذا لیگ اس بات کو لیکر فکرمند تھی کہ مسلمانوں پر کس طرح اضافی گرفت بنائی جائے۔ ستمبر اکتوبر ۱۹۴۶ء کے بعد ہی (جب فسادات شروع ہوئے) لیگ نے اپنی فرقہ پرست سیاست کے لیے فسادات کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ اگر چہ بہار کے مہاجروں کے بنگال کی طرف جانے میں لیگ کا کوئی ہاتھ بھلے نہ ہو لیکن اکسانے میں ضرور تھا۔ بنگال میں لوگوں سے مفت زمین اور گھروں کا وعدہ کیاگیا تھا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے ان علاقوں کو بھی خیرباد کہہ دیا جو نسبتاً زیادہ پر امن تھے۔
لیگ کے کارکنان بہار میں امداد اور تعاون کے لیے سرگرم تھے۔ دوسری طرف سردار پٹیل (۱۹۵۰- ۱۸۷۵ء) نے بہار میں کسی بھی طرح کی امداد اور تعاون دینے سے صاف انکار کردیا۔ انھوں نے گاندھی کی مسلمانوں کی مدد اور اعتماد کی بحالی کے لیے پارٹی کی تجویز کو یکسر مسترد کردیا۔ انھوں نے تو یہاں تک کہا کہ بہار میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
بہار میں کانگریس اور اکثریتی فرقہ پرستی
اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ کانگریس ۱۹۴۷ء سے کئی دہائی قبل بہار میں ہندوطرز پر کافی حد تک فرقہ پرست ہوچکی تھی۔وائسرائے کا یہ پختہ خیال تھا کہ یوپی اور بہار میں ہونے والے فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کے لیے کانگریس کی نچلی سطح کی قیادت ذمہ دار ہے۔ فسادات بے شک طے شدہ تھے۔ کانگریس کارکنان کے ذریعہ طے شدہ بھی تھے۔ بہار کانگریس کے ایک رکن ایچ -بی- چندر نے راجندر پرساد کو لکھا کہ گاؤں میں ہندووں کے ہجوم نے قتل و غارت کو انجام دیا۔ لوگ وہی کام کر رہے تھے جو کانگریس قائدین نے نواکھالی(موجودہ بنگلہ دیش) کے بعد ان سے کرنے کو کہا تھا۔
نہ صرف یہ بلکہ گاندھی کی انکوائری کمیٹی کی تقرری کی تجویز کو بھی بہار حکومت نے ۱۳؍فرور ۱۹۴۷ء کو کافی دیر اور ہچکچاتے ہوئے منظور کیا تھا۔ سید محمود نے گاندھی کو لکھا کہ فسادات کے چار ماہ بعد بھی عدم اعتماد اور خوف کا ماحول ہے۔ لوگوں کے دلوں سے خوف کو دور کرنا ہی سب سے بڑا جرأت مندانہ فعل تھا۔ انھوںنے بھی واضح طور پر کہا تھا کہ وہ کانگریس ہی کی ممبر تھے جنہوں نے نواکھالی کا بدلہ لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ تقی رحیم (۹۹-۱۹۲۱ء) (ہم عصر اردو مصنف و سیاسی کارکن) نے سید محمود کے خط کے موضوعات کی تصدیق کرتے ہوئے یاد دلایاہے کہ کانگریسی اخبار روزنامہ سرچ لائٹ سمیت زیادہ تر اخبارات نے فرقہ وارانہ تشدد کو مزید ہوا دی۔
سید محمود کے خط (۱۷-۱۶؍فروری۱۹۴۷ء) کے جواب میں ۲؍ مارچ ۱۹۴۷ء کو گاندھی بذات خود پٹنہ نمودار ہوئے۔ اس واقعہ نے کانگریس کی شمولیت کو اور بھی واضح کردیا۔ متاثرہ علاقوں میں گاندھی کے پیدل جانے پر کانگریس وزرا نے احتجاج کیا ،بہار میں جانچ کمیٹی کے تشکیل دینے میں کانگریس کی عدم دلچسپی سے گاندھی نالاں تھے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ سری کرشن سنہا کو اس بات سے دو دفعہ آگاہ کیاگیا تھا لیکن وہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ اگر حکومت جانچ کمیٹی تشکیل دینے کی طرف بڑھ گئی تو لیگ اس کا سیاسی فائدہ اٹھائے گی۔(سنہانے یقین دلایا تھا کہ ڈیوڈ عذرادوبین(۱۹۷۶-۱۸۹۳ء) پٹنہ ہائی کورٹ کے موجود جج کی سربراہی میں ایک جانچ کمیٹی تشکیل دی جائے گی) گاندھی نے اس کے علاوہ یہ بھی تجویز پیش کی تھی کہ سید محمود کو امداد اور تعاونی کاموں کا سربراہ مقرر کیا جائے لیکن وزرانے دوبارہ اسے مسترد کردیا۔
چنانچہ ایسی ہی وجوہات نے بہار کے مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ بہار کانگریس سمیت عام ہندو مسلمانوں کو ایک علیحدہ ملک کے زمرہ میں سمجھنے لگے ہیں۔ ۴۷-۱۹۴۶تک جیسا کہ گاندھی کہتے ہیں، ہندو بھی تقسیم چاہتے تھے۔ یہ کیفیت تو ایک وقت تک مسلمانوں کے دل و دماغ پر چھائی رہی۔ قوم پرست مسلمانوں کے لیے تقریبا یہ ناممکن ہوگیا تھاکہ وہ مسلم لیگ کو درکنار کرسکیں۔ ۱۹۴۶ء کے بہار فسادات نے آخر کار غیر منقسم ہندوستان کے خواب کو تباہ و برباد کردیا۔ فسادات کے بعد ان تنظیموں نے امداد اور تعاونی کاموں کے ساتھ لوگوں کو راضی کرنے اور یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ کہیں اور منتقل نہ ہوں۔ ۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو امارت شرعیہ کے ترجمان نقیب کے ایک اداریہ نے لیگ کے دو قومی نظریہ کے خلاف بحث کا آغاز کیا اور متحدہ قومیت یا مشترکہ ثقافت پر اپنے یقین کو دہرایا۔
المختصر یہ کہ بھارت کا بٹوارہ مقابلہ جاتی فرقہ پرستانہ سیاست کی وجہ سے ہوا۔ نوآبادیات سے پہلے ہندوستان میں کوئی فرقہ پرستانہ سیاست نہیں تھی ۔ موقع پرستانہ سیاست کے اس کھیل میں مسلمانوں کو تقسیم ہند کے لیے ذمہ دار ٹھہرانا صریحاً غلط ہوگا؛بلکہ اس کو صحیح تاریخی پس منظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
( یہ مضمون پروفیسر محمد سجادکی کتاب Muslim Politics in Bihar: Changing Contours, Routledge2014/2018(Repint) کے چوتھے باب سے ماخوذ ہے)