کولکاتا6 جنوری (نمائندہ) مرکزی حکومت کے آمرانہ رویہ اور ملک میں تشدد کے بڑھتے واقعات سے ہر امن پسند شہری فکرمند ہے۔ اب تک بے شمار معصوم جانیں تشدد اور درندگی کی نذر ہو چکی ہیں۔ پورا ہندوستان سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ ایسے میں ایک ادیب اور تخلیق کار کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قلم سے مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مخالفت کرے۔ اسی مقصد کے پیش نظر واٹس ایپ کے مقبول گروپ دیارِ میر کی جانب سے دو روزہ آن لائن احتجاجی مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ دیار میر کے ایڈمن احمد کمال حشمی نے بتایا کہ اس مشاعرہ کا مقصد شاعری کے توسط سے احتجاج کی آواز کو مضبوط کرنا اور مزاحمتی ادب کے ذریعہ آوازِ حق بلند کرنے کے لیے شعرا و شاعرات کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے۔مشاعرہ کی صدارت سید انجم رومان نے کی جبکہ نظامت کا فریضہ مغربی بنگال کی نئی نسل کی شاعرہ فرزانہ پروین نے بحسن و خوبی انجام دیا۔ صدر مشاعرہ سید انجم رومان نے اپنے صدارتی کلمات میں ترقی پسند شعرا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آج کے اس مشاعرہ نے ثابت کر دیا کہ ہماری شاعری محض ادب برائے ادب کی قائل نہیں بلکہ ضرورت پڑنے پرہمارا قلم پھر سے تلوار بن سکتا ہے۔مشاعرہ میں جن شعرا و شاعرات نے اپنا احتجاجی کلام پیش کیا ان میں سید انجم رومان، خورشید طلب، احمد کمال حشمی، احمد مشرف خاور، فیض احمد شعلہ، نسیم فائق، فہیم جوگا پوری، اشرف یعقوبی، اطہر مرزا مرشد آبادی، شمشاد علی منظری،احمد مشرف خاور،خورشید ملک، ناصر معین،مرشد عالم ندوی، ڈاکٹر صابرہ خاتون حنا، کامران غنی صبا، حسن امام قاسمی، نیاز نذر فاطمی، فرزانہ پروین، اصغر شمیم، ذکیہ شیخ، مقصود عالم رفعت، م سرور پنڈولوی، سہیل اقبال، نثار دیناج پوری، اشفاق اسانغمی، بلال صابر اور منظور ذکی کے نام شامل ہیں۔ مشاعرہ میں پیش کیے گئے کلام کا منتخب حصہ پیش خدمت ہے:
سید انجم رومان
قفل ہونٹوں کے کھلیں گے اب صدا ہوگی بلند
عزمِ مفلس سے ڈریں گے خود یہاں دارو کمند
خورشید طلب
ہوائی تخت کے مسند نشیں سنا تم نے
سرک رہی ہے تمہاری زمیں سنا تم نے
احمد کمال حشمی
ہم پہ رہ رہ کے کیا کرتے ہو جب وار سنو
ہم بھی اب مارنے مرنے پہ ہیں تیار سنو
فیض احمد شعلہ
زمانہ تھوک رہا ہے تری سیاست پر
مگر یہ تو ہے کہ ذلت پہ تجھ کو لاج نہیں
احمد مشرف خاور
اٹھو کہ اب وقت آ چکا ہے ہر اک ستم کا حساب لے لو
وگرنہ ظالم وطن کی مٹی تمہارے خوں سے رنگا کریں گے
فہیم جوگا پوری
کوئی دھرنا نہ احتجاج کرو
چوٹ سے چوٹ کا علاج کرو
نسیم فائق
ہر چہرے پر زردی ہے
کیسی دہشت گردی ہے
اشرف یعقوبی
ہم باغباں ہیں باغ کے صیاد ہم نہیں
آزاد ہو کے آج بھی آزاد ہم نہیں
نیاز نذر فاطمی
ظلم کی جبر کی سیاست ہے
کیا یہ فرعون کی حکومت ہے
اطہر مرزا مرشد آبادی
خلاف ظلم کے آئو اور احتجاج کرو
صدائیں اپنی اٹھائو اور احتجاج کرو
خورشید ملک
خامشی سے ظلم کا پھندا گلے میں ڈال لیں
وار دیں کیا زندگی ہم وقت کے جلاد پر؟
مرشد عالم ندوی
اک نعرۂ تکبیر سے زندان ہلا دو
اِس ملک میں جینا ہے تو کہرام مچا دو
شمشاد علی منظری
قتل و خوں کے جو لوگ ہیں ملزم
اب وہی ہم پہ راج کرتے ہیں
حسن امام قاسمی
ہمیں ہر حال نامنظور ہے دستورِ فرعونی
بہت ہم سہہ چکے ظلم و ستم اب چپ نہ بیٹھیں گے
اصغر شمیم
لوگ اس کو اتار پھینکے گے
سر پہ تیرے جو تاج ہے پاگل
صابرہ خاتون حنا
جو لب کو کھول دیں پردوںمیں ارتعاش کریں
زباں کی دھارسے پتھر میں ہم شگاف کریں
فرزانہ پروین
اگر ڈرو گے تو بے موت مارے جائو گے
یہی بچائو کی صورت ہے احتجاج کرو
ناصرمعین
پھر اٹھو اہل وطن حق کے لیے
سر پہ باندھو پھر کفن حق کے لیے
م سرور پنڈولوی
چہار سمت اندھیرا ہے احتجاج کرو
یہ کس نے نور کو گھیرا ہے احتجاج کرو
مقصود عالم رفعت
رقم کرے گا مؤرخ تمہاری جاں بازی
وہ تم پہ تیغ چلائے تم احتجاج کرو
سہیل اقبال
کرتا رہوں گا آخری دم تک میں احتجاج
میرا ضمیر زندہ ہے مر تو نہیں گیا
ذکیہ شیخ مینا
غرور و فخر سے تنی یہ گردنیں جھکیں گی اب
سن ائے خدائے وقت اب، فنائیں عنقریب ہیں
نثار دیناج پوری
نثار ؔ اب تو بھی بن جا اک صلاح الدین ایوبی
کہ پھر سے درپئے آزار جو طاغوتی قوت ہے
اشفاق اسانغنی
بقا کے واسطے اپنی، گزر جاو ہر اک حد سے
بچے گا سر تو اس پر آکے سج جائے گی خود دستار
عبدالکریم شاد
ظلم کا بول بالا نہیں چاہیے
ہم کو قانون کالا نہیں چاہیے
بلال صابر
بدن میں باقی لہو ہے تو احتجاج کرو
جو حکمرانوں پہ تھو ہے تو احتجاج کرو
منظور ذکی
فرداً فرداً جگنو بن کر پھرتے رہنا کیا معنی
ایک جمیعت بن کر دیکھو تم سورج بن جائوگے