Home نقدوتبصرہ لسانی ڈسکورس اور شمیم طارق-حقانی القاسمی

لسانی ڈسکورس اور شمیم طارق-حقانی القاسمی

by قندیل

(اردو ہندی تنازعے کے حوالے سے)

شمیم طارق ایک وسیع المطالعہ،کثیر الجہات، ادیب لبیب، محقق، ناقد، شاعر اور صحافی ہیں۔ ادیبوں کے اُس انبوہ سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے جو مریضانہ داخلیت اور تنہائی کا شکار ہے اور جس نے اپنی پوری توانائی اپنی ذات کی نوحہ گری پر صرف کی ہے بلکہ اُن کا رشتہ ادیبوں کے اُس سلسلہ سے ہے جس نے کائناتی مسائل و موضوعات، کیفیات و کنہیات کی تخلیقی صورت گری کی ہے۔

اُردو میں ادیبوں کی تعداد تو بہت ہے مگر کیا لوح و قلم سے رشتہ رکھنے والا ہر فرد ادیب کہلا سکتا ہے۔ میرا خیال نفی میں ہے کہ ادیب بننا ہر ایک کا نہ مقدر ہے نہ مقدور۔ آج کے تناظر میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ آخر ادیب کسے کہا جائے اور ادیبوں کے کیا امتیازات اور تشخصاتی اوصاف ہیں۔ ادب میں اگر بین علومیت کو بھی شامل کر لیا جائے تو ادیبوں کی تعداد مختصر سے مختصر ترین ہو جائے گی کیوں کہ ہمارے عہد کے بیشتر ادیبوں کا بہت سے علوم و فنون، ادبیات اور نظریاتی فکری انسلاکات سے کوئی بھی رشتہ نہیں ہے، بالخصوص سائنسی اور سماجی علوم کا خانہ تو خالی ہی نظر آتا ہے۔ ہمارے عہد میں ادیبوں کی بڑی تعداد میر و غالب اور مصحفی و آتش میں الجھی ہوئی ہے۔ جب کہ ادب کا صرف یہ منصب ہے اور نہ ہی ادیب کا یہ معاشرتی فریضہ اور کردار کہ وہ ایسے مسائل و موضوعات میں الجھا رہے جن کی کوئی عصری معنویت اور معاشرتی افادیت نہ ہو۔ ادیب کا کام سماج کو راستہ اور روشنی بھی دکھانا ہوتا ہے اور جب تک وہ یہ فرض ادا نہیں کرتا اسے ادیب کے زمرے میں شامل کیا جانا محل نظر ہے۔

شمیم طارق کامرس کے گریجویٹ اور اردو والوں کے لیے آؤٹ سائڈر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ (میں کامرس پر اس لیے زور دے رہا ہوں کہ اردو سے براہِ راست وابستہ نہ رہنے والے اور غیرپیشہ ورانہ رشتہ رکھنے والے افراد کی ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انہی لوگوں نے بیشتر اصنافِ ادب میں نئے زاویے اور جہات کی جستجو کی ہے، مگر ان کی خدمات کے اعتراف میں بخل سے کام لیا جاتا ہے اور انھیں اردو میں The other بھی کہا جاتا ہے۔اس تعلق سے میرا ایک مضمون اردو سے غیر پیشہ ورانہ طور پر افراد کی اردو خدمات ماہنامہ ’یوجنا‘ جنوری-فروری 2021میں شائع ہوچکا ہے)۔ وہ اردو شعبہ سے براہِ راست وابستہ نہ رہتے ہوئے بھی اردو کے ایک بڑے ادیب ہیں۔ اور اس معنی میں واقعی ادیب ہیں کہ اُنہوں نے اپنی ذات کو کسی خاص دائرہ میں قید نہیں کیا ہے اور نہ ہی وہ کسی حصار میں اسیر ہیں بلکہ وہ معاشرتی منصب اور سماجی ذمہ داریوں کا احساس رکھنے والے قلمکار/فنکار ہیں۔ انھوں نے ہر اُس مسئلے پر لکھا ہے جس کی بنی نوع انسان کو ضرورت ہے۔ غیر ضروری تنقیدی مباحث، لایعنی ڈسکورسز، مہمل قضایا میں اپنی ذہنی توانائی صرف نہیں کی ہے بلکہ اُن مباحث اور مسائل کو اپنا محور و مرکز بنایا ہے جن میں انسانی فوز و فلاح اور معاشرتی مقصدیت اور معنویت پنہاں ہو۔ یہاں مجھے مشہور اکیڈمک دانشور اور مفکر پوسٹ کالونیل اسٹڈیز کے متخصص، ثقافتی نقاد Orientalism جیسی مشہور کتاب کے مصنف ایڈورڈ سعید کی ایک بات یاد آگئی جس کا حوالہ پروفیسر شمیم حنفی نے اپنے ایک مضمون میں دیا ہے کہ ایڈورڈ سعید نے اپنے ایک لکچر کے دوران اپنے ایک دوست کا ذکر کیا ہے کہ ویتنام کی جنگ کے دوران کسی طالب علم نے اُن سے یہ سوال کیا تھا کہ جب شمالی ویتنام لاؤس اور کمبوڈیا کے بے قصور عوام پر ساٹھ ہزار کی بلندی سے بمباری ہو رہی ہے کیا وہ ایک احتجاجی عرض داشت پر دستخط کرنا چاہیں گے۔ اُن کا جواب تھا۔ جی نہیں میں ادب کا پروفیسر ہوں۔ میں شیکسپیئر اور ملٹن کے بارے میں لکھتا ہوں۔ مجھے اس بمباری سے کیا لینا دینا اور پھر میں اسے سمجھتا بھی نہیں۔

شمیم حنفی نے اسی نوع کے ایک واقعے کا ذکر ژاں پال سارتر کے حوالہ سے کیا ہے کہ حلقۂ ارباب ذوق کے مشہور شاعر قیوم نظر جب اُن سے ملنے کے لئے گئے تو سارتر نے اُن سے سوال کیا کہ الجزائر پر اُن کا موقف کیا ہے تو اُن کا جواب تھا :’میں تو شاعر ہوں اس مسئلے سے میرا کیا تعلق۔ یہ سنتے ہی سارتر نے اپنی گفتگو روک دی اور یہ کہا کہ جسے عالمی سیاست اور دنیا کے احوال و حوادث سے کوئی مطلب نہ ہو اسے ادب لکھنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ‘

اب یہ سمجھنا دشوار نہیں ہے کہ ادیب کون ہے اور ادب لکھنے کا حق کسے حاصل ہے۔ سارتر کے اس خیال کی روشنی میں دیکھا جائے تو شمیم طارق ادیب کہلانے کے واقعی مستحق ہیں۔ ورنہ آج کے بیشتر قلمکار اس کا استحقاق کھوچکے ہیں۔ ان قلمکاروں نے مجرمانہ خاموشی اور خوف و مصلحت کی چادریں اوڑھ رکھی ہیں۔ اُن کے اندر نہ مزاحمتی جذبہ ہے اور نہ ہی احساس مقاومت۔ وسیم بریلوی کی زبان میں کہیں تو آج کے زیادہ تر قلمکار ؎

اتنے سمجھوتوں پہ پلتے ہیں کہ مرجاتے ہیں

زیادہ تر قلمکار ایک طرح کی ذہنی محکومی اور فکری مرعوبیت کے شکار ہیں جو اپنی ذات کے خول سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتے اُن کی پوری کائنات اُن کی ذات تک ہی محدود ہوتی ہے۔ یہاں مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ہمارے عہد کے بیشتر قلمکار روسی ناول نگار گنچروف کے ناول اوبلوموف کی طرح ہیں۔ ایک فالتو، نکما اور بے عمل کردار جس کا کوئی معاشرتی وجود نہیں۔ اور بقول انتظار حسین ایسے فالتو لوگ جنھیں کوئی کام ہی نہ ہو سوائے اس کے کہ تصور جاناں میں گم بیٹھے رہیں۔

مجھے جبر و تشدد، استحصال و استبداد کے ماحول میں قلمکاروں کی مصلحت پسندانہ خاموشی کو دیکھ کر میکسم گورکی کے ناول ’ماں‘ کا مزدور کردار پاویل ولاسوف یاد آتا ہے جو نہ صرف جبرو استحصال کے خلاف آواز بلند کرتا ہے بلکہ انقلاب کے لیے اذیتیں برداشت کرتا ہے اور اس سے بڑھ کر مجھے اس مزدور کی اَن پڑھ بوڑھی ماں کا کردار معاشرے کے لیے زیادہ متحرک اور فعال نظر آتا ہے جو انقلابی فلسفے اور تصور سے تو نابلد ہے مگر اپنے بیٹے کی انقلابی تحریکمیں تن من دھن سے شامل ہوتی ہے، جیل کی اذیتیں برداشت کرتی ہے، انقلابیوں کے حوصلے بڑھاتی ہے، وہ مار کھاتی رہتی ہے مگر برسرعام بلند آواز میں کہتی ہے کہ ’’خون کا بحر اوقیانوس بھی سچ کو ڈبو نہیں سکتا‘‘ کیا آج کا ادیب اس بوڑھی انقلابی ماں جیسا کردار ادا کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے، سچ پوچھیے تو آج کا قلمکار جبن اور بزدلی کی علامت میں تبدیل ہوچکا ہے، وہ مقتل اور دار و رسن نہیں بلکہ طواف کوئے جاناں کی بات کرتا ہے۔ وہ سوئے دار نہیں کوئے یار میں مگن رہتا ہے۔ اس انبوہ زوال پرستاں میں شمیم طارق کا امتیاز یہ ہے کہ کائنات کے اطراف و اکناف میں کیا کچھ ہو رہا ہے اس پر اُن کی بہت گہری نظر ہے اور انسانی کائنات کو کس نوع کے مسائل درپیش ہیں اُن کا ادراک بھی ہے۔ وہ تہذیبی ورثے کی بازیافت کے طور پر کلیات و دواوین اور مخطوطات کا مطالعہ ضرور کرتے ہیں مگر ان کے پاس ایک جام جہاں نما بھی ہے جس سے انھیں دنیا بھر میں ہونے والے احوال و حوادث کی خبر ملتی رہتی ہے۔ انھوں نے صرف وہ تنقیدی و تحقیقی مضامین نہیں لکھے جن کی حیثیت آموختہ یا ماضی کی بازیافت کی ہے بلکہ اُن کی بیشتر تحریروں کا تعلق عصری ادراکات و انسلاکات اور معاصر مسائل و موضوعات سے ہے۔ انھوں نے اجتماعی زندگی اور معاشرتی تفاعل و تحرک سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا۔ اس لیے معاشرے کے مسائل و موضوعات پر اُنھوں نے نہایت بے باکی اور جرأت مندی کے ساتھ کالم بھی لکھے جب کہ آج کے عہد کے بیشتر قلم کار انسانی کائنات کے مسائل سے ایک طرح کی ذہنی لاتعلقی کے شکار نظر آتے ہیں۔ انھیں اپنی ذات کے کرب کا احساس تو ہے۔ مگر ان کے سینے میں سارے جہاں کا درد نہیں ہے۔ یہ ذہنی لاتعلقی بھی دراصل ایک طرح سے سماجی جرم اور معاشرتی گناہ ہے۔ پروفیسرحنفی نے ایڈورڈ سعید کے حوالہ سے لکھا ہے کہ:’اس نوع کی ذہنی لاتعلقی سے جبر و استحصال اور بدی کی ہمنوائی کا ایک پہلو نکلتا ہے جو دانشورانہ طاقت اور دیانتداری کا دشمن ہے۔‘

شمیم طارق نے اپنی دانشورانہ طاقت کا بہت ہی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے اور اپنی ذہنی اور تخلیقی توانائیوں کو معاشرتی مقصدیت اور افادیت کے لیے وقف کیا ہے۔ ان کے ذہن میں چونکہ سوالات اٹھتے رہے ہیں اس لیے وہ مسلمات سے انکار بھی کرتے ہیں اور مفروضات و مزعومات کی تردید اور تغلیط میں بھی اپنی مثبت قوت کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے اندر نہ خوف ہے نہ کوئی مصلحت اور نہ ہی اُن کی ذہنی جولان گاہ محدود و مختصر ہے۔ اُن کے ذہن کے اندر ایک طرح کی عالمیت اور آفاقیت کے عناصر ہیں۔ اسی لیے ہر مسئلے اور مبحث کو وہ آفاقی اور کائناتی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا مطالعاتی اور موضوعاتی دائرہ محدود نہیں ہے بلکہ وسیع سے وسیع ترین ہے۔ جب کہ ہماری زبان کا موجودہ المیہ یہ ہے کہ اِس کی موضوعاتی زمین روز بروز تنگ سے تنگ تر ہوتی جارہی ہے اورہمارا پورا ادب ہی موضوعاتی بحران یا تکرار و اعادے کا شکار ہے۔ شمیم طارق کے موضوعاتی مطاف پر نظر ڈالی جائے تو یہ اندازہ لگانا آسان ہو جائے گا کہ شمیم طارق چند مخصوص موضوعات میں محصور نہیں ہیں بلکہ اُن کا موضوعاتی منطقہ نہایت وسیع ہے اور یہی دائروی وسعت اُن کا تشخص اور امتیاز ہے۔

نئے موضوعاتی جزیروں کی جستجو شمیم طارق کا وصف خاص ہے۔ انہوں نے جن موضوعات کو مس کیا ہے ان پر لکھنے کے لیے گہرے علم و عرفان اور ادراک و آگہی کی ضرورت پڑتی ہے۔ صوفیاء کا بھکتی راگ، صوفیا کی شعری بصیرت میں شری کرشن، غالب اور ہماری تحریک آزادی، غالب بہادر شاہ ظفر اور 1857، انجمن اسلام اور کریمیہ لائبریری اُن کی مطالعاتی وسعت کے گواہ ہیں اور اس بات کا ثبوت کہ انہوں نے تحقیق و تنقید میں عمومی راہ و روش سے گریز کیا ہے اور کہیں بھی ذہنی تقلید اور محکومی کے شکار نہیں ہوئے ہیں۔ تحقیق کا جو بنیادی منصب اور فریضہ ہے اس کا انہوں نے پاس رکھا ہے اور بہت سے اہم اکتشافات کئے ہیں۔ خاص طور پر غالبیات میں اُن کے اکتشافات حیرت انگیز ہیں۔ انہوں نے غالب کے تعلق سے عمومی تصورات اور مفروضات کی نفی بھی کی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ غالب کو صرف اپنا مفاد عزیز تھا۔ وہ انگریزوں کے قصیدہ خواں تھے اور انہوں نے انگریزوں کے مظالم پر مصلحتاً خاموشی اختیار کررکھی تھی۔ غالب کے مکاتیب سے بھی اُن کے اکاذیب کی نشان دہی کی ہے۔ انھوں نے دلائل سے یہ بھی ثابت کیا کہ مولانا فضل حق خیرآبادی نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ نہیں دیا تھا۔ ان کی اس رائے کے خلاف کافی کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھو ںنے ٹھہرے ہوئے تالاب میں پتھر پھینکنے کا کام بھی بخوبی کیا ہے اور موضوعاتی جمود و جُلمود کو توڑنے کی مستحسن کوشش کی ہے۔

شمیم طارق نے تقابلی مطالعے اور حوالے پر مشتمل تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’تقابل اور تناظر‘ میں بھی نئے موضوعاتی جزیرے کی سیاحت کی ہے اور کچھ نئے زاویے تلاش کیے ہیں۔ خاص طور پر شعر وادب میں سریت کے نفوذ و اثرات، غزل میں سائنس کے اشارے، کلاسیکی غزل میں شہر جیسی تحریریں واقعی نئی جہتوں کی جستجو سے عبارت ہیں۔ انھوں نے شبلی اور اقبال کا مشترکہ عطیہ کے عنوان سے بھی ایک دلچسپ مضمون لکھا ہے جس میں انھوں نے شبلی اور اقبال کے مابین کچھ مشترکات اور مماثلتیں تلاش کی ہیں۔ عطیہ فیضی اور شبلی کا معاشقہ موضوعِ بحث رہا ہے۔ اس تعلق سے بھی یہ تحریر بہت اہم ہے۔ ان کا ایک نئے زاویے کا کام یہ بھی ہے کہ تصوف و بھکتی پر بہت قیمتی مضامین لکھے ہیں اور تصوف کی تشکیلی صورتوں اور مثبت پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ تصوف بھی آج کا ایک اہم موضوع ہے، اس حوالے سے ان کا کام عالمانہ اور عارفانہ ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کچھ ایسے موضوعات کو بھی مرکزیت دی ہے جو آج کے زمانے میں نہایت اہمیت اور قدرو قیمت کے حامل ہیں۔ اس تعلق سے اُن کے اس مضمون کا حوالہ بطور خاص دیا جا سکتا ہے جو ’لسانی دہشت گردی‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ یہ مضمون لسانی کشیدگی اور تنازعہ کے اس دور میں نہایت بصیرت افروز اور چشم کشا ہے۔ اس میں انہوں نے زبانوں کی مماثلت اور لسانی توارد کے حوالہ سے بھی اچھی گفتگو کی ہے۔ انہوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ :’’جس طرح سے روئے زمین کی کوئی نسل یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اس کے خون میں کسی دوسری قوم یا نسل کی آمیزش نہیں ہے بالکل اسی طرح کوئی زبان یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اس میں کسی دوسری زبان کا کوئی لفظ شامل نہیں ہے۔ جس طرح ابنائے آدم ایک مقام سے دوسرے مقام پر اور ایک جغرافیائی خطے سے دوسرے جغرافیائی خطے میں آباد ہوتے اور ان خطوں کی ضرورتوں کے مطابق اپنے لباس، خوراک اور لب و لہجے میں تبدیلی کرتے رہے ہیں اسی طرح صوتی صرفی معنوی تبدیلیوں کے ساتھ ایک زبان کے لفظوں کی دوسری زبان میں شمولیت بھی ہوتی رہی ہے۔ دنیا کی کوئی زبان بھی لفظوں کے لین دین سے محفوظ نہیں ہے۔‘

یہاں یہ خاطر نشاں رہے کہ اردو زبان کی پوری بنیاد مستعار الفاظ(Loan Words) پر ہے اس لیے بہت سے لوگ اسے قائم بالذات زبان نہیں مانتے بلکہ قائم بالغیر کہتے ہیں۔ اردو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں: ’ہندی، پنجابی، پوربی، پالی، سنسکرت، ملیالم کے علاوہ عربی، فارسی، ترکی، عبرانی، سریانی، انگریزی، یونانی، لاطینی، فرانسیسی، پرتگالی اور ہسپانوی زبانوں کے الفاظ داخل ہوئے ہیں۔ ‘

اسی سے جڑا ہوا مسئلہ تعریب، تہنید اور تارید کا بھی ہے کہ کس طرح دوسری زبانو ںکے الفاظ بدلے گئے ہیں ۔ اس طرح زبانوں کی ثروت میں اضافہ ہوا ہے کہ دراصل یہ ارتقائی زبان کا ایک نامیاتی مظہر ہے۔ شمیم طارق نے بڑی اچھی بات لکھی ہے کہ:’’دوسری زبانوں سے استفادہ کرنے کا عمل انگریزی میں بھی جاری رہا ہے جو نہ صرف دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے بلکہ اس کے بولنے والوں میں لسانی اور نسلی برتری کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود اس کے ذخیرۂ الفاظ میں ایک اندازے کے مطابق 120زبانوں کے الفاظ شامل ہیں اور اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس میں عربی، فارسی، اردو، طبرانی، اطالوی، پرتگالی اور روسی زبانوں کے علاوہ جاپانی، پولش، سنہالی اور تبتی زبانوں کے الفاظ بھی شامل ہیں جن کی شمولیت کا امکان بظاہر بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے۔ شاید ضرورت و سہولت کے مطابق نئے لفظوں کو اپنا لینے کی انگریزی کی صلاحیت کے سبب ایسا ہوا ہے۔ انگریزی میں دوسری زبانوں کے لفظوں کو اپنا لینے کی جو صلاحیت ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ فارسی اور سنسکرت الفاظ کے آگے بھی ed اور ing لگا کر صیغۂ ماضی اور صیغۂ استمراری بنا لیتی ہے۔‘

انھوں نے اردو ہندی کے مصنوعی جھگڑے پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس تنازعہ پر بہت عمدہ گفتگو کی ہے اور اس طرح کے تنازعہ کو انہوں نے لسانی دہشت گردی سے جوڑ کر دیکھا ہے۔ اُن کا یہ خیال بہت اہم ہے کہ:

’آج کے عہد میں جب ’گلوبلائزیشن‘ نے دنیا کو ایک اکائی میں تبدیل کر دیا ہے، دنیا کی مختلف زبانوں کے باہم مربوط ہونے کا نظریہ تسلیم کیا جا چکا ہے اور انگریزی کا فروغ بھی، جو دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے، یک لسانی صاحب اقتدار ممالک کی ضرورتوں کے بجائے کثیر لسانی دنیا کی ضرورتوں کے مطابق کرنے پر اتفاق کیا جا چکا ہے تو ہندوستانی زبانوں سے عربی فارسی ترکی انگریزی کے لفظوں کے اخراج پر اصرار کرنے والے دوستوں اور عربی فارسی لفظوں میں بشمول اردو ہندوستانی زبانوں میں کئے جانے والے تصرف کے خلاف مزاحمت کرنے اور ان لفظوں کو اصل زبانوں کے مطابق استعمال کرنے پر بضد رہنے والے عالموں کے غیرمنطقی رویے کے بارے میں یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ زبان کی نشوو نما کے لئے کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس زمانہ میں ہر زبان کو نشو و نما اور دنیا کی دوسری قوموں اور زبانوں سے اپنا رشتہ بنائے رکھنے کے لیے اسی انداز سے سوچنے کی ضرورت ہے جس انداز سے انگریزی بولنے والے سوچ رہے ہیں۔‘

یہ پورا مضمون ہندی اردو تنازعہ سے جڑا ہوا ہے اور آج کی لسانی عصبیت اور تنگ نظری کے عہد میں بطور خاص اہمیت کا حامل ہے میں نے اپنے ایک مضمون ’اردو کی مشتبہ شہریت‘ میں اس کے حوالہ سے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اس کی کچھ سطروں کے اعادہ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے :

’اردو بنیادی طور پر ایک Pluricentric اور وحدت اضداد Unity of Opposites کی زبان ہے جس میں تمام تہذیبی، ثقافتی، مذہبی تصورات وتخیلات اور دوسری زبانوں کی لفظیات، صرفیات، نحویات کے لیے بہت گنجائش ہے۔ اس زبان نے تمام تفریقی تشخصات اور تقطیبی شناختوں کومسترد کیا ہے۔ اسے کسی ایک قوم یا مذہب سے مشخص نہیں کیا جاسکتا۔ پھر بھی اسے Non Indian Language کہا جا رہا ہے اور اردو کی وطنیت اور شہریت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس زبان میں ہندوستانیت کے عناصر کی کثرت ہے ہندوستانی فکر، فلسفہ، اساطیر، استعارات ،علامات اور تمثیلات کو اردو نے اپنے اندر مکمل طور پر جذب کیا ہے۔ شاعروں اور ادیبوں نے ہندو مائتھالوجی اور اساطیر کو اپنی تخلیق اور تنقید کا حصہ بنایا ہے۔اردو شعر و ادب میں رام، سیتا، گنپتی، سرسوتی، بھیرو، بھوانی، رادھیکا اور بہت سے دیوی دیوتاؤں کا ذکر ملتا ہے۔فخر الدین نظامی کی مثنوی ’کدم راؤ پدم راؤ‘ میں دیوتاؤں اور شیش ناتھ کا ذکر ہے تو سلطان قلی قطب شاہ کی عشقیہ شاعری میں ہندو تلمیحات کی کثرت ہے۔ خاص طور پر مدن دیوتا اور پری پدمنی کا ذکر ہے۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی جگت گرو کی تصنیف نورس میں دیوتاؤں کا ذکرملتا ہے۔ عبداللہ قطب شاہ کے دیوان میں ہندو اساطیر ہیں۔ تو شاہ تراب چشتی کے ’من سمجھاون‘ میں ہندی دیومالا کی کثرت ہے۔ ڈاکٹر یحییٰ نشیط نے اپنی کتاب ’اسطوری فکر و فلسفہ اردو شاعری میں‘ اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس کے علاوہ اردو رباعیات، مثنویوں اور دیگر اصناف میں بھی بکثرت ہندو فلسفہ اور اساطیر موجود ہیں۔ ہندو تہواروں کے حوالے سے بھی شاعری کا ایک وافر حصہ ہے۔مگربنیادی لفظیات، کہاوتوں،تلمیحات میں اشتراکات اور تمام تر ہندوستانی عناصر کے باوجود اردو کی شہریت اور ہندوستانیت مشکوک اور مشتبہ ہے۔

پنڈت امرناتھ جھا نے اردو کو ایک نان انڈین زبان اس دلیل کے ساتھ قرار دیا ہے کہ فرہنگ آصفیہ کے چون 54ہزار الفاظ میں سے پینتیس35سو الفاظ عربی وفارسی کے ہیں۔جبکہ فرہنگ آصفیہ میں الفاظ کا گوشوارہ دیکھا جائے تو اردو کے 75پچہترفیصد الفاظ دیسی ہیں صرف 23فیصد ایسے الفاظ ہیں جو عربی اور فارسی سے مستعار لیے گئے ہیں۔یہ23فیصد الفاظ ایسے ہیں جن کے استعمال کے بغیر اردو کی مکمل کتاب لکھی جاسکتی ہے۔

بقول گوپی چند نارنگ :

’سید احمد دہلوی مؤلف فرہنگ آصفیہ کے اندازے کے مطابق اردو کے 55ہزار الفاظ کے سرمایے میں تقریباً 40ہزار الفاظ ایسے ہیں جو سنسکرت اور پراکرت کے مآخذ سے آئے ہیں۔‘

یہاں یہ بات بھی قابل غورہے کہ مراٹھی، سندھی، بنگالی، گجراتی، پنجابی، میں بھی عربی وفارسی الفاظ کثیر تعداد میں ہیں۔ حتیٰ کہ رامائن میں بھی بہ کثرت عربی فارسی الفاظ ہیں۔ محمد مصطفی خاں مداح نے انجمن ترقی اردو کے مجلہ اردو ادب جولائی 1956 کے شمارے میں اس حوالے سے ایک مضمون تحریر کیا ہے اور ایسے الفاظ کی ایک فہرست دی ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ رامائن عربی اور فارسی الفاظ سے بھری پڑی ہے۔ اسی طرح پریم پال اشک نے ماہنامہ ’نیادور‘ لکھنؤ کے اکتوبر 1966 کے شمارے میں رام چرت مانس میں عربی اور فارسی الفاظ کے عنوان سے ایک بیش قیمت مضمون لکھا ہے اور عربی اور فارسی الفاظ کی نشاندہی کی ہے۔ (یہ دونوں مضامین بہت اہم ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان کی مکرر اشاعت کی جائے اور مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا جائے) تو کیا رامائن کو اردو اور فارسی الفاظ کی وجہ سے سناتن دھرم کا مقدس صحیفہ نہیں مانا جائے گا اور مسلم گرنتھ قرار دے کر رامائن کو بھی نان انڈین قرار دیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی بہت سی علاقائی زبانوں میں بھی دوسری غیرملکوں زبانوں کے الفاظ موجود ہیں مگر کوئی بھی زبان نان انڈین نہیں کہلاتی ہے۔

شانتی رنجن بھٹا چاریہ نے اپنے مضمون ’’اردو اور بنگلہ کا باہمی رشتہ‘ میں یہ لکھا ہے کہ جس طرح اردو میں سیکڑوں عربی فارسی اور ترکی کے الفاظ آج تک زندہ ہیں اُسی طرح بنگلہ میں بھی سیکڑوں عربی فارسی اور ترکی کے الفاظ آج تک زندہ ہیں اور بنگلہ اور اردو میں بکثرت محاورے اور کہاوتیں مشترکہ ہیں۔ گوپی چند نارنگ نے یہ بات بھی لکھی ہے کہ ’واقعہ یہ ہے کہ ہندی اور اردو دونوں میں سیکڑوں ایک ہی طرح کی کہاوتیں استعمال ہوتی ہیں۔‘ اسی طرح مراٹھی اور پنجابی وغیرہ میں بھی عربی فارسی کے الفاظ موجود ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب ’مراٹھی زبان پر فارسی کا اثر‘ کے عنوان سے اپنی کتاب میں تفصیل سے لکھا ہے۔ انہوں نے مرہٹی زبان میں فارسی زبان کے آثار و نفوذ کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا ہے:’’ساڑھے تین سال کی یکجائی سے سینکڑوں فارسی الفاظ کا مرہٹی زبان میں آجانا کوئی تعجب کی بات نہیں لیکن تعجب اس امر کا ہے کہ مرہٹی پر فارسی کا ایسا گہرا رنگ چڑھا کہ یہ اثر الفاظ ہی تک محدود نہ رہا بلکہ فارسی ترکیبیں تک اس میں داخل ہوگئیں۔ اس کے علاوہ ہم اس زبان میں جا بجا دیکھتے ہیں کہ جملے کی ساخت تک فارسی ہے اور کثرت سے محاوروں کا ترجمہ بھی مرہٹی میں آگیا ہے۔‘‘

مولوی عبدالحق نے تفصیل سے یہ بات بھی لکھی ہے کہ شیوا جی نے مرہٹی سے عربی، فارسی الفاظ ہٹانے کا حکم دیا تھا اور تحریک بھی چلائی تھی۔ مگر یہ تحریک کامیاب نہ ہو سکی۔ بقول مولوی عبدالحق:

’مسٹر تلک کے مشہور اخبار’کیسری‘نے اس قسم کی کارروائی کی مخالفت کی اور اپنی تائید میں اس امر پر زور دیا کہ اگر فارسی عربی الفاظ خارج کر دیے گئے تو مرہٹی زبان کی قوت میں ضعف پیدا ہو جائے گا اور زبان بے مزہ ہو جائے گی۔‘

انہوں نے یہ بھی تحریر کیا ہے :

’خود شیوا جی جو اس تحریک کے بانیٔ اوّل تھے اپنے خطوط میں بلاتکلف فارسی الفاظ محاورے استعمال کرتے تھے اور ان کے گرو رام داس نے ان کے استعمال سے کبھی احتراز نہیں کیا۔ رام داس نے بہ نسبت دوسرے مرہٹی شعرا کے اپنی پُر زور شاعری میں فارسی الفاظ کا استعمال زیادہ تر کیا ہے۔اسی طرح پنجابی پر بھی فارسی اور عربی کے اثرات ہیں۔ ڈاکٹر کے ایس بیدی نے اپنی کتاب تین ہندوستانی زبانیں اردو ہندی اور پنجابی میں اس کی وضاحت کی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ گرنتھوں میں فارسی کے کافی الفاظ ہیں اور خود پنجاب نام بھی مسلمانوں کا ہی دیا ہوا ہے۔ ملیالم ایک دراوڑی زبان ہے جس پر تمل سنسکرت کے گہرے اثرات ہیں۔ مگر اس پر بھی عربی اور اردو کا اثر ہے۔ شعبہ عربی کالی کٹ یونیورسٹی کے مرتب کردہ کتابچہ ’اردو لون ورڈس اِن ملیالم‘ سے اس کی تفصیل معلوم کی جا سکتی ہے۔ اڑیہ بھی ایک قدیم زبان ہے۔ اس کا رشتہ ماگدھی اَپ بھرنش سے ہے۔ اس زبان میں بھی عربی، فارسی، اردو کے بہت سے الفاظ ملتے ہیں۔ وہاں کے مشہور ناول نگار فقیر موہن سیناپتی کے ناولوں اور افسانوں میں اردو فارسی الفاظ ملتے ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ اللہ نیولپوری نے اپنی کتاب ’اڑیسہ میں اردو‘ میں عربی، فارسی، اردو الفاظ کی ایک فہرست دی ہے جو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اڑیہ زبان میں بھی مستعمل ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اراضی کے قدیم ریکارڈ اور کاغذات میں بھی فارسی، عربی کے الفاظ ہیں۔ انہوں نے ایک سند کا عکس بھی شامل کیا ہے جس کے چھپّن الفاظ میں سے پینتیس الفاظ اردو اور فارسی کے ہیں۔

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی علاقائی زبانیں ہیں جن میں عربی فارسی اردو کے الفاظ تلاش کیے جا سکتے ہیں۔تو کیا اس بنیاد پر ان زبانوں کو بھی غیر ملکی بدیسی قرار دیا جائے گا۔یہاں سمجھنے کی بات خاص طورپر یہ ہے کہ اردو واحد ایسی زبان ہے جس نے صرف عربی فارسی، ترکی ہی نہیں بلکہ دنیا کی بیشتر زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر جذب کیا ہے حتیٰ کہ اسی زبان میں یونانی، لاطینی اور یورپی زبانوں کی کثرت ہے۔ محمد بن عمر نے اپنی ایک کتاب ’’اردو میں یونانی اور لاطینی الفاظ‘ اور ’اردو میں فرانسیسی الفاظ‘ میں اس کی وضاحت کی ہے۔ اور ان الفاظ کی فہرست بھی دی ہے جو لاطینی، یونانی اور یوروپ کی دوسری زبانوں سے براہ راست یا انگریزی کے واسطے سے اردو میں شامل ہوئے ہیں ان میں اٹلس، فوٹو، گراموفون، ٹانک، فارمولہ، کلینڈر، فورم، ڈائری، آپریشن، الیکشن، ایڈوکیٹ، پکچر، پائپ، آکسیجن، ٹیلی گراف، ویکسین، ویٹامن، اسٹوڈینٹ، ایجوکیشن، انسائیکلوپیڈیا، ہیلی کوپٹر، ٹریکٹر، کنڈکٹر، انسپکٹر، آپریٹر، آڈیٹر، تھرما میٹر، تھرمس، ٹیلی فون، میگافون، اسٹریٹ، ایجینٹ، اسٹوڈیو، پوسٹ، جنکشن، ووٹ، بیرسٹر، اور ڈھیر سارے الفاظ شامل ہیں جو صرف اردو نہیں بلکہ ہندی اور ہندوستانی عوام کی روزمرہ بول چال میں بھی مروج ہیں۔ اسی طرح فرانسیسی کے بہت سے الفاظ مثلاً بارک، رپورٹ، سلاد، گاڈ، وردی، کمان، پٹرول، شوفر، فرنیچر، ہیلو، انجینئر، فیکلٹی، فیشن، کلاس، کاپی، کونسل، کارپوریشن، لکچر، مشین، پارلیمنٹ، پولیس، لیمپ، کارٹون، کار، وغیرہ فرانسیسی سے ماخوذ الفاظ ہیں جو ہندوستان میں عام طورپر استعمال کیے جاتے ہیں۔ محمد بن عمر نے ’اردو میں دخیل یورپی الفاظ‘ کتاب میں پرتگالی الفاظ کی بھی ایک فہرست دی ہے جو اردو اور ہندی دونوں میں مستعمل ہیں۔ مثلاً الپن، الماری، الفانسو، انناس، پاؤ، تولیہ، پادری، چابی، صوفہ، صابن، کمرہ، کاجو، گرجا، گودام، ورانڈہ، اسی طرح جرمن کے بھی تھوڑے بہت الفاظ مثلاً ٹب، ٹیویل، اسپرے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر دوسری زبانوں کے الفاظ کی اردو میں شمولیت سے اردو غیر ملکی زبان قرار پاتی ہے تو پھر یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ہندوستان کے ہر شعبۂ حیات میں غیر ملکی الفاظ؍ دخیل الفاظ کا ہی تسلط ہے۔ ان غیر ملکی الفاظ کو اگر ہندوستان سے خارج کر دیا جائے تو پھر ہندوستان میں مافی الضمیر کے اظہار کے لیے کون سے متبادل الفاظ وضع کیے جائیں گے۔لفظیات کے معاملہ میں اگر یہی شدت پسندی رہی تو پھر ہمارا پورا ملک ہی گونگا ہوجائے گا۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دوسری زبانوںکے الفاظ پر ہی ہماری تجارت اور ثقافتی تعلقات کا انحصار ہے۔ اس کے علاوہ اس زبان کے ذخیرہ میں بھی غیر معمولی اضافہ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آکسفورڈ ڈکشنری میں ہر سال دوسری زبانوں کے الفاظ کا بطور ضمیمہ اضافہ کیا جاتا ہے۔مولوی عبدالحق نے بڑی اہم بات کہی ہے کہ ’’زبانیں الفاظ کے خارج یا متروک کرنے یا انہیں پاک اور پوتر رکھنے سے نہیں بنتیں۔‘‘ یہاں محمد بن عمر کا یہ حوالہ بھی ضروری ہے جنھوں نے اپنی کتاب ’اردو زبان پر انگریزی کے اثرات‘ میں یہ لکھا ہے کہ:

’جب انگریزی الفاظ کثرت سے اردو میں داخل ہونے لگیں تو بعض لوگوں نے اس درآمد کی مخالفت محض اس لیے کی کہ اس سے زبان غیر خالص ہو جائے گی۔ انہوں نے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر یہ غیر خالص جزو زبان میں زیادہ ہو جائے تو زبان تباہ ہو جائے گی۔ اُن کی ناراضگی لسانی اصولوں سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک اٹل لسانی حقیقت ہے کہ کوئی زبان خالص ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ ہر زبان میں دوسری زبان یا زبانوں کے کچھ نہ کچھ الفاظ ملیں گے۔ جس طرح کسی قوم یا نسل کے عوام اپنے جسم میں صرف ایک ہی قوم یا نسل کے خون کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح کوئی زبان بھی خالص ہونے کا دعویدار نہیں ہوسکتی۔ کسی قوم یا زبان کے خالص ہونے کا ا دعا سیاسی ہے، لسانی نہیں۔ جو زبان صرف اپنی لفظیات پر بھروسہ کرتی ہے اور دوسری زبانوں کے الفاظ سے پرہیز کرتی ہے بالآخر اچھوت بن کر رہ جاتی ہے۔ ‘

شمیم طارق نے اردو رسم الخط کے حوالہ سے بھی بہت فکر انگیز مضمون لکھا ہے اور پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اس تعلق سے جو لسانی اور سائنسی استدلال پیش کیا ہے اس پر روشنی ڈالی ہے۔ نارنگ صاحب کا خیال ہے کہ:’اردو رسم الخط ہندوستانی ہے اور اس کو تبدیل کرنا نہ صرف اردو کی انفرادیت سے دستبردار ہو جانے کے مترادف ہے بلکہ قومی یکجہتی، لسانیاتی اور تہذیبی نقطہ نظر سے بھی ناقابل عمل ہے۔ اس تعلق سے انہوں نے دیوناگری کو اپنا لینے والے نظریات کو مسترد کیا ہے۔ رسم الخط کے حوالہ سے بہت اچھی بحث کی ہے۔ جہاں تک رسم الخط کا مسئلہ ہے تو اس پر بھی اعتراضات ہوتے رہے ہیں مگر یہ تحفظات اور تعصبات پر مبنی اعتراضات ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے اور وہ قرآن کے رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔یہ اعتراض بھی منطقی اور معروضی طور پر غلط ہے کیونکہ عربی خط نسخ میں لکھی جاتی ہے اور اردو کا رسم الخط نستعلیق ہے اور اس حقیقت کا اظہاربھی ضروری ہے کہ فارسی رسم الخط کسی مسلمان نے نہیں بلکہ پنڈت تلک کاشمیری نے ایجاد کیا تھا۔اور عربی صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے بلکہ مشرکین عرب کی بھی یہی زبان رہی ہے۔ طلوعِ اسلام سے قبل دورجاہلیت میں جو ادب عربی زبان میں تحریر کیا جاتا تھا ان میں سے کسی کا بھی تعلق اسلام سے نہیں تھا۔ عربی کے سات قصائد کا مجموعہ ’سبع معلقات‘ اسی دور کی یادگار ہے۔ عربی اسلام سے بھی قدیم زبان ہے اور اس کے بولنے والے یہودی اور عیسائی بھی ہیں۔ اور یوں بھی زبان کا مذہب سے کوئی تعلق ہوتا یا مذہب کی کوئی زبان ہوتی تو قادرِ موفور پوری دنیا میں ایک ہی الوہی زبان اتارتا۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔ زبان کے ساتھ مذہب کا کوئی جڑاؤ نہیں ہے۔ ڈاکٹر تارا چند نے بہت صحیح بات لکھی ہے:

’یورپ اور امریکہ میں کروڑوں عیسائی ہیں۔ ان میں سے سوائے اِنے گِنے لوگوں کے کسی عیسائی دھرم کی اصلی بھاشا کا گیان نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ مسیح عبرانی بولتے تھے۔ اس میں انجیل کی پرانی نئی کتابیں ہیں مگر انگلستان، فرانس اور جرمنی اتیاد دیشوں کے عیسائیوں کو کبھی یہ گھبراہٹ نہیں ہوئی کہ بائبل کے عبرانی میں نہ ہونے کے کارن ان کے دھرم میں کوئی دُربلتا آئی ہو۔ چین میں کروڑوں بودھ اور مسلمان ہیں۔ نہ بودھ پالی جانتے ہیں جو اُن کے دھرم کی پستکوں کی بھاشا ہے۔ نہ مسلمان عربی، لیکن دونوں اپنے اپنے مذہب میں پکّے ہیں۔ ‘ اردورسم الخط سامی الاصل ضرور ہے مگر بقول نارنگ ’’ یہ کلیتاً عربی فارسی رسم الخط کی نقل نہیں ہے۔ اردو کا اپنا آزاد رسم الخط ہے اور جیسا کہ نارنگ صاحب فرماتے ہیں کہ علامہ کیفی کی اصطلاح میں صدیوں کے استعمال سے ا س کی تارید اور تہنید ہوچکی ہے۔ نارنگ صاحب نے مثالوں کے ذریعہ اس کی وضاحت کی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ اردو رسم الخط میں بہت سی علامتوں اور آوازوں کا اضافہ ہوا ہے۔جسے عربی فارسی والے من وعن قبول نہیں کرسکتے۔‘‘ گوپی چند نارنگ مزید لکھتے ہیں کہ ’اردو رسم الخط میں ایک تہائی سے بھی زیادہ حروف کا اضافہ اردو کی ہند آریائی ضرورتوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ اردو بولتے لکھتے ہوئے ان آوازوں سے ہم بچ نہیں سکتے……… اس میںایسی ایسی آوازوں اور علامتوں کا اضافہ بھی ہوچکا ہے جو نہ عربی میں ہیں اور نہ فارسی میں۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو کا ایک صفحہ تو کیا ایک پیراگراف بھی ان آوازوں کے بغیر بھی نہیں لکھا جاسکتا۔ مثال کے طور پر کسی اردو اخبار یا کتاب کا ایک صفحہ بھی اگر کسی ایرانی یا عرب کے سامنے رکھا جائے تو اسے صحیح نہیں پڑھ سکے گا۔‘

رسم الخط کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے خود ہندوستان میں بہت سی زبانوں کا خاندان ایک ہے مگر رسم الخط مختلف ہے۔ اوڑیا، بنگالی اور آسامی تینوں کا ماگدھی اور پراکرت سے تعلق ہے مگر تینوں کا رسم الخط مختلف ہے۔ ہند آریائی زبانوں سے تعلق رکھنے والی زبانیں الگ الگ رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں جو لوگ اردو بھاشا کی لیپی بدلنے کی بات کرتے ہیں انھیں صرف اردو پر نہیں بلکہ ہندوستان کی تمام زبانوں کی ایک لیپی ہونے کی بات کرنی چاہیے تاکہ رسم الخط کی سطح پر ہندوستان میں وحدت اور یکسانیت پیدا کی جاسکے۔

شمیم طارق نے اردو اور ہندی تنازعہ کے تعلق سے جو مضامین تحریر کیے ہیں اُن پر سنجیدگی سے نہ صرف غور کرنے بلکہ اس میں مزید توسیع اور اضافہ کی ضرورت ہے تاکہ اردو اور ہندی کے تعلق سے جو ایک پرسیپشنل ڈسٹینس پیدا کیا جا رہا ہے اسے دور کیا جاسکے۔

اردو زبان کا المیہ ہے کہ اسے مسلم تشخص (Identity) سے جوڑ دیا گیا اور لوگوں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا بقول جاوید اخترکہ:’ زبان کا تعلق ریلجن نہیں بلکہ ریجن سے ہوتا ہے۔‘ مقام شکر ہے کہ تمام تر سیاسی تعصبات اور فرقہ وارانہ تحفظات کے باوجود بہت سارے روشن خیال افراد ہیں جنہوں نے اردو کی وکالت اور حمایت کی۔ حکم چندنیر بھی اپنی ایک کتاب میں اردو پر غیرملکی ہونے کا الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں: اردو ایک خالص ملکی اور ہندوستانی زبان ہے۔ اس کی بنیاد خالص ہند آریائی عناصر پر ہے۔ صرفی اور نحوی اعتبار سے اردو بھی برج، ہریانی، اودھی، گجراتی، مراٹھی، بنگالی، پنجابی اور سندھی زبانوں کی مانند ایک خالص ملکی اور ہندوستانی زبان ہے۔ اگر کسی وجہ سے اردو کو غیر ملکی زبان کہا جا سکتا ہے تو پھر ہندوستان کی کسی بھی نئی اور پرانی زبان کو دیسی اور ملکی نہیں کہا جا سکتا ہے۔‘‘ یہی سوال اپنی ایک نظم میں راشد بنارسی نے اٹھایا تھا، جس کو بنیاد بنا کر انگریزی کی مشہور فکشن نگار انیتا ڈیسائی نے In Custody کے عنوان سے ایک انگریزی ناول لکھا ہے جو اردو کے حوالے سے پہلا انگریزی ناول ہے۔ انھوں نے کرداروں کے توسط سے تقسیم ہند کے بعد اردو زبان کی موت پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ راشد بنارسی کی نظم یوں ہے:

بہت سمجھے تھے ہم اس دور کی فرقہ پرستی کو

زباں بھی آج شیخ وبرہمن ہے ہم نہیں سمجھے

اگر اردو پر بھی الزام ہے باہر سے آنے کا

تو پھر ہندوستان کس کا وطن ہے ہم نہیں سمجھے

چمن کا حسن تو ہر رنگ کے پھولوں سے ہے راشد

کوئی بھی پھول کیوں ننگ چمن ہے ہم نہیں سمجھے

مجھے پنڈت گنگا ناتھ جھا کی یہ بات اس تعلق سے بڑی اچھی لگی کہ ’’روحانی نقطۂ نظر سے ہندی اور اردو ہی نہیں بلکہ ملک کی تمام زبانیں ایک ہیں اور رہیں گی۔ ‘‘

مگر اب حالات کا جبر دیکھیے اورسیاست کی ستم ظریفی کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ تنازعہ اردو ہندی ہی کو لے کرہے جب کہ یہ دونوں ہی ہندآریائی زبانیں ہیں۔ ہندی کی کوئی لڑائی تمل، ملیالم، کنڑ جیسی دراوڑی زبانوں سے نہیں ہے اور نہ ہی انگریزی زبان سے ہے۔ ساری لڑائی صرف اس زبان سے ہے جس سے اس کی سب سے زیادہ قربت ہے۔ گوپی چند نارنگ نے بڑی اچھی بات لکھی ہے کہ:

’اس بات کو اچھی طرح خاطر نشاں کرنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کی تمام ہند آریائی زبانوں میں اردو زبان ہندی سے سب سے زیادہ قریب ہے۔ اور ان دونوں میں اٹوٹ رشتہ ہے۔دونوں زبانوںکا جد امجد انڈک ہے۔‘

شمیم طارق نے لسانی مطالعات کے ضمن میں جو مضامین تحریر کئے ہیں واقعی وہ قابل قدر ہیں۔ انہوں نے منطقی دلائل کے ساتھ اپنے معروضات پیش کیے ہیں۔ آج کے دور میں اس نوع کے مضامین کی زیادہ ضرورت ہے۔ کیوں کہ جب تک زبان کا وجود قائم نہیں رہے گا تب تک اس کے ادب عالیہ کے حوالے سے گفتگو عبث قرار پائے گی۔ شمیم طارق نے اردو زبان سے جڑے ہوئے اور بھی دیگر مسائل پر مضامین تحریر کئے ہیں۔ ان تمام تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ عصر حاضر کے لسانی، تہذیبی اور ثقافتی مسائل کا انھیں انہیں گہرا ادراک و عرفان ہے۔ شمیم طارق نے اپنے بیشتر مضامین میں قلندری کی ترنگ میں بہت کچھ وہ کہہ دیا ہے جسے کہنے کے لیے جگر اور حوصلہ چاہیے۔ ٹریجڈی یہ ہے کہ ہماری زبان اور ادب میں ایسے جنوں صفات لوگ بہت کم ہیں جو سرِدار سچ بولنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ ایسے میں شمیم طارق جیسے جری اور بے باک ادیب، صحافت کے کوکبِ دُرِّی اور تنقید کے مہہ درخشاں کا وجودغنیمت ہے۔

You may also like