حصارِ گل میں نہایت اداس دیکھا گیا
دنوں کے بعد وہ انجم شناس دیکھا گیا
جو عکس ِ تازہ کے بارے کہوں تو بات ہے یوں
وہ میرے ساتھ نہ تھا ۔۔گرچہ پاس دیکھا گیا
دمک رہا تھا تمنا کی سست لو میں کہیں
دل اک دیا۔۔۔جو ستاروں میں خاص دیکھا گیا
وہ میرِ خلعتِ صد رنگ و مردِ خوش پوشاک
بھرم کھلا تو بہت بے لباس دیکھا گیا
جو تو نے ان پہ گزارا وہ سانحہ تھا یا کیا
کہ روئے خلق پہ خوف و ہراس دیکھا گیا
اک آبِ حسن ۔۔پرانی شراب جیسا تھا
سو دستِ ذوق میں بھر بھر گلاس دیکھا گیا