عارفہ مسعود عنبر
دل کی گہرائیوں نے مار دیا
مجھ کو تنہائیوں نے مار دیا
زر زمیں کا عجیب چکر ہے
اپنے ہی بھائیوں نے مار دیا
ہم کو سورج بھی راس آ نہ سکا
اپنی بینائیوں نے مار دیا
اک مسیحا سے ہم ملے تھے کبھی
ہم کو رسوائیوں نے مار دیا
دل کی محفل میں اس کا جلوہ تھا
اس کی رعنائیوں نے مار دیا
میں تھی ذی حوصلہ مجھے پھر بھی
خود کی پرچھائیوں نے مار دیا
یہ حقیقت عیاں ہوئی عنبر
ہم کو اچھائیوں نے مار دیا
1 comment
ماشاءاللہ بہت خوب