ترجمہ:نایاب حسن
ایک اور دن اور پورے کرناٹک میں سیکڑوں مسلم لڑکیوں اور خواتین کو ڈرانے دھمکانے کا ایک اور منظر ،جن پر اسکول اور کالج کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، انھیں دھمکیاں دی جاتی ہیں، انھیں الگ تھلگ کردیا جاتا ہے،حتی کہ ان کے کلاس رومز بھی علیحدہ کردیے جاتے ہیں۔ انھیں کمرۂ عدالت میں بھی ایک پر خطر راہ کا سامنا ہے، کرناٹک ہائی کورٹ نے کلاس رومز میں تمام مذہبی لباسوں پر عبوری روک لگا دی ہے۔ عدالت نے شہریوں کے ایک گروپ کے بنیادی حق کو مؤثر طریقے سے معطل کر دیا ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ جب تک کیس حل نہیں ہو جاتا، لڑکیوں کو گھر میں بیٹھنے یا بغیر حجاب (جسے وہ ایمان و شایستگی کا حصہ سمجھتی ہیں)اسکول آنے میں سے ایک آپشن کا انتخاب کرنا چاہیے ۔
کیا یہ مذہبی آزادی کا مسئلہ ہے یا حجاب کا؟ "یکسانیت” کا یا یونیفارم کا؟ یا یہ اس حقیقت کو درشاتا ہے کہ کرناٹک کا ساحلی علاقہ بہت زیادہ پولرائزڈ خطہ ہے، جہاں بجرنگ دل اور وی ایچ پی جیسی تنظیموں نے ہندوتوا کی اکثریت پرستی کے بیج بوتے ہوئے مختلف سماجی طبقات کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑا دیا ہے؟ دائیں بازو کی فکر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ حجاب یونیفارم اور نتیجتاً یکسانیت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ کرناٹک حکومت کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ طلبا و طالبات ایسے کپڑے نہیں پہن سکتے، جو عوامی قانون، نظم و نسق اور سالمیت کی خلاف ورزی کرتے ہوں۔ کیا تلک، سکھوں کی پگڑی یا حجاب پبلک آرڈر کی خلاف ورزی کرتا ہے؟ جیسا کہ کنڈا پورہ کی ایک لڑکی نے دریافت کیا ہے کہ: کیا میرا حجاب شور مچاتا ہے؟
کرناٹک ہائی کورٹ کیس میں کنڈا پورہ کالج کی طالبات کے وکیل نے نشان دہی کی ہے کہ مذہبی علامتیں ہمیشہ سے ہندوستانی عوامی زندگی کا حصہ رہی ہیں، جو کہ عوامی زندگی سے مذہب کی نفی کرنے کے یورپی ماڈل کے بجائے مثبت سیکولرازم کے ہندوستانی ماڈل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ بنیادی طور پر آرٹیکل 14، 21، 25 اور آئین میں درج تعلیم کے حق کے وعدے کی بنیاد پرمسلم لڑکیوں کو اسکول میں داخل ہونے سے محض اس لیے روکنا کہ وہ سر پر اسکارف پہنتی ہیں، صریح طور پر غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ متعدد فیصلوں میں تعلیمی اداروں میں مذہبی شناخت والا لباس پہننے کے حق کا دفاع کیا گیا ہے اور اسلام میں حجاب کی اہمیت کو عدالتوں میں ثابت اور تسلیم کیا گیا ہے۔
دو مہینوں کے اندر امتحانات ہونے ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ "عوامی نظم و نسق” کو برقرار رکھنے اور "پولرائزیشن” کو ختم کرنے کا سارا بوجھ مسلم لڑکیوں پر آ گیا ہے۔ ریاست امن عامہ کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے، لفنگے نوجوانوں کو ان لڑکیوں کے ساتھ بدتمیزی کرنے، انھیں ہراساں کرنے اور جب وہ اپنے اسکولوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہیں، تو انھیں جسمانی طور پر روکنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس معاملے کو "تنازعہ” یا مسابقتی احتجاج کے سلسلے کے طور پر پیش کیا گیا ہے؛ لیکن مسلم لڑکیاں تو برسوں سے حجاب لگاکر سکول ، کالج جاتی رہی ہیں۔ انھوں نے زعفرانی اسکارف پہننے والے اپنے ہم جماعتوں یا پارلیمنٹ میں مذہبی لباس پہننے والے بی جے پی لیڈروں کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا ہے۔ وہ صرف اپنے کلاس رومز میں داخل ہونا چاہتی ہیں۔
ریاست کے کچھ مبصرین اور بی جے پی کے ممبران اسمبلی نے یہ بحث شروع کر دی ہے کہ یہ لڑکیاں کچھ تنظیموں کے "پیادوں” کا کام کر رہی ہیں۔ یہ ایک پرانی دلیل ہے۔ مسلم خواتین کوخاص طور پر اپنے لیے کوئی موقف اختیار کرنے یا قدم اٹھانے کے قابل نہیں سمجھا جاتا – چاہے یہ شاہین باغ کے احتجاج کے معاملے میں ہو، جہاں بغیر کسی ثبوت کے یہ الزام لگایا گیا تھا کہ خواتین کو وہاں بیٹھنے کے لیے فی کس 500 روپے دیے جا رہے ہیں یا کیرالہ میں ہومیوپیتھی ڈاکٹر ہادیہ کا کیس ،جس نے اسلام قبول کیا ،تو اسے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ مسلم خواتین کوان مسلمان مردوں سے بچانے کی خواہش ، جنھیں جبر پسند اور متشدد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ہندوتوا گفتگو میں غالب رہتی ہے۔ ایسے میں وہ مسلم خواتین جو اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں داخل ہوتیں اور اپنے لیے آواز اٹھاتی ہیں، ان کے لیے دُہرا خطرہ ہے،وہ ایسے "بچاؤ” کو بھی قبول نہیں کر سکتیں اور ان کے لیے خاموش رہنا بھی مشکل ہے۔
شاید یہ معاملہ حجاب یا عوامی نظم و نسق کا نہیں ہے؛بلکہ یہ عوامی حلقوں میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حوالے سے بڑھتی ہوئی بے چینی کا معاملہ ہے، جو تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں داخلے کے لیے اپنے طریقے سے لڑ رہے ہیں۔
1960 میں ایک چھ سالہ سیاہ فام لڑکی روبی برجز امریکہ کے نیو اورلینز کے ایک سفید فام اسکول میں داخل ہونے والی اپنی کمیونٹی کی پہلی لڑکی بنی۔ اس سے قبل اسے اپنے دفاع کے لیے فیلڈ مارشلز کی ضرورت پڑی تھی۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ حجاب میں ملبوس مسلم خواتین کے سکولوں اور کالجوں میں داخل ہوتے ہی ان پر حملہ کیا جائے اور ان کی تذلیل کی جائے،صرف اس لیے کہ وہ اپنے مذہب کی پیروی کرتی ہیں اور یہ حق ملک کے آئین میں درج ہے؟
(مضمون نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں لا اینڈ گورننس کی ریسرچر ہیں،اصل مضمون آج انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ہوا ہے)