Home قومی خبریں ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ”توبتہ النصوح“ پر بازگشت کا پروگرام

ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ”توبتہ النصوح“ پر بازگشت کا پروگرام

by قندیل

حیدرآباد:نذیر احمد نے ”مراۃ العروس“ اپنی بچیوں کی تربیت کے لیے لکھا تھاجو بعد میں ناول قرار دیا گیا۔”بنات النعش“اس کا دوسرا حصہ ہے۔ ”توبتہ النصوح“فنی اعتبار سے اردو کا پہلا مکمل ناول ہے جو ڈپٹی نذیر احمد کی شعوری کوشش کانتیجہ ہے۔کلیم اردو ناولوں کا پہلا جاندار کردارہے۔ اسے ”فسانہ آزاد“کے خوجی پر فوقیت حاصل ہے کیوں کہ”توبتہ النصوح“ ”فسانہ آزاد“ سے قبل لکھا گیا۔کلیم فرشتہ صفت انسانوں کے درمیان تنہا انسان نظر آتا ہے۔“ ان خیالات کا اظہاربازگشت آن لائن ادبی فورم کے سرپرست اور معروف افسانہ نگار پروفیسر بیگ احساس نے ”بازگشت“ کی جانب سے ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ”توبتہ النصوح“ کے منتخب حصوں کی پیش کش اور گفتگو پر مبنی گوگل میٹ پر منعقدہ پروگرام میں کیا۔انھوں نے کہا کہ مرزا ظاہردار بیگ کا کردار انیسویں صدی کے معاشرے کی علامت ہے۔
ممتاز فکشن نقاد اور دانشور پروفیسر انور پاشا، استاد ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جواہر لال نہرو یو نی ورسٹی، نئی دہلی نے بہ حیثیت مہمان خصوصی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ1857کے بعد ادب اور ادیب کا منصب بدل گیا۔ ادیب سماج کا مصلح اور رہبر بن کر سامنے آیا۔ نذیر احمد اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ وہ ادب کی سمت متعین کرنے والوں میں شامل ہیں۔ہم داستانوں کی دنیا میں الجھے ہوئے تھے۔نذیر احمد نے ہمیں حقیقت نگاری کی دنیا میں پہنچا دیا۔انھوں نے ہمار ے معاشرے کے جیتے جاگتے انسانوں کی تصویریں اپنے ناولوں میں پیش کیں۔انھوں نے ٹکسالی زبان میں ادبی چاشنی اور لطافت کو شامل کردیا اور زبان کو تخلیقیت کی ایک نئی جہت سے روشناس کرایا۔ اپنے ناولوں میں وہ منظر نگاری کا بھی خوب صورت استعمال کرتے ہیں۔پروفیسر انور پاشا نے ظاہر دار بیگ کو ”توبتہ النصوح“ کا سب سے توانا کردار قرار دیا۔پروفیسر صدیقی محمد محمود رجسٹرار، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی نے کہا کہ اس ناول کا موضوع تربیت اولاد ہے۔داکٹر سید محمود کاظمی استاد شعبہ ترجمہ، مانو نے سوال کیا کہ کیا نذیر احمد کے ناول تمثیل کہلائے جا سکتے ہیں۔پروفیسر حبیب نثار استاد شعبہ اردو،حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے کہا کہ نذیر احمد کے ناول تمثیل نہیں ہیں بلکہ ان کے کردار اسم بامسمیٰ ہیں۔
جناب نئیر اعظم، شعبہ اردو،ایس ڈی سگنوڈیا ڈگری اینڈ پی جی کالج، حیدرآباد نے دلکش انداز میں ناول سے منتخب اقتباسات پیش کیے۔ابتدا میں پروگرام کے کنوینر ڈاکٹرفیروز عالم،استاد شعبہ اردو، مانو نے نذیر احمد کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ نذیر احمدہمارے ان اکابرین میں سے ہیں جنھوں نے 1857کے بعد قوم کو مایوسی کے اندھیرے سے نکالنے، ان کی سماجی و معاشرتی اصلاح اور تعلیمی ترقی کی تدابیر کیں۔وہ1833میں بجنور میں پیدا ہوئے۔ بچپن مالی مشکلات میں گزرا۔ دہلی کے ایک مدرسے میں تعلیم حاصل کی بعد ازاں دہلی کالج میں داخلہ مل گیا جو ان کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ وہ اپنی محنت، لگن اور صلاحیت کی بہ دولت اعلیٰ منصبوں تک پہنچے۔1912میں ان کا انتقال ہوا۔”مراۃ العروس“، ”بنات النعش“،”ایامیٰ“، ”فسانہ مبتلا“اور ”ابن الوقت“ وغیرہ ان کے دیگرناول ہیں۔ انھوں نے انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ ”تعزیرات ہند“ کے نام سے کیا۔
انتظامیہ کمیٹی کی رکن ڈاکٹر گل رعنا استاد شعبہ اردو، تلنگانہ یونی ورسٹی، نظام آباد نے پروگرام کی بہترین نظامت کی،مہمانوں کا تعارف پیش کیا اور پروگرام کے آخر میں اظہارِ تشکر کیا۔اس اجلاس میں ملک و بیرونِ ملک کے شائقین ادب، اساتذہ اور طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان میں پروفیسر محمد نسیم الدین فریس صدر شعبہ اردو، مانو، اشتیاق احمد، جے این یو، ڈاکٹر عطیہ رئیس(دہلی) جناب ملکیت سنگھ مچھانا (بٹھنڈہ، پنجاب)ڈاکٹر مشرف علی بنارس ہندو یونی ورسٹی، ڈاکٹر ہادی سرمدی (داؤد نگر، بہار)ڈاکٹرغلام شبیر رانا،جناب غوث ارسلان، محترمہ فرح تزئین (سعودی عرب)ڈاکٹر عبدالحق (امریکہ) ڈاکٹر تلمیذ فاطمہ نقوی (بھوپال)ڈاکٹر جاوید رحمانی (سلچر، آسام)ڈاکٹر عمیر منظر، ڈاکٹر عشرت ناہید(لکھنئو) مہ جبیں شیخ، محترمہ عظمیٰ تسنیم،محترمہ عظمت انور دلال (پونے)جناب اسلم فرشوری،ڈاکٹر کفیل احمد، ڈاکٹر کہکشاں لطیف، ڈاکٹر ابو شہیم خاں، محترمہ صائمہ بیگ، محترمہ افشاں جبیں فرشوری،ڈاکٹر حمیرہ سعید، ڈاکٹر سیدہ روبینہ، محترمہ امتیاز فاطمہ، محترمہ عطیہ رئیس، جناب قدیر پرویز، ڈاکٹرحنا کوثر، محترمہ حمیدہ بیگم (حیدرآباد) ڈاکٹر کوثر پروین، جناب اقبال احمد(گلبرگہ) وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

You may also like

Leave a Comment