اترپردیش کے مردم ساز شہر دیوبند کا نام آتے ہی دارالعلوم دیوبند کے گراں قدر کارناموں کا درخشاں باب وا ہو جاتا ہے ۔ جس میں قرآن و حدیث، فقہ و تفسیر کی تعلیم و ترویج، اشاعت و احیاء کے ساتھ فلسفہ و منطق، تاریخ، زبان و ادب اور صحافت کے فروغ و استحکام کی مضبوط تحریک دکھائی دیتی ہے ۔ جس کا زریں سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ اس میں شعر و شاعری، انشا پردازی، نثر نگاری، تحقیق و تنقيد، تبصرہ، ترجمہ و تعریب اور اخبار و رسائل کی اشاعت شامل ہے ۔ گو کہ دارالعلوم کے بنیادی مقاصد میں علوم دینیہ کے علاوہ اور کچھ بھی شامل نہیں لیکن پھر بھی اردو زبان و ادب، صحافت اور دینی صحافت کی تاریخ دارالعلوم اور افراد دارالعلوم کے بغیر نامکمل ہے ۔ یہی وہ پہلو ہے جس نے دیوبند کی صحافتی خدمات کا جائزہ لینے کی طرف متوجہ کیا ۔
دیوبند سے شائع ہونے والا پہلا پرچہ ماہنامہ "القاسم” تھا، جو مولانا قاسم نانوتوی کی یاد میں دارالعلوم سے نکالا گیا تھا ۔ القاسم کا پہلا شماره نمونہ کے طور پر اپریل 1910 کو مولانا حبیب الرحمن عثمانی کی ادارات میں شائع ہوا، لیکن اس کی باقاعدہ اشاعت اگست 1910 سے ہو سکی ۔ نائب مدیر مولانا سید اصغرحسین، جب کہ سرپرست حضرت حکیم الامت اور حضرت شیخ الہند تھے ۔ بعد میں مولانا مفتی احمد حسن امروہوی، مولانا خلیل احمد انبیہٹوی اور مولانا حافظ احمد نے بھی اس کی سرپرستی فرمائی، اجراے رسالہ کے تین سال بعد نائب مدیر مولانا سراج احمد رشیدی بنائے گئے ۔ مولانا اصغر حسین اپنے تدریسی مشاغل کی بنا پر سبک دوش ہو گئے تھے ۔ درمیان میں دوسال 16-1917 مولانا مناظر احسن گیلانی بھی "القاسم” کے معاون مدیر رہے ۔ "القاسم”کے ٹائٹل پر علمی، مذہبی، اخلاقی، ادبی، تمدنی، تاریخی ماہوار رسالہ لکھا ہوتا تھا ۔
القاسم کے مقاصد اجراء کی وضاحت کرتے ہوئے مدیر محترم مولانا حبیب الرحمن عثمانی نے لکھا؛
"اس رسالہ کا اصل مقصد مسلمانوں کے لئے مذہبی، علمی اور تاریخی معلومات کا صحیح، محققانہ ذخیرہ بہم پہنچانا اور نرم و متانت کے لہجے میں غلط خیالات کو مٹانا ہے”۔ (شماره 1 ص 51)
القاسم خالص علمی نوعیت کا رسالہ تھا ۔ مسلمانوں میں معدود چند ہی اس سے استفادہ کرسکتے تھے ۔ متوسط اور کم اہلیت رکھنے والوں کے لئے مولانا رشید احمد گنگوہی کی نسبت سے مئی 1914 میں دارالعلوم نے ماہنامہ”الرشید” مولانا حبیب الرحمن عثمانی صاحب کی ہی ادارت میں جاری کیا ۔ اس کا نائب مدیر مولانا سراج احمد رشیدی کو بنایا گیا ۔ دو سال16-1917 مولانا مناظر احسن گیلانی بھی معاون مدیر رہے ۔ القاسم کے شماره 9 ج 4 ص 3 – 4 پر الرشید کے اجراء کا اعلان کرتے ہوئے مدیر اعلیٰ نے اس کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا؛
"القاسم” کے تمام مقاصد و مضامین "الرشید” میں ملحوظ رہیں گے ۔ البتہ زبان نسبتاً عام فہم اور سلیس ہوگی، افادہ عام کے لئے مسائل فقہیہ کار آمد روزمرہ و فتاواے ضرویہ شائع ہوں گے ۔
طریقت و تہذیب اخلاق کا سلسلہ خصوصیت کے ساتھ جاری رہے گا، حالات بزرگان دین شائع کیے جائیں گے ۔
مسائل مختلفہ کی تحقیق منصفانہ ہوگی، اسلام پر حملہ کرنے والوں اور اس کو ضعف پہنچانے والوں کو تہذیب و متانت سے جواب دیے جائیں گے”۔
مدیر اور نائب مدیر رسائل کی ترتیب، اس کی طباعت، ترسیل واشاعت کے ساتھ اہتمام اور تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے تھے ۔ اس کا باضابطہ عملہ نہیں تھا اس لئے رسائل کی اشاعت میں ایک ایک ماہ کی تاخیر ہو جاتی تھی ۔ بالآخر القاسم گیارہ اور الرشید کی قریب چھ سال بعد اشاعت تھم گئی ۔ مارچ 1920 کا شماره آخری ثابت ہوا ۔ چار سال بعد 1925 میں القاسم کی تو نشاة ثانیہ ہوئی لیکن الرشید مرحوم ہوگیا ۔ دور ثانی میں بھی القاسم کے مدیر مولانا حبیب الرحمن عثمانی صاحب ہی رہے ۔ نائب مدیر مولانا عتیق احمد صدیقی اور معاون مدیر کی ذمہ داری قاری محمد طاہر صاحب کے سپرد کی گئی ۔ دور ثانی کی مدت بھی چار سال ہی رہی 1928 میں "القاسم” ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ۔
مہتمم دارالعلوم مولانا قاری محمد طیب صاحب کی نگرانی اور مولانا عبدالوحید صدیقی غازی پوری کی زیر ادارت مئی جون 1941 میں ماہنامہ "دارالعلوم” منظر عام پر آیا ۔ مدیر محترم نے رسالہ کے مقاصد بیان کرتے ہوئے لکھا؛
"رسالہ دارالعلوم چوں کہ ہر طبقہ تک علم اور دین کی صحیح روشنی پہنچانا چاہتا ہے ۔ اس لئے وہ اس مصطلحہ علمی معیار کی پابندی اپنے لئے غیر مفید اور غیر ضروری خیال کرتا ہے ۔ "دارالعلوم” اگر ایک طرف اہل علم کے بلند علمی ذوق کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا تو دوسری طرف عام مسلمانوں کی علمی صلاحیت کی بھی رعایت رکھے گا اور علمی مسائل کو سہل سے سہل انداز میں پیش کرنے کی سعی کرے گا ۔۔۔۔ ہم رسالہ "دارالعلوم” کے معیاری ہونے کی سند حاصل کرنے سے زیادہ اس کے افادہ کو عام کرنا ضروری سمجھتے ہیں، یہی اس کے اجراء کی اصل غرض و غایت ہے”۔ (دارالعلوم دیوبند کا صحافتی منظر نامہ ص 115)
دیوبند سے مولانا امین الرحمٰن عرف عامر عثمانی کی ادارت میں نکلنے والا ماہنامہ "تجلی” اپنی نوعیت کا منفرد رسالہ تھا ۔ اس نے اردو میں ادبی و مذہبی اقدار کو آگے بڑھایا ۔ ” تجلی” کا اجراء 1949 میں دیوبند سے ہوا تھا ۔ اس نے چوتھائی صدی تک اہل ذوق سے خراج تحسین وصول کیا ۔ یہ علمی حلقوں میں بہت مقبول تھا ۔ اس کے مستقل کالم رسالہ کی جان اور قارئین کی دلچسپی کا باعث تھے ۔ ” تجلی کی ڈاک” کالم کے تحت قارئین کے سوالات کے جواب دیئے جاتے تھے ۔ "کھرے کھوٹے” کالم میں کتابوں پر تبصرے ہوتے تھے ۔ تجلی کے تبصروں کو علمی حلقوں میں بڑی پزیرائی حاصل تھی ۔ شاعری اور ادبی تحریروں پر تجلی کی تنقید کو سند کا درجہ حاصل تھا ۔ کیوں کہ عامر عثمانی انتہائی بے باک، امانت و دیانت اور غیر جانبداری کے ساتھ تبصرہ کرتے تھے ۔ اس کا کالم "مسجد سے میخانے تک ” بہت مقبول تھا ۔ مولانا اس کالم کو ملا ابن العربی مکی کے فرضی نام سے لکھتے تھے ۔ اس میں توہم پرستی، غلط رسم و رواج، بدعت اور خرافات پر انتہائی پرلطف، دلکش و دلفریب انداز میں غضب کا طنز ہوتا تھا ۔ جس میں زبان کی سلاست، بلاغت اور فصاحت کے جوہر نظر آتے ہیں ۔ نومبر 1949 سے مئی 1975 تک مولانا عامر عثمانی نے اور بعد میں مولانا کے داماد مولانا حسن احمد صدیقی نے 1980 تک تجلی کی ادارت کی ۔ تجلی کے بند ہونے کے بعد مولانا حسن الہاشمی کے نام سے ماہنامہ طلسماتی دنیا نکالا جو ان کے انتقال 4 نومبر 2020 تک جاری رہا ۔ تجلی کے خصوصی شماروں میں ایمان نمبر، خلافت نمبر، خلافت و ملوکیت نمبر، طلاق نمبر، مسلم پرسنل لا نمبر، تنقید نمبر، حاصل مطالعہ نمبر خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
اردو زبان وادب اور صحافت کا دیوبند کے حوالے سے جب بھی ذکر کیا جائے گا اس جداری (دیواری) پرچوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ کیوں کہ انہیں پرچوں نے اردو زبان وادب اور صحافت کو بے شمار درخشان ستارے مہیا کئے ہیں ۔ ان میں مولانا سید ممتاز علی دیوبندی، سید فضل الرحمن قاسمی، مولانا عامر عثمانی، سعید احمد اکبر آبادی، مولانا منظور نعمانی، اخلاق حسین قاسمی، مفتی ظفیر الدین مفتاحی، سید انظرشاہ کشمیری وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ ہندی روزنامہ بھاسکر کی رپورٹ کے مطابق مولانا وحیدالزماں کیرانوی نے اپنی تقرری کے بعد سے 1960 تک طلبہ کو زبان وادب اور صحافت کی طرف متوجہ کیا ۔ انہوں نے طلبہ کو کسی مسئلہ کی جڑ تک پہنچنے کے لئے تحقیق کرنا اور لکھنا سکھایا ۔ دیواری پرچہ کا آغاز 1926 میں مولانا حامد الانصاری غازی نے کیا ۔ انہوں نے پہلا پرچہ گل باغ کے نام سے نکالا تھا ۔ جس کا بعد میں نام بدل کر بہار باغ کر دیا تھا ۔ یہ پرچے ہفتہ روزہ تھے ۔ انہوں نے شیخ الہند کی یاد گار کے طور پر ہفتہ روزہ رسالہ المحمود جاری کیا ۔ 1927 میں فراغت کے بعد ہفتہ وار رسالہ مہاجر نکالا جو کئی رنگوں میں چھپتا تھا ۔ دیواری پرچے مولسری سے لے کر صدر دروازہ تک آج بھی چپکائے جاتے ہیں ۔ یہ رنگارنگ اخبار طلبہ خود تیار کرکے انتہائی خوبصورت فریموں میں لگاتے ہیں ۔ ان اخباروں میں قومی سطح کے اہم مسائل سے لے کر سلگتے ہوئے مسائل تک کو شامل کیا جاتا ہے ۔ خبروں کے علاوہ مضامین، تبصرے، غزل، نظم اور ادبی سہ پارے قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔
فارغین دیوبند آج بھی زبان وادب، صحافت اور سوشل میڈیا میں گراں قدر خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ مولانا حامد الانصاری غازی مشہور زمانہ اخبارات الجمعیت، مدینہ بجنور اور روزنامہ جمہوریت کے مدیر رہے ۔ مولانا منظور نعمانی نے الفرقان جاری کیا، مولانا اعجاز احمد قاسمی دیوبند ٹائمز کے مدیر رہے ۔ مولانا مطہرالدین شیرکوٹی مدینہ بجنور سے وابستہ ہوئے بعد میں مولانا آزاد نے انہیں البلاغ کے حلقہ ادارت میں شامل کیا ۔ مولانا جمیل مہدی نے سیماب اکبر آبادی کے شہرہُ آفاق ادبی رسالہ شاعر میں ادبی و صحافتی خدمات انجام دیں ۔ روزنامہ خلافت اور ہندوستان کو بھی ان کے قلم کا فیض حاصل تھا ۔فارغین دیوبند نے ہر دور میں زبان وادب اور صحافت میں اپنا لوہا منوایا ہے ۔ آج بھی صحافت سے وابستہ افراد کی ایک طویل فہرست مرتب کی جا سکتی ہے ۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں نمایاں کام کرنے والوں میں حقانی القاسمی، ڈاکٹر منور حسن کمال، عبدالقادر شمس مرحوم، عابد انور، منظر امام قاسمی، شمس تبریز قاسمی، عبدالوحد رحمانی، وارث مظہری، برہان الدین قاسمی، ابرار احمد اجراروی، فاروق اعظم قاسمی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ اردو صحافت کی دو سو سالہ تاریخ دیوبند اور رفقائے دیوبند کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ۔
دیوبند کی صحافت ایک اجمالی خاکہ – ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
previous post