Home تجزیہ دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ کا سہارا لیکر گودی میڈیا کا جھوٹا پروپیگنڈا-ڈاکٹر ظفر الاسلام خان

دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ کا سہارا لیکر گودی میڈیا کا جھوٹا پروپیگنڈا-ڈاکٹر ظفر الاسلام خان

by قندیل

پچھلے چند دنوں سے گودی میڈیا کے چینلوں اور ویب سائٹس پر ایک جھوٹا پروپیگنڈا چل رہا ہے کہ دہلی اقلیتی کمیشن اور دہلی وقف بورڈ مندروں کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ پروپیگنڈا، درحقیقت وقف کے بارے میں ہونے والے حالیہ چرچے کو غلط راستے پر موڑنے اور یہ دکھانے کی کوشش ہے کہ وقف بورڈ اپنی ہی نہیں بلکہ مندروں کی زمینیں بھی ہتھیانا چاہتا ہے۔

اس پروپیگنڈے کے لیے دہلی اقلیتی کمیشن کی پانچ سال قبل جاری ہونے والی ایک رپورٹ کو ذریعہ بنایا گیا ہے جسے میں نے اپنے دور صدارت میں تیار کرایا تھا اور جاری کیا تھا۔ مذکورہ رپورٹ کے نام پر یہ جھوٹا دعوی کیا جا رہا ہے کہ اس میں دہلی اقلیتی کمیشن اور دہلی وقف بورڈ نے مندروں کی زمین پر دعویٰ کیا ہے اوران کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دلی اقلیتی کمیشن یا دلی وقف بورڈ نے ایسا کبھی اور کوئی دعوی نہیں کیا کہ وقف کی زمین پر بنائے گئے مندر توڑدیے جائیں یا ان کی زمین وقف بورڈ کو واپس کی جائے۔ ۲۰۱۹ کی دلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ (https://archive.org/details/dmc-r eport-on-illegal-mosques-delhi) اس وقت کے بی۔جے۔پی کے ایم۔پی پرویش ورما کے اس دعوے کی جانچ کے لیے بنائی گئی تھی کہ ان کے پارلیمانی حلقے میں ناجائزمسجدیں بن گئی ہیں، ان کے خلاف ایکشن لیا جائے۔

پچھلے بیس سالوں میں ان کے حلقۂ انتخاب (مغربی دہلی) میں ۵۴؍ غیر قانونی مسجدیں وجود میں آئی ہیں ، لہذا ان کے خلاف کار روائی کی جائے ۔ دوسرے لفظوں میں ان کو گرا دیا جائے۔ جب اس شکایت پر کوئی عمل نہیں ہوا تو ورما نے ایک اور خط لفٹننٹ گورنر کو اگلے ماہ لکھ کر کار روائی کی مانگ کی۔

اس خبرکےشائع ہونے پرمیں نے دہلی اقلیتی کمیشن کی طرف سے ایک ۵؍رکنی کمیٹی مقرر کر دی جس میں دو مسلمان، دو عیسائی اور ایک سکھ ممبر شامل تھے جو سب معاشرے کے معزز لوگ تھے اور قانونی اور حقوق انسانی کے میدان میں متحرک تھے۔ کمیٹی نے ان تمام ۵۴ مساجد کا موقع پر معاینہ کیا اور کاغذات دیکھے اور بالآخر ایک مفصل رپورٹ کمیشن کو دی کہ یہ مساجد کسی طرح غیر قانونی نہیں ہیں بلکہ ان میں بعض آثار قدیمہ میں داخل ہیں۔ اسی کے ساتھ کمیٹی نے ان بہت سے غیر قانونی مندروں کی تفصیل ان کے فوٹو کے ساتھ اپنی رپورٹ میں دی جو انھی قانونی مساجد کے آس پاس پائے جاتے ہیں لیکن وہ پرویش ورما کو نظر نہیں آئے۔

یہ رپورٹ لفٹننٹ گورنر، وزیر اعلی دہلی اور خود پرویش ورما کو بھیج دی گئی اور ایک پریس کانفرنس منعقد کرکے میڈیا کو بھی باخبر کردیا گیا۔ اس کے بعد سے پرویش ورما اس مسئلے پر خاموش ہے لیکن اب پانچ سال بعد اچانک ۱۹ ستمبر ۲۰۲۴ کو زی نیوز کو یہ رپورٹ یا د آگئی لیکن بالکل غلط طریقے سے۔ زی نیوز نے اس رپورٹ کو یوں پیش کیا کہ دہلی وقف بورڈ مندروں کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے! بات صرف اتنی سی تھی کہ مذکورہ رپورٹ میں چند مندروں کے بارے میں یہ لکھا گیا ہے کہ وہ وقف کی زمینوں پر قائم ہیں!

ہماری کمیٹی نے موقع پر ہر مسجد کا معائنہ کر کے یہ پایا کہ کوئی مسجد ”اویدھ“ (نا جائز) نہیں ہے بلکہ سب قانونی ہیں اور بعض تو صدیوں پرانی ہیں۔ اپنے کام کے دوران کمیٹی نے یہ بھی دیکھا کہ انھیں جگہوں اویدھ مندر موجود ہیں اور ان میں سے کچھ وقف کی زمین پر بھی بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھ دی لیکن مندروں کے خلاف نہ کوئی مطالبہ کمیشن نے کیا اور نہ ہی وقف بورڈ نے ۔ اب گودی میڈیا جو پروپیگنڈا چلا رہا ہے وہ پوری طرح سے من گھڑت ہے بلکہ وہ اصل بات کو چھپا رہا ہے۔ یہ سب صرف حالیہ دنوں میں وقف کے بارے میں چرچے کو غلط رخ دینے کی کوشش ہے۔

چند روز قبل زی نیوز کے ایک رپورٹرنے مجھ کو فون کیا کہ وہ اگلے دن اس معاملے پراپنے چینل پر چرچا کرنا چاہتے ہیں جس میں میری شرکت کی درخواست کی گئی۔ میں ان کو بتا دیا کہ سابقہ تلخ تجربوں کی وجہ سے میں ساڑھے چار سال سے گودی میڈیا سے کوئی بات نہیں کرتا۔ اس پر وہ شخص معذرت کر کے چپ ہو گیا۔ اگلے دن ”زی سلام“ سے ایک رپورٹر کا فون آیا کہ مذکورہ مسئلے پر آپ کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے اس کو بھی بتایا کہ میں گودی میڈیا سے بات نہیں کرتا کیوں کہ وہ کاٹ پیٹ کر بات چلاتے ہیں اور اسٹڈیو میں آنے پر بات بھی نہیں کرنے دیتے ہیں۔ اس پر اس نے کہا کہ زی سلام مختلف ہے اور آپ جو کہیں گے وہی چلے گا۔ اس پر میں نے ہامی بھردی۔ اگلے دن شام کو وہ صاحب آئے اور مجھ سے کافی لمبا انٹرویو لیا ۔ اس میں ،میں نے مذکورہ رپورٹ کی حقیقت اور موجودہ رپورٹوں کے جھوٹ کی وضاحت کر دی اور ساتھ ہی کمیشن کی مذکورہ رپورٹ کی ایک کاپی بھی ان کو دے دی۔لیکن اس رات وہ رپورٹ نہیں دکھائی گئی۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ آپ کا انٹرویو کل دکھایا جائے گا۔ کل بھی آیا جب اس چینل نے کچھ لوگوں کو جمع کیا جس میں تین بھگوا دھاری شامل تھے۔ ایک ایڈوکیٹ صاحب نے، جو ہماری مذکورہ کمیٹی کے ممبر تھے، بات واضح کرنے کی کوشش کی لیکن اینکر نے ان کو پوری بات نہیں کہنے دیا جبکہ دوسروں کو وقت دیتا رہا جس میں ایک بھگوا دھاری سادھو نما شخص بھی تھا جس نے شو کے دوران اعلان کیا کہ ایک مندر لوگے تو ہم تمہاری دس مسجدیں لیں گے! اس کے بعد ایک معروف ہندی روزنامہ کے رپورٹر نے مجھ سے بات کی لیکن وہ میری بات سننے کے بجائے بس اپنی بات کہتا رہا تو میں نے فون کاٹ دیا۔

اب بھی یہ پروپیگنڈا متعدد ہندوتو انوا ز ویب سائٹس پر چل رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو حقیقت سے کوئی مطلب نہیں۔ اپنی بات ثابت کرنے کے لیے وہ کوئی جھوٹ بول سکتے ہیں۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like