Home تجزیہ دہلی میں بھاجپا کی سیاست اور دہشت گردی-عبدالعزیز

دہلی میں بھاجپا کی سیاست اور دہشت گردی-عبدالعزیز

by قندیل

شاہین باغ کی خواتین کے پرعزم اور پر امن دھرنے سے مودی حکومت اور حکمراں جماعت کے لیڈرس اور کارندے اپنے دماغی توازن کو کھوچکے ہیں۔ ایک طرف انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما، کپیل مشرا اور ان کے دو بڑے استاد مودی اور شاہ غیر متوازن بیانات دے رہے ہیں اور نعرے بازیاں کر رہے ہیں۔ دوسری طرف بجرنگ دل اور آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کے لواحقین جامعہ ملیہ اسلامیہ، شاہین باغ میں پولس کی موجودگی میں پستول لہراتے ہوئے فائرنگ کر رہے ہیں۔ دو تین روز پہلے بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے رام بھکت گوپال نامی نوجوان نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ و طالبات کے احتجاجی مظاہرین پر پستول سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں شاداب فاروق نامی طالب علم کے ہاتھ میں شدید قسم کی چوٹ آئی اور وہ لہولہان ہوگیا۔ گزشتہ روز شاہین باغ میں دھرنے پر بیٹھی خواتین کے سامنے ایک شرپسند نوجوان کپیل گوجر نے ہوا میں اپنی پستول سے فائرنگ کی۔ نوجوانوں نے بروقت اسے پکڑ کر پولس کے حوالے کیا۔ ا س سے پہلے آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم کے کارندے نقاب پہن کر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات پر حملے کئے۔ جے این یو اسٹوڈنٹس یونین کی صدر آئشی گھوش کے سر میں شدید چوٹ آئی اور وہ لہولہان ہوئی۔ کئی دیگر لڑکے اور لڑکیاں بھی زخمی ہوئے۔ دہلی پولس اس وقت بھی تماشائی بنی رہی۔
اس غنڈہ گردی اور دہشت گردی کے دو بڑے مقاصد ہوسکتے ہیں۔ خواتین جو شاہین باغ میں پچاس دنوں سے دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں، اپنے عزم و استقلال کا بھرپور مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اس طرح کے لمبے عرصے تک مظاہرے کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ اور شاہین باغ کے طرز پر دیگر مقامات پر بھی دھرنے اور مظاہرے ہورہے ہیں۔ ان مظاہروں کو خاص طور پر شاہین باغ کے مظاہرے کو بی جے پی نے اپنے انتخاب کا موضوع بنا رکھا ہے۔ اس پورے علاقے کو منی پاکستان سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ مظاہرین کو گولی مارنے، ڈرانے دھمکانے جیسے حربوں کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ ان سب کے باوجود خواتین کا عزم و حوصلہ بجائے پست ہونے کے دن بدن بڑھ رہا ہے۔ دھمکیوں اور بے اعتدال نعروں سے دھرنوں پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے۔ اب دوسری چال جو بھاجپا کی طرف سے چلی جارہی ہے وہ پستول اور بندوق دکھاکر یا لہراکر موت کا ڈر دکھایا جارہا ہے۔ اس سے بھی کام نہیں چل رہا ہے۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد اب بات چیت کا اشارہ دے رہے ہیں۔ یہ بھی دھرنے کو ختم کرنے کا ایک حربہ ہوگا۔ امید ہے خواتین بی جے پی کے جھانسے میں نہیں آئیں گی۔ ایک مقصد تو دھرنے کو ختم کرنے کا ہے۔ دوسرامقصد انتخاب میں عام آدمی پارٹی کو زک دینے کا ہے۔ اس کیلئے انتخابی جلسوں میں زبان اور بیان کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ غلط قسم کی نعرے بازیاں کی جارہی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ قومی اور بین الاقوامی مسائل پر طبع آزمائی ہورہی ہے۔ حالانکہ جھارکھنڈمیں یہ سب کچھ کرکے مودی، شاہ اور یوگی اور وہاں کے مقامی لیڈران نے دیکھ لیا ہے کہ یہ سب حربے جھارکھنڈمیں ناکام ہوئے۔ اس سے بھاجپا سبق لینے کے بجائے دوبارہ اسی حربے کو آزما رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس تشدد، بربریت، بدزبانی اور بدگوئی کے سوا کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ ان کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مخالفین کو پست کرنا چاہتے ہیں۔
مشہور صحافی مسٹر این رام نے اپنے بیان میں صحیح کہا ہے کہ ”شہریت ترمیمی قانو یا قومی رجسٹر برائے شہریت‘ محض بحران کی پردہ پوشی یا توجہ ہٹانے یا محض تقسیم انتشار پر مبنی حربہ نہیں ہے بلکہ یہ بی جے پی کے ہندوراشٹر پروجیکٹ کا ایک اہم حصہ بھی ہے۔ انھوں نے اچھی بات یہ کہی ہے کہ جو لوگ بھی مظاہرے یا احتجاج کر رہے ہیں وہ پر امن طریقے سے کریں، مشتعل نہ ہوں، متزلزل بھی نہ ہوں بلکہ حالات کا حوصلہ مندی سے مقابلہ کریں“۔
مشہور کالم نویس اور اسکالر میگھند ڈیسائی نے جو مودی کی پذیرائی کیا کرتے تھے، آج (2فروری) ’دہلی کی مشکلات‘ (Delhi Difficulties) کے عنوان سے انگریزی روزنامہ ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ”بی جے پی اپنی جارحانہ انتخابی مہم میں ہر قسم کا حربہ استعمال کر رہی ہے تاکہ دہلی کے الیکشن میں وہ کجریوال کو شکست دے سکے لیکن اس کا ہر حربہ ناکام ثابت ہورہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کجریوال نے پانی، بجلی، صحت، تعلیم اور دیگر فلاحی کاموں پر پانچ سال تسلسل کے ساتھ کام کیا ہے۔ اس کے اثرات دہلی کے اندر دکھائی دے رہے ہیں۔ بی جے پی کے پاس ان کاموں کا کوئی جواب نہیں ہے اورنہ کجریوال جیسا ان کے پاس کوئی لیڈر ہے۔ مودی کے بجائے اب شاہ کا چہرہ دکھاکر ووٹ لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ جب مودی کا چہرہ کا کام نہیں کر رہا ہے تو شاہ کا چہرے کیسے کام کرسکے گا؟ شاہ اپنا عہدہ چھوڑ کر دہلی کے وزیر اعلیٰ بن نہیں سکتے تو آخر عوام شاہ کے چہرے کو کیوں اہمیت دیں گے؟“ انھوں نے آخر میں لکھا ہے کہ ”2014ء میں مودی وکاس اور اچھی حکومت کے وعدوں کے ساتھ کامیاب ہوئے۔ 2019ء میں قومی اور بین الاقوامی جیسے جذباتی مسائل پیش کرکے 40% عوام کے ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ لیکن بھاجپا یا مودی کو یہ سمجھنا چاہئے کہ تمام ووٹرز راشٹر وادی ہندو نہیں ہیں جو ہندو راشٹر کیلئے ووٹ دیئے ہوں۔ ’سی اے اے‘ پر بناوٹی خطابات اور دلائل سے ووٹرز ہر گز متاثر نہیں ہوں گے۔ ترقی اور فلاح کی کمی بھاجپا کیلئے زہر ثابت ہورہی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ اب اس کے پاس "Vote losing stategy” (ووٹ نہ حاصل کرنے کی حکمت عملی) ہے“۔
اب ایک ہی حربہ بی جے پی کیلئے باقی رہ گیا ہے کہ دہلی کا ماحول فساد انگیز بنا دے اور فرقہ وارانہ فساد کرادے تاکہ پولرائزیشن ہوجائے یا الیکشن کے دن بدعنوانی، بوتھ پر قبضہ اور ’ای وی ایم‘ (الیکٹرونک ووٹنگ مشین) کی مدد سے عام آدمی پارٹی کو ہرانے کی کوشش کرے۔ الیکشن کمیشن کی کارروائیاں اب تک بے سود ثابت ہورہی ہیں۔ انوراگ ٹھاکر اور ان کے ساتھیوں کو صرف چند دنوں کیلئے انتخابی مہم کے منظر سے ہٹا دینا اشک شوئی کے سوا کچھ نہیں۔ الیکشن کمشنر کو دہلی پولس کو ایسے شرپسند عناصر کے خلاف ایف آئی آر کراکے مقدمہ چلانے کی ہدایت دینی چاہئے تھی لیکن الیکشن کمشنر نے ایسا نہ کرکے پر امن ماحول بنانے میں اب تک ناکام ہے۔ آگے بھی اس سے کوئی اچھی امید رکھنا مشکل ہے۔

E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment