Home تجزیہ دہلی کے مسلمان ذرا سوچ کر!  – توصیف القاسمی

دہلی کے مسلمان ذرا سوچ کر!  – توصیف القاسمی

by قندیل

 

7؍فروری 2015کو دہلی اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی (AAP) نے دہلی کی تمام 70نشستوں میں سے 67سیٹوں پر جیت Voctory درج کرائی۔ اس تاریخ کامیابی نے کانگریس اور بی جے پی سمیت تمام سیاسی پارٹیوں اور سیاسی تجزیہ نگاروں Poltical Columnistکو یہ ماننے پرمجبور کردیاتھا کہ عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ عآپ کے کامیاب دورِ حکمرانی کے 5سالوں نے ثابت کردیاکہ اگر لیڈر اور پارٹی ایماندار ہوتو ملک کا رنگ، ڈھنگ اور نقشہ بدلا جاسکتاہے۔ عام آدمی پارٹی کے طرزِ حکمرانی Style of Ruleنے بتلادیاکہ ہندو مسلم کیے بغیر بھی، کامیاب حکومت کی جاسکتی ہے۔ عزت مآب اروند کیجریوال کی ’’صاف گیم پالیسی ‘‘ نے ثابت کردیاکہ بے فائدہ جھمیلوں کے علاوہ بھی ہمارے پاس کرنے کے لیے بہت کام ہیں۔

عام آدمی پارٹی کا دہلی کے لوگوں کو صحت Health، صاف پانی Pure Water، بجلی Electricity، تعلیم Education وغیرہ۔ میدانوں میں فائدہ مند اسکیمیں فراہم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ AAPملکی ترقی کے لیے مخلص Sincereاور سنجیدہ Seriousہے۔

دہلی کے الیکشن (8فروری 2020) میں دہلی کے مسلمانوں کو اتحاد اور سیاسی سوجھ بوجھ کا ثبوت دینا ہے۔ ہمارے سامنے تین اہم پارٹی بی جے پی، کانگریس اور عام آدمی پارٹی ہے۔ بی جے پی کو مسلم ووٹ کی بالکل ضرورت نہیں، بی جے پی کو ووٹ دینا ناقدروں کے سامنے ذلیل ہونے کے مترادف ہے۔ کانگریس نظریاتی سطح پر سیکولر ہے، مگر عملی سطح پر بی جے پی کی ڈبل رول ہے۔ ہمارے سامنے ایک ہی متبادل ہے اور وہ ہے ’’عام آدمی پارٹی ‘‘ ۔ یہ پارٹی دونوں سے ہزار درجہ بہتر ہے۔

عام آدمی پارٹی تعلیم یافتہ، پرعزم اور حوصلہ مند نوجوانوں کا ایک گروپ ہے، جو جائز اور صحیح معنوں میں سیاست کرنا چاہتے ہیں، دہلی کے مسلمانوں کو ہرگز ہرگز کانگریسی حاجیوں اور ٹوپیوں کے بہکاوے میں نہیں آنا چاہیے۔مسلمان اپنی تمام چالاکی اور طراری اپنی بیویوں اور اماموں کے ساتھ دکھاتے ہیں، کبھی بھی ووٹ دینے میں شعوری چالاکی سے کام نہیں لیتے، نتیجتا مسلم ووٹ انتہائی بری طرح بکھر جاتا ہے کیوں کہ مسلمان چوپالی نیتائوں ، پولیس کے مخبروں ، نادان مولویوں کے بہکاوے میں آجاتے ہیں اور ہر سیاسی فقیر کی جھولی، ووٹ جیسی قیمتی شئے سے بھر دیتے ہیں۔ جب کہ عین اسی مقام پر مسلمانوں کو شعوری چالاکی سے کام لیناتھا، یہی وہ وقت ہوتاہے جب ان کو مکمل چالاکی اور طراری سے کام لینا تھا، وہ چالاکی یہ ہے کہ ’’علیک سلیک ‘‘ ہر ایک سے رکھو، ہر ایک کی ریلی میں جائو اور ہر ایک کو زندہ باد کہو، لیکن ووٹ اُسی پارٹی کو دو جو مسلم مسائل کو حل کرنے کے لیے مخلص ہو اور وہ ہے ’’عام آدمی پارٹی ‘‘۔

مصطفی آباد جیسے اسمبلی حلقے سے بی جے پی امیدوار (Condidate)کا جیت جانا اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان ووٹ کی ’’شعوری یکجائی ‘‘ سے بالکل محروم ہیں۔ مسلمان یہ بھی نہیں سمجھ سکتے کہ دو الگ الگ پارٹیوں کے دو مسلم امیدواروں میں سے ایک ہی کو ووٹ دینا ہوتاہے اگر دونوں کو ووٹ ڈالے جائیں گے تو یقیناً تیسرا (بی جے پی کا) جیت جائے گا۔ اس لیے دہلی کے مسلمانوں کو چاہیے کہ جہاں جہاں بھی دو یا زائد مسلم امیدوار کھڑے ہوتے ہیں وہاں صرف ایک ہی مسلم امیدوار جو عام آدمی پارٹی کا ہو، اُسی کو ووٹ دیے جائیں ، دیگر پارٹیوں کے مسلم امیدواروں کو ہر گز ہرگز ووٹ نہ دیے جائیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ دہلی کے مسلمان عام آدمی پارٹی ہی کو ووٹ دیں۔ امیدوار مسلم ہو، یا غیرمسلم اور خواہ مسلم کے مقابلے میں غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو،ہر حالت میں عام آدمی پارٹی کو ہی ووٹ دیں۔

میں آخر میں بیرسٹر اسدالدین اویسی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ دہلی الیکشن سے کنارہ کش ہوگئے، مزید یہ کہ اویسی نے کیجریوال کی حمایت و مخالفت بھی نہیں کی یعنی مسلم ضمیر کو آزاد رکھا ہے تاکہ مسلمان زمینی حقائق کی بنیاد پر ووٹ ڈال سکیں، یہ ان کی سمجھ داری کی بات ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment