Home تجزیہ دہلی انتخابات کے نتائج کا ملک کو بے صبری سے انتظار کیوں ہے ؟

دہلی انتخابات کے نتائج کا ملک کو بے صبری سے انتظار کیوں ہے ؟

by قندیل

 

مسعود جاوید

دہلی انتخابات کے نتائج سے نہ تو ملک کے حاکم وقت کی کرسی ہلے گی نہ لوک سبھا کے ایوان میں زلزلہ آئے گا اور نہ ہی راجیہ سبھا میں جادوئی نمبر اکثریت و اقلیت کے توازن کو متاثر کرے گا۔دہلی کی کل آبادی ٢٠٢٠ میں تقریباً دو کروڑ اٹھارہ لاکھ ہے جس میں ہندو تقریباً %80.21، مسلم %12.78 اور سکھ %4.43 ہیں۔ کل 7لوک سبھا سیٹ ہیں۔کل ووٹرز 1,46,92,136 ہیں جن میں سے %62.59 نے 8فروری 2020 کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیاہے۔
آخری اسمبلی الیکشن 2015 میں ہوا تھا جس کی 70 سیٹوں میں سے 67 پر فتحیاب ہوکر عام آدمی پارٹی نے حکومت بنائی تھی جس کی میعاد گزشتہ ہفتہ پوری ہوئی،دہلی ایک مکمل ریاست نہیں ہے، یہ ایک یونین ٹیریٹری یعنی مرکز کے زیر انتظام خطہ ہے۔ مزید یہ کہ مرکز/دارالحکومت میں ہونے کی وجہ سے اس نیم ریاست کے کئی اختیارات جیسے پولیس ، لااینڈ آرڈر اور اراضی مرکزی حکومت ( فی الحال بی جے پی) کے پاس ہوتے ہیں۔ باقی شہری امور کی انتظامیہ یعنی نصف ریاست تو اس کا بھی ایک حصہ میونسپل کارپوریشن کے پاس ہے جو بی جے پی کے ہاتھ میں ہے۔ اب جو بچا وہ دہلی کی منتخب حکومت کے پاس ہے۔ پھر بھی ملک بھر کے عوام کو بے صبری سے اس کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا انتظار ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں :
١- شہریت ترمیمی ایکٹ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مظاہرے شروع ہونے کے بعد یہ پہلا الیکشن ہے۔
٢- اس مقامی اسمبلی الیکشن کو کیجریوال بنام مودی پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔
٣- اس مقامی اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کے مقامی موضوعات بجلی،پانی،سڑک، اسکول اور محلہ کلینک کے مقابل بی جے پی نے فرقہ پرستی کو ابھارنے والے نعرے ؛ ہندو مسلمان، پاکستان، شاہین باغ، بریانی، غداروں کو گولی مارو، دہشتگردوں کی تربیت جیسے نعروں کا سہارا لیا۔
٤- اور سب سے اہم بات جس کی وجہ سے ملک اور بیرون ملک ہندوستانیوں کو دہلی اسمبلی الیکشن کے نتائج کا شدت سے انتظار ہے وہ ہے ملک میں شہریت ترمیمی ایکٹ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ میں احتجاجی مظاہرے اور ملک کے مختلف علاقوں میں "شاہین باغ”جیسا احتجاج،اس لئے کہ لوگوں کا خیال ہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعے لائے گئےشہریت سے متعلق ایکٹ اور فرمان ہندوستان کی اکثریت کے لئے قابل قبول ہے یا نہیں، دہلی انتخابات کا نتیجہ واضح کرے گا۔ یہ ایک مِنی ریفرنڈم ہے اس لئے کہ دہلی ایک ایسا میٹروپولیٹن شہر ہے،جہاں کم و بیش ہندوستان کے ہر حصے،فرقے اور طبقے کے لوگ مقیم ہیں جن میں تقریباً %48 اترپردیش، بہار،بنگال،راجستھان اور مدھیہ پردیش کے ہیں۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment