(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
نہ اسے’جھڑپیں‘ کہا جاسکتا ہے نہ ’ احتجاج‘ یہ منظم قتل عام تھا!
دہلی کے فسادات پر یہ جملہ برطانوی خاتون رکن پارلیمان ناڈیا وہٹّوم کا ہے ۔ برطانیہ کے ہاؤس آف کامنس میں دہلی فسادات پر جو بحث ہوئی اور جس طرح فسادات پر تشویش کا اظہار کیا گیا وہ ہندوستان کی مودی سرکار کا سرشرم سے جھکانے کے لئے کافی ہے ، بالخصوص اس لئے کہ برطانیہ نے تو اپنے ایوان میں دہلی فسادات پر بحث کروائی لیکن جہاں یہ فسادات ہوئے ، ہندوستان کی راجدھانی دہلی ، وہاں سے سارے ملک میں حکومت کرنے والی مودی سرکار دہلی تشدد پر اپنےایوان میں بحث کرانے کے لئے ہنوز راضی نہیں ہے ۔۔۔ لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کا یہ کہنا ہے کہ ہولی کے تہوار کے بعد دہلی فسادات پر بحث ہوسکتی ہے ۔ تشدد کی وارداتوں پر بحث کی اجازت نہ دے کر شاید ان کی ’ شدت‘ اور ان کی ’ بہمیت‘ بے اثر کرنے کی کوشش اس لئے ہے کہ یہ فسادات اب ساری دنیا میں ’ مسلم کش فسادات‘ مانے جارہے ہیں ۔ ناڈیا وہٹّوم پنجابی سکھ ہیں اور 2019 میں جب انہوں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی تب وہ 19 برس کی تھیں ، سب سے کم عمر رکن پارلیمان ۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ دہلی کے تشدد یا فسادات کو ’ جھڑپیں‘ اور ’ احتجاج‘ ماننے سے انکار کیا بلکہ صاف لفظوں میں وہ بات کہہ دی جسے کہنے سے بہت ساری زبانیں ہچکچا رہی ہیں ، پر سچ تو سچ ہی ہے ، انہوں نے کہا ’’ اسے وہی کہیں جو یہ ہے : ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف مسلسل اور منظم طور پر ہندوتوا تشدد ، بی جے پی کی منظوری سے ۔ احتجاج تو مسائل کے اظہار کاقانونی ذریعہ ہے ۔ ‘‘
ایم پی ناڈیا کی کہی ہوئی بات کو کیا جھٹلایا جاسکتا ہے ؟
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ 2014ء میں نریندر مودی کی سرکار کے قیام کے بعد سے ہندوتوادیوں نے مسلمانوں کے خلاف مسلسل اور منظم پرتشدد سرگرمیاں شروع کررکھی ہیں؟ جب نریندر مودی پہلی بار وزیراعظم بنے تھے تب ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ سن کر جی خوش ہوا تھا لیکن یہ خوشی بس چند روز کی تھی کہ چند روز بعد ہی ماب لنچنگ کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ۔ اخلاق سے لے کر پہلو خان تک نہ جانے کتنے لوگوں کو ’گئوکشی‘ کے الزام میں بڑی ہی بے رحمی سے قتل کیاگیا ۔۔۔ ننھے حافظ جنید کو پیٹ پیٹ کر موت کی نیند سلانا منظم حملہ نہیں تھا؟ یہ حملے ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں ۔ بلند شہر میں ابھی بس چند روز پہلے دو مسلمانوں کو ، اس شبہہ میں کہ وہ گئوکشی کے مرتکب ہوئے ہیں لاٹھی اور ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر لہولہان کردیا گیا ۔ دونوں ہی نازک حالت میں اسپتال میں داخل کئے گئے تھے۔ یہ تمام واقعات بی جے پی کی ’ منظوری‘ کے بغیر نہ گذرے ہوئے کل تھے ، نہ آج ہیں ۔ ہم جو کہیں وہی ’ کھانا‘ ہے ، وہی ’ پینا‘ ہے ۔ہم جو پڑھائیں وہ پڑھنا ہی پڑے گا ، چاہے وہ گیتا کا پاٹھ ہو کہ سوریۂ نمسکار میں ’ اوم ‘ کی جاپ ہو ۔ اور ابھی رکیئے، ابھی تو عدالت سے طلاقِ ثلاثہ پر پابندی بھی لگوائیں گے ، نکاح کی سنت کو ہی تمہارے لئے سخت ترین کردیں گے ۔ اور ٹہریئے ابھی تو بابری مسجد کی زمین بھی لیں گے۔ اور یہ سب کام ہو بھی گئے ۔۔۔ پھر بھی یہ مسلمان کتنے ڈھیٹ ہیں ، ہندوستان چھوڑنے کو ابھی بھی تیار نہیں ، کیوں نہ ان کی ’شہریت‘ پر ہی سوالات کھڑے کردیئے جائیں ؟ ان سے وہ دستاویزات مانگ لی جائیں جو اگر مودی سے بھی مانگی جائیں تو نہ دےسکیں، اس طرح انہیں اس ملک سے ، جہاں ان کے پرکھے بسے ، اور مرے ، جہاں انہوں نے محنت کی ، گھر بسائے ، تعلیمی ادارے بنائے ، مسجدیں بنائیں ، انہیں کھدیڑنے کی سبیل نکالی جائے ۔ لو جی ہم این آرسی ، این پی آر اور سی اے اے لے آلے ہیں ۔ اب کیسے بچو گے !! لیکن مسلمان تو آج بھی اسی سرزمین پر کھڑا ہوا ہے ۔ اپنے حق کے لئے آوازیں اٹھا رہا ہے ۔ مسلم خواتین نے دہلی سے لے کر یوپی ، راجستھان، کرناٹک ، بہار اور ممبئی وغیرہ تک نہ جانے کتنے شاہین باغ بنالئے ہیں ۔ ’شاہین باغ‘ جو مودی حکومت کو بھی دہلائے ہوئے ہیں اور سی اے اے کے پیچھے اپنا تخریبی دماغ لگانے والے امیت شاہ کی بھی نیندیں حرام کئے ہوئے ہیں ۔۔۔ لہٰذا کیوں نہ انہیں ڈرایا جائے اور ڈرانے کی یہ شروعات عام آدمی پارٹی کے معطل کونسلر طاہر حسین نے نہیں کی ، نہ ہی ’کاروان ِ محبت‘ نکال کر نفرت کی جگہ محبت کا پرچار کرنے والے سابق آئی اے ایس افسر ہرش مندر نے کی ، نہ ہی اروندھتی رائے اور دشینت دوے نے کی ، اس کی شروعات ساری دنیا جانتی ہے بی جے پی کے لیڈروں کپل مشرا ، پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر نے کی ۔ اسے شرو ع کرنے میں بذات خود مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ پیچھے نہیں تھے ۔ وزیراعظم مودی بھی ’ سنیوگ‘ اور ’ پریوگ‘ کی بات کررہے تھے ۔۔۔ نفرت کی ساری باتیں ، ساری زہریلی تقریریں ،’ دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو ‘ جیسے سارے نفرت سے بھرے ہوئے نعرے مسلسل منظم، منصوبہ بند ۔اور ان کا مقصد تشدد کی وہ لہر پھیلانا تھا جس کی زد میں دہلی آجائے اور نقصان اقلیت کا ہو ، مسلم اقلیت کا ۔۔۔ مرے تو دوسرے بھی ہیں ۔ یہاں ہمارا مقصد لاشوں کو ہندوؤں، مسلمانوں ، دلتوں وغیرہ میں تقسیم کرنا نہیں ہے ۔ تشدد پھوٹے گا تو جیسے سیلاب آتا ہے ، سب کو لپیٹ میں لے گا ، مگر تشدد کا یہ رقص ، اسے ’رقص ابلیس ‘ کہہ سکتے ہیں ، مسلمانوں کے ہی خلاف تھا، سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف تھا۔ اس کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ ’ شاہین باغ‘ اور ایسے ہی ملک بھر کے دوسرے احتجاجی مظاہروں کو ایک ہی جھٹکے میں ’ لپیٹ‘ دیا جائے ! پر یہ نہیں ہوسکا ۔۔۔
بی بی سی پر سوتک بسواس کی ایک رپورٹ آئی ہے جس کا عنوان ہے ’’ دلی فسادات کے دوران مسلمانوں کے گھروں کو چن چن کر آگ لگائی گئی۔‘‘ محمد منظر اور ان کے خاندان کے لٹنے پٹنے اور برباد ہونے کی داستان بڑی ہی المناک ہے ۔۔۔ بی بی سی نے ایک ویڈیو رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ تشدد پر آمادہ ہندو ہجوم کو پولس اہلکار پتھر چن چن کر دے رہے ہیں کہ وہ مخالف پر پتھراؤ کرسکیں ۔ اور خود پولس والے ساتھ ساتھ پتھراؤ کررہے ہیں ۔ بی بی سی نے جب یہ دریافت کیا کہ کیا پولس والے بھی پتھراؤ کررہے تھے تب کیمرے کے سامنے لوگوں نے اعتراف کیا کہ ہاں پولس اہلکار انہیں پتھر اٹھا اٹھا کر مسلمانوں پر پھینکنے کے لئے دے رہے تھے اور خود بھی پتھراؤ کررہے تھے۔ ہمانشوراٹھور نام کے ایک شخص کا بیان ہے : ’’ہمارے پاس یہاں پتھر کم تھے لہٰذا پولس والے پتھرلے کر آئے تاکہ ہم پتھراؤ کرسکیں۔‘‘ اس ویڈیو میں بی بی سی نے پولس کے ذریعے مسلمانوں پر تشدد ڈھانے کی مکمل منصوبہ بندی عیاں کی ہے ۔ لاٹھی ڈنڈوں سے نوجوانوں کی پٹائی اور ایسی شدید کہ فیضان نامی نوجوان نے دم توڑ دیا ! لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹتے ہوئے قومی ترانہ پڑھوانا، گویا پولس کی ساری سرگرمیوں کا محور یہ تھاکہ مسلمان ’ قوم پرست‘ یا ’ نیشنلسٹ‘ نہیں ہیں ۔۔۔ دہلی اقلیتی کمیشن کا یہ ماننا ہے کہ ’ تشد د یکطرفہ تھا اور اس کے لئے بہترین منصوبہ بندی کی گئی تھی، بیرونی غنڈے ،شرپسند لوٹ مارمیں شریک تھے لیکن انہیں مقامی مدد بھی حاصل تھی ۔‘‘
ساری دنیا میں ’د ہلی فسادات‘ کی گونج ہے ۔ کئی مسلم ممالک نے ، سعودی عربیہ ان میں شامل نہیں ہے ، دہلی کے فسادات کو ’ مسلم کش‘ قرار دیا ہے ۔ ایران نے سخت مذمت کی ہے ۔ وزارت خارجہ کے سابق سکریٹری کے سی سنگھ ’ سفارتی قیمت‘ کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں تحریر کرتے ہیں کہ مودی سرکار کے علاقائی ایجنڈے نے ہندوستان کی سیکولر خارجہ پالیسی کو مسخ کرنا شروع کردیا ہے ۔ انہوں نے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف اور ایران کے روحانی رہنما علی خامنہ ای کے دہلی فسادات کی مذمت میں دیئے گئے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ اسلامی دنیا سے ہندوستان کے رشتے کٹ سکتے ہیں ۔ ایران سے قبل ملیشیاء اور ترکی نے بھی دہلی فسادات پر ناراضگی جتائی تھی۔ ویسے ’ دہلی فسادات‘ نے صرف مسلم دنیا ہی کو بے چین اور مضطرب نہیں کیا ہے ، ابتداء ہی میں برطانیہ کے ہاوس آف کامنس میں ’ دہلی فسادات‘ پر ہوئی بحث کا ذکر آچکا ہے ۔ امریکہ میں ایک صدارتی امیدوار سینڈرس نے پہلے ہی دہلی کے تشدد کو مسلم کش قرار دے دیا ہے ۔ انہوں نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورۂ ہند پر بھی سخت نکتہ چینی کی ہے ۔ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے کمیشن نے صرف تشویش ہی ظاہر نہیں کی اس نے سی اے اے کے خلاف سپریم کورٹ میں جو شنوائی ہونا ہے اس میں ایک مداخلت کار کی حیثیت سے شامل ہونے کی درخواست تک دے دی ہے ۔ گویا یہ کہ ساری دنیا میں دہلی کے فسادات مودی سرکار کے لئے باعثِ شرم ہیں۔ اب باعث شرم ہیں تو ہوا کریں ! شاید یہ سرکار یہی کہہ رہی ہو، کیونکہ ہنوز فسادیوں اور زہریلی تقریریں کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے ۔ بی جے پی کے وہ تمام لیڈر جو ’زہر بورہے تھے ، آزاد ہیں ، ایف آئی آر تک ان کے خلاف درج نہیں ہوئی ہے ، لیکن بڑی تعداد میں انہیں ، جو متاثرین ہیں ، ملزم قرار دے دیا گیا ہے !! افسوس تو یہ ہے کہ ہرش مندر کی ایک تقریر کو بنیاد بناکر۔۔۔ جو کہ توڑ مروڑ کر پیش کی گئی ہے ۔۔۔ سپریم کورٹ ان ہی کے خلاف کارروائی پر مصر ہے ۔۔۔ سی اے اے کو لاگو کرنے پر ابھی بھی زور ہے ، این پی آر میں والدین کی شہریت ثابت کرنے کو ابھی بھی لازمی کہا جارہا ہے ۔۔۔ اور یہ جو شاہین باغ میں بہادر خواتین بیٹھی ہیں ان کے خلاف ابھی بھی نعرے لگ رہے ہیں ۔ ’’گولی مارو۰۰۰۰‘
اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا
شرم تم کو مگر نہیں آتی
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)