ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
[email protected]
اتوار ۳۲ فروری کو بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے شہریت ترمیمی قانون کی حمایت میں ایک ریلی کی اور اسٹیج پر ایک ڈی سی پی کی موجود گی میں ریلی میں شامل لوگوں کی طرف سے دہلی پولس کو وارننگ دی کہ اگر ٹرمپ کے جانے تک آپ نے چاند باغ اور جعفرآباد علاقوں میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو نہیں ہٹایا تو پھر ہم آپ کی بھی نہیں سنیں گے ہمیں راستے پر آنا پڑے گا۔ کپل مشرا کا یہ بیان دراصل اس پریشر کوکر کی سیٹی تھی جو دہلی اسمبلی انتخابات کی پرچار مہم کے دوران وزیر اعظم مودی جی نے سنیوگ اور پریوگ کی سیاست کے نام، وزیر داخلہ امت شاہ نے شاہین باغ کو کرنٹ پہنچانے کے نام،مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے گولی مارو سالوں کو کے نام کپل مشرا نے ہندوستان اور پاکستان کے بیچ مقابلے کے نام اور گری راج سنگھ نے اسلامک اسٹیٹ کے نام تیار کیا تھا، سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف خوب مسالہ بھرا تھا اور اسے نفرت کی آگ پر رکھ چھوڑا تھا، وہ سمجھتے تھے کہ جب یہ پریشر کوکر پھوٹے گا تو ووٹوں کے ذریعہ ان کو فائدہ پہنچائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا، ان کا ووٹ فیصد ضرور بڑھا لیکن وہ ہار گئے۔ شاید اسی ہار سے بوکھلا کر انہوں نے اس پریشر کوکر کو سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں خاص طور سے مسلمانوں پر پھوڑ دیا۔ یوں تو کپل مشرا نے ٹرمپ کے جانے تک شانتی بنائے رکھنا کا اعلان کیا تھالیکن شاید اسے بھی دوسروں کے سر تھوپنے کے لئے ٹرمپ کی موجودگی میں ہی اپنے اعلان کو عملی جامہ پہنا دیا، ویسے بھی کوکر میں پریشراتنا تھا کہ تین دن تک اس کا نہ پھٹنا ممکن نہیں تھا، نفرت کی آگ میں دہک رہے لوگ تین دن کا صبر نہیں کرسکے اور انہوں نے چن چن کر مسلمانوں اور ان کی گھروں اور دکانوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔اور سی اے اے کے خلاف پرامن مظاہرین پر بری طرح لاٹھیاں برسانے والی، آنسو گیس کے گولے داغنے والی، یونیورسٹیوں اور لائبریریوں میں گھس کے طلبا کو بری طرح مارنے والی، یہاں تک کہ نہتے مظاہرین پر فائرنگ تک کرنے والی پولس نے سی اے اے کے حمایتیوں کے ذریعہ ہوئے فساد کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی، لاٹھی چارج اور فائرنگ تو دور کی بات ہے فسادیوں کو منتشر کرنے کے لئے پولس کی طرف سے آنسو گیس کے گولے داغنے کی بھی کوئی خبر نہیں ہے بلکہ scroll.in نے ۵۲فروری کے ایک مضمون میں مختلف رپورٹرس کے ٹویٹ کے ذریعہ یہ بتایا ہے کہ پولس یا تو چپ چاپ کھڑی فسادیوں کی بربریت کا تماشہ دیکھتی رہی یا خود بھی ان کے ساتھ فساد میں شامل ہو گئی، کہیں تو فسادیوں نے اپنا سمجھتے ہوئے پولس کے لئے ناشتے وغیرہ کا بھی انتظام کر رکھا تھا جسے اس نے قبول بھی کیا۔ پولس کا یہ رویہ حیرانی کی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے اور نظام قانون و انصاف کے لئے شرم کی بات ہے۔ فسادات پولس نے کنٹرول نہیں کئے بلکہ اس وقت کنٹرول ہوئے جب قومی سلامتی صلاح کار اجیت ڈوال میدان میں اترے فساد زدہ علاقوں کے گلی کوچوں میں گئے لیکن یہ بھی پورے تین دن کے ننگے ناچ کے بعد ہوا اور اس میں بھی فسادیوں پر اور انہیں بھڑکانے والوں پر کسی کارروائی کی کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ مسلم علاقوں میں جاکر ان شاء اللہ ماشاء اللہ کا دور چلایا گیا،سوال یہ ہے کہ ڈوال صاحب نے یہی کام فسادات کی ابتداء میں کیوں نہیں کرلیا؟ اگر ڈوال صاحب شراعات میں ہی مورچہ سنبھال لیتے تو حالات اتنے خراب نہ ہوئے ہوتے۔ کیا سرکار نے کوئی ٹارگیٹ سیٹ کر رکھا تھا جس کے لئے تین دن درکار تھے؟ کیا ڈوال صاحب مسلم علاقوں میں یہ پیغام دینے گئے تھے کہ ان گھبرانے کی ضرورت نہیں اب کھیل ختم ہوچکا مقصد حاصل ہوچکا؟ یہ فسادات دراصل سرکار کی مرضی سے ہی ہوئے ہیں یہ ہم نہیں کہہ رہے خود سرکار کے فیصلے اور اس کے افسروں کی باتیں کہہ رہی ہیں، ان باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ سرکار فسادات کو روکنے کے لئے فساد بھڑکانے والے اپنے لیڈروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس ضمن میں جب دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس مرلی دھر اور جسٹس تلونت سنگھ کی بینچ نے ایک عرضی کی سماعت کے دوران دہلی پولس پر پھٹکار لگاتے ہوئے کمشنر اور سالیسیٹر جنرل کو بھڑکاؤ بھاشن دینے والے بی جے پی لیڈروں انوراگ ٹھاکر پرویش ورما اور کپل مشرا پر ایف آئی آر درج کرنے کے متعلق فیصلہ کرنے اور دوسرے ہیدن کورٹ کو جانکاری دینے کا حکم دیا اور پوچھا کہ ان لیڈروں پر پہلے ہی کارروائی کیوں نہیں کی گئی تو دونوں افسروں نے اول تو اس میں ٹال مٹول کرتے ہوئے ایک دن کا وقت مانگا اور پھر صاحب اسی دن رات میں سرکار نے جسٹس مرلی دھر کا دہلی ہائی کورٹ سے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں تبادلہ کردیا ہے، حالانکہ سپریم کورٹ کالیجیم اس تبادلے کی سفارش پہلے ہی کرچکا تھا لیکن عین اس وقت جب کہ دہلی میں فساد جاری تھا اور اس فساد کو روکنے کے لئے جج صاحب اہم سنوائی کر رہے تھے پولس کے متعلق ان کا رویہ بھی سخت تھا اور اگلے ہی دن اس ضمن میں کوئی اہم فیصلہ ہونا تھاایسے وقت میں آناً فاناً ان کا تبادلہ کردئے جانے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتاہے کہ سرکار نہیں چاہتی کہ فسادات کنٹرول نہ کرنے والی پولس پر کوئی قانونی آنچ آئے اور فسادات کے محرک بنے بھڑکاؤ بھاشن دینے والے لیڈروں پر کارروائی کی جائے اور ہوا بھی ایسا ہی جب اگلے دن دوسری بینچ نے مذکورہ عرضی کی سماعت کی تو جیسے فیصلہ ہی بدل گیا،جسٹس مرلی دھر اور جسٹس تلونت سنگھ کی بینچ نے بھڑکاؤ بھاشن دینے والے نیتاؤں پر آف آئی آر درج کرنے کے جس فیصلے کے لئے مشکل سے ایک دن کا وقت دیا تھا اب اسی فیصلے کے لئے نئی بینچ نے چار ہفتوں کا وقت دے دیا ہے۔ یعنی بھیا کپل مشرا بولتے رہئے۔ اور اب تو انہیں کپل مشرا کے مقابلے طاہر حسین مل گیا ہے جس پر الزام ہے کہ اس کے چھت پر فسادی سامان ملا اور اس نے ہی انفارمیشن بیورو کے ایک افسر کو قتل کیا، فسادات بھڑکانے والا بیان دینے والے اور اس ضمن میں خود پولس کو وارننگ دینے والے کپل مشرا پر تو کوئی کارروائی نہیں کی گئی وہ نہ صرف آزاد ہے بلکہ اپنی گرفتاری کی مانگ کرنے والوں کو دہشت گردوں کے حمایتی کہہ رہے ہیں۔ طاہر حسین کو بھی تا دم تحریر گرفتار تو نہیں کیا جاسکا لیکن اس کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے اس کی پراپرٹی سیل کردی گئی ہے۔ دونوں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ کپل مشرا کی پارٹی بی جے پی اس کے بچاؤ میں کھڑی ہے جبکہ طاہر حسین کی پارٹی عآپ نے ابھی تحقیقات ہونے اور گناہ طے ہونے سے پہلے ہی اسے ڈس اون کر دیا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ طاہر حسین پر کوئی کارروائی نہ ہو ہمارا کہنا تو یہ ہے اگر وہ واقعی مجرم ہے تو اس کے خلاف کٹھور کارروائی ہو لیکن اتنی ہی کٹھور کارروائی فریق مخالف کے دنگائیوں پر اور دنگا بھڑکانے والوں پر بھی ہونی چاہئے، جس طرح فسادات مسلم مخالف تھے اسی طرح کارروائی بھی یک طرفہ مسلمانوں کے خلاف نہ ہو۔لیکن ایسا کچھ ہوگا اسکی کوئی گارنٹی نہیں کیوں کہ خبروں کے مطابق ابھی بھی بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری بی ایل سنتوش پہلے ایک ٹویٹ کے ذریعہ کہا کہ ’گیم اب شروع ہوا ہے‘ بعد میں اسے چینج کر کے کہا کہ ’فسادیوں کو انڈین قانون کے ایک یا دو سبق سکھائے جانے چاہئے‘ چہ معنی دارد؟ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ فسادیوں سے ان کی مراد اپنی پارٹی کے اشتعال انگیز لیڈر ہوں، یعنی کیا اب مسلمانوں کے خلاف پولس کارروائی کا فساد ہوگا؟ مسلمانوں کو قانونی طور پر تیار رہنا چاہئے۔ کیجریوال کی کارروائی بھی دیکھئے،مانا کہ پولس ان کے کنٹرول میں نہیں ہے لیکن لوگ تو ان کے ہیں، دلی کے لوگوں کی اکثریت نے انہیں منتخب کر کے وزیر اعلیٰ بنایا ہے اور انہیں دیکھئے کہ ادھر دلی جل رہی ہے اور وہ اپنے ممبران کے ساتھ راج گھاٹ پر امن کے لئے دعا کرنے بیٹھ گئے، ارے صاحب جس طرح آپ ووٹ مانگنے کے لئے سڑکوں اور گلی کوچوں میں نکلے تھے اسی طرح اب لوگوں کو فسادات سے باز رکھنے کے لئے اورفسادات سے بچانے کے لئے بھی سڑکوں اور گلی کوچوں میں آپ کو جانا چاہئے تھا، جو کام پولس نہیں کرسکی وہ کام آپ کے جانے سے ہوسکتا تھا،عآ ؑپ کے سبھی ممبران اپنے حمایتیوں کو ساتھ لے کرفساد زدہ علاقوں میں نکل جاتے تو دنگائیوں کی ہمت بھی ٹوٹتی،اور پولس بھی شرم کے مارے اپنی ذمہ داری ادا کرنے لگتی لیکن گاندھی واد کا ڈھونگ کرنے والوں کو یہ نہیں سوجھا۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ جس گاندھی کی سمادھی پریہ امن کی دعا مانگنے کے لئے گئے تھے فسادات روکنے کے لئے وہ گاندھی اکیلا فسادیوں کے بیچ چلا جایا کرتا تھا؟پولس ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے کہہ کر انہوں نے دراصل اپنی اخلاقی ذمہ داری سے منھ موڑا ہے؟ انہوں نے فساد متاثرین کے لئے معاوضہ کا اعلان کیا بہت اچھا کیا قابل ستائش کام کیا لیکن زخم لگنے سے روکنا مرحم لگانے سے بہتر اہم اور ضروری ہوتا ہے یہ انہیں یاد رکھنا چاہئے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)