اروند کجریوال کی شخصیت اور کردار سے عوام کی اور خاص طور پر دہلی کے عوام کی بہت سی امیدیں وابستہ تھیں لیکن دہلی فسادات کے موقع پر کجریوال اوران کے نمائندوں نے جس طرح کا کردار ادا کیا اس سے عوام میں بڑی مایوسی اوربد دلی پیدا ہوگئی۔ الیکشن سے پہلے کجریوال کی تقریروں اور ان کے بیانات کچھ اس طرح تھے کہ ہر اہل علم و دانش یہ سمجھتا رہا کہ ممکن ہے الیکشن کی وجہ سے ان کا رویہ محتاط اور مصلحت آمیز ہو۔ الیکشن کے بعد انتخابی مصلحت مصلحت نہیں رہے گی۔ مصلحتوں سے پرے ہٹ کر حقیقت پسندی سے کام لیں گے۔ لیکن الیکشن کے نتائج کے بعد ہی سے جس طرح بجرنگ بلی کے مندر میں جانا، ہنومان چالیسا پڑھناان کے نرم ہندوتو کی جھلک نظر آئی۔ دہلی فسادات کے موقع پر تین روز تک وہ خاموش رہے۔ ان کی پارٹی کے نمائندے بھی خاموش تماشائی بنے رہے۔ بعد میں مہاتما گاندھی کی سمادھی پر اپنے کچھ لوگوں کے ساتھ ستیہ گرہ کیلئے پہنچے۔ ایسے موقع پر ستیہ گرہ بے معنی سی چیز ہے کیونکہ گاندھی جی فسادات کے دوران جائے وقوع پر چلے جاتے تھے۔ جواہر لعل نہرو بھی 1947ء کے دہلی کے فسادات میں بلوائیوں کو روکنے کیلئے بھیڑ میں چلے گئے تھے۔ جان جوکھم میں نہ ڈال کر ستیہ گرہ کرنا یا دعا کرنا ایک رسم کی ادائیگی ہے یا نمائش اور دکھاوا ہے۔ اس سے فسادیوں پر نہ کوئی اثر ہوتا ہے، نہ فسادزدگان کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر کجریوال اپنے لوگوں کو جو ان کے دہلی میں ایم ایل اے اور کونسلر ہیں میدان میں اتار دیتے تو پولس نے جو حرکتیں کی ہیں شاید اس میں بہت کمی آتی اور بلوائیوں کو روکنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
دہلی میں 70 ایم ایل اے ہیں، 7 لوک سبھا کے ممبر اور 3راجیہ سبھا کے ممبر ہیں۔ سب کے سب ہندستان کی سلامتی اور استحکام کا حلف اٹھاتے ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ حلف اٹھانے والے لوگوں میں ایک فرقہ کو دوسرے فرقے، ایک مذہب کے ماننے والوں سے دوسرے مذہب کے ماننے والوں میں نفرت، شک و شبہ اور اشتعال انگیزی کے جذبات بھڑکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا یہ حلف وفاداری سے روگردانی نہیں ہے؟ گزشتہ چند ہفتے میں دہلی نفرت اور فساد کی آگ میں جلتا رہا۔ تناؤ اور کشیدگی قائم رہی۔ تشدد اور انتہا پسندی کا دور دورہ رہا۔ خوف و ہراس کا ماحول چھایا رہا۔ فسادزدگان میں سے بہتوں کو مجبوراً خوف و ہراس کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں پناہ لینی پڑی۔ دہلی کے شمال مشرقی علاقے سے فساد کی ابتدا ہوئی۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ 70 ایم ایل اے اور کئی کونسلرزمیں سے کسی نے بھی میدان میں اترنے کی ہمت نہیں دکھائی ۔ فسادکے وقت سب کے سب چپی سادھے رہے اور دہلی میں فسادی اور بلوائی دندناتے پھرتے رہے۔ سوشل میڈیا پر پیغامات آتے رہے مگر عوامی نمائندے منظر سے بالکل غائب رہے۔ کسی بھی پارٹی کے نمائندے زمین پر نظر نہیں آئے۔ گھروں میں بیٹھے رہے اور ٹیلی ویژن دیکھتے رہے کہ بلوائی ایک خاص فرقے کو نشانہ بنارہے ہیں۔ جو لوگ دہلی میں رہتے ہیں یا جنھوں نے 1984ء کا فساد دیکھا ہے وہ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ 1984ء کے فسادات کو دہرایا جارہا ہے۔ تشدد کے واقعات رونما ہورہے تھے ، لوگ زخموں سے نڈھال تھے۔ آتشزدنی، لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ قتل و غارت گری ہورہی تھی۔ چاروں طرف ہاہاکار مچا ہوا تھا۔ ایم ایل اے، ایم پی سب کو استحقاق، اختیارات اور تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ سب کو تنخواہیں ملتی ہیں۔ گھر ملتا ہے۔ مختلف سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ یہ سب سہولتیں اس لئے حاصل ہوتی ہیں کہ یہ پبلک کے نمائندے ہوتے ہیں، پبلک کی خدمت کریں گے۔ لیکن اگر یہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے، عوامی خدمت نہیں کرتے تو یہ عوام کے ساتھ بے وفائی اور غداری نہیں تو کیا ہے؟ اس لئے کہ ووٹرز مصائب و مشکلات کے وقت اپنے نمائندوں کی طرف دیکھتا ہے اور نمائندوں کا وعدہ رہتا ہے کہ ہر تکلیف اور مصیبت میں وہ کام آئے گا۔ یہ لوگ صرف نمائندے ہی نہیں ہوتے ہیں بلکہ انتظامیہ میں ان کے اثر و رسوخ ہوتے ہیں، ان کی اپنی حیثیت ہوتی ہے۔ پولس کو بہت سے معاملات میں روک سکتے ہیں اور بعض کام کرنے سے مجبور کرسکتے ہیں جو عام آدمی نہیں کرسکتا ہے۔ کجریوال یا ان کے نمائندوں کا یہ کہنا کہ پولس مرکز کی نگرانی میں کام کرتی ہے یہ ایک بہانہ ہے اور اس بہانے سے کام سے روگردانی اورمنہ موڑنے کے مترادف ہے۔ پولس نمائندوں کی بات ایک دم نہیں سنے گی، پولس پر کجریوال کا کچھ بھی اثر نہیں پڑے گا یہ کہنا درست نہیں ہے۔ کجریوال اپنے مطلب اور مقصد کیلئے پولس سے لڑ جاتے ہیں، انشن کرتے ہیں، بھوک ہڑتال پر بیٹھ جاتے ہیں لیکن فساد کو روکنے کیلئے نہ ان میں کوئی جذبہ پیدا ہوا اورنہ ہی ان کے نمائندوں میں کوئی احساس اورجذبہ دکھائی دیا۔
سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ وہ اپنے ایک کونسلر کی بھی وہ مدافعت نہ کرسکے۔میڈیا کے غلط پرچار نے کونسلر طاہر حسین کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ وہ اپنی صفائی دیتے رہے کہ انکیت شرما کا قتل 25فروری کو ہوا اور 24 کو ہی ان کو پولس کی مدد سے گھر چھوڑ کر دوسری جگہ پناہ لینا پڑا۔ ان کی بلڈنگ کی چھت پر جو بہت سے ناپسندیدہ سامان پائے گئے اس کے بارے میں انھوںنے بتایا کہ پولس نے پورے طور پر چھان بین کی اور پولس کو انھوںنے گھر کی چابھی تک حوالے کردی۔ عام آدمی پارٹی ایک دو دن تک اپنے ترجمان کے ذریعے طاہر حسین کی مدافعت کرتی رہی لیکن تیسرے دن نہ صرف مدافعت کرنا چھوڑ دیا بلکہ ان کو پارٹی کی رکنیت سے معطل کردیا۔ جب اپنی پارٹی کے آدمی کے ساتھ عام آدمی پارٹی کا یہ سلوک ہوگا تو عام آدمی کے ساتھ پارٹی کا کیا سلوک ہوسکتا ہے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔ کجریوال نے پولس محکمہ کے دو مقتول کے ورثاء کو ایک ایک کروڑ روپئے دینے کا اعلان کیا لیکن جو لوگ فساد میں مارے گئے اور پولس کی گولیوں سے بھی بے قصور لوگ مارے گئے ان کے ورثاء کیلئے انھوں نے کچھ بھی اعلان نہیں کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اکثریت کو خوش کرنے کا جذبہ ان کے دل میں کچھ زیادہ ہے۔ ابھی بھی وہ الیکشن مہم کے دوران نظر آتے ہیں یا وہ دوسری ریاستوں کے انتخابات میں اپنے نرم ہندوتو پالیسی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
معلوم ہواہے کہ دہلی کی ملی تنظیموں کے ذمہ داران وزیر اعلیٰ اروند کجریوال سے مل کر اپنے خیالات واحساسات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں لیکن کجریوال ملاقات کا وقت نہیں دے رہے ہیں۔ یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اقلیت سے ہمدردی کرنا نہیں چاہتے اورنہ اقلیت کی بات سننا چاہتے ہیں۔ کجریوال بی جے پی کے ممبران اور لیڈران کی نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقریروں پر بھی ابھی تک اپنے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ کپل شرما جو کبھی عام آدمی پارٹی کی حکومت میں وزیر تھے جو دہلی فساد کے ایک طرح سے ماسٹر مائنڈ ہیں ان کے بارے میں بھی کجریوال نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ انوراگ ٹھاکر جو مرکزی حکومت کے وزیر ہیں جنھوں نے ’غداروں کو گولی مارنے‘ کی بات کہی تھی ان کے متعلق بھی کجریوال خاموش ہیں۔ پرویش ورما جنھوںنے انتہائی نفرت انگیز اور اشتعال انگیز بیانات دیئے ان کے بارے میں بھی کجریوال کی حکومت چپی سادھے رہی۔ الیکشن سے پہلے مصلحت ہوسکتی ہے لیکن الیکشن کے بعد کیا مصلحت ہوگی کہ جن لوگوں نے دہلی کے فساد کو ہوا دی ہو ان کو دہلی کی حکومت سزا دلانے یا ان کے خلاف ایف آئی آر کرانے کا مطالبہ تک کرنے سے بھی قاصرہے۔
گزشتہ روز دہلی حکومت نے ایک اچھا کام ضرور کیا ہے کہ ’این پی آر‘ کے خلاف اسمبلی میں قرار داد پاس کی۔ کجریوال نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ اسمبلی میں 61 ممبران ایسے ہیں جن کے پاس پیدائشی سرٹیفیکٹ نہیں ہے تو پھر عام آدمی کے پاس کیسے پیدائشی سند ہوسکتی ہے۔ کجریوال کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ حکومت سازی کے بعد وزیر داخلہ امیت شاہ سے ان کی بڑے اچھے اور خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی ۔ اس ملاقات س ان کے اندر کسی وجہ سے تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔ اس تبدیلی کے دور رس نتائج ہوسکتے ہیں۔ تبدیلی یکایک کیوں آئی یہ کہنا مشکل ہے۔ شاید کوئی ایسی کمزوری کجریوال کی ہو جس سے ان کی دُکھتی رگ دبتی ہو۔ بہر حال جو کچھ بھی ہو بعد میں ظاہر ہوگا۔ پہلے نتیش کمار کے بارے میں بڑی امیدیں اپوزیشن کی طرف سے تھیں لیکن نتیش کمار نے مہا گٹھ بندھن کے ساتھ بے وفائی کرکے بی جے پی کے ساتھ گٹھ بندھن کرکے ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اسی طرح اروند کجریوال سے بھی عوام اور اپوزیشن کی بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن الیکشن کے نتائج اور حکومت سازی کے بعد کجریوال کا رنگ ڈھنگ بالکل بدل گیا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام میں بھی مایوس ہے اور اپوزیشن پارٹیوں میں بھی وہ امید باقی نہیں رہی جو کجریوال کے بارے میں تھی۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)