ایم ودود ساجد
(تیسری قسط)
23 فروری 2020 کی شب مشرقی دہلی میں پھوٹ پڑنے والے فسادات میں 6 نئے رجحانات دیکھنے کو ملے۔
(1)اس فساد میں عورتوں اوربچوں کو استعمال کیاگیاـ
(2)گولیاں خوب چلائی گئیں ـ
(3)صحافیوں کو مارا پیٹا گیا اور انہیں جلے ہوئے مکانات اور مسجدوں کی ویڈیو بنانے نہیں دی گئیں ـ
(4) ایک خاص علاقے میں فساد کے اتنے دنوں کے بعد بھی لوگوں کو اپنے جلے ہوئے گھروں کو واپس جاتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے۔
(5) صحافیوں کو ان جلے ہوئے گھروں میں نہیں جانے دیا جارہا ہے۔اور
(6) دوکانوں ومکانوں کو آگ لگانے سے پہلے ان میں موجود نقدی اور زیورات لوٹے گئے۔
پچھلی قسط میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ عورتیں لاٹھی ڈنڈوں سے لیس تھیں جو 25 فروری کو موجپور کے ہندو دوکانداروں کو دھمکاتی پھر رہی تھیں کہ اگر تمہاری دوکانوں کے اوپر مسلم کرایہ دار رہتے ہوں تو انہیں نکل جانے کو کہہ دو نہیں تو ہم تمہیں بھی نہیں چھوڑیں گے۔اسی طرح دس سال تک کی عمرکے بچوں نے جے شری رام کے نعرے لگاکر گاڑیوں میں آگ لگائی۔ان عورتوں اور بچوں میں بلا کی نفرت تھی۔ یہ تحقیقات ضروری ہیں کہ یہ عورتیں کہاں کی تھیں اور یہ بچے کہاں سے آئے تھے۔ اس لئے کہ آگے چل کر یہ بچے دہشت گرد اور یہ عورتیں دہشت گردوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوں گی۔انہوں نے فساد کی کوریج کرنے والے ہندو صحافیوں تک کو نہیں بخشا۔پولیس نے بھی کارروائی تعصب کی بنیاد پرکی۔آئی بی افسرانکت شرما کے قتل کا شور اس لئے مچایا گیا کہ اس میں عام آدمی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین کا کرداربتایا گیا۔ جبکہ دوسری طرف26 سالہ راہل سولنکی کے قتل کا کوئی ذکر اس لئے نہیں ہوا کہ اس کے باپ ہری سنگھ سولنکی نے کھلے طورپرکپل مشرا پر الزام لگایاتھا کہ میرے بیٹے کا قتل اسی کی وجہ سے ہوا۔اس نے کہا تھا کہ مظاہرہ اتنے دنوں سے ’شانتی پوروک‘چل رہا تھا لیکن کپل مشرا کے آنے کے بعد حالات خراب ہوگئے۔
دورجحان تو بہت حیرت انگیزہیں۔ ایک طرف جہاں مار کاٹ کے بعد لٹھ بردار خواتین نے ڈرانے دھمکانے کاغلیظ کردار ادا کیا وہیں دوسری طرف دس سال تک کی عمر کے بچوں نے بھی ایسا کام کیا کہ جو ذہن سازی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔۔۔اور یہ سب’دی پرنٹ‘ کی ریوتی کرشنن نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زہر کہاں تک پھیلا دیا گیا ہے۔ ریوتی نے یمنا وہار سے ہوتے ہوئے کردم پوری میں قدم رکھا تو دیکھا کہ ایک بھیڑ نے جے شری رام کے نعرے کے ساتھ ایک گاڑی کو آگ لگادی ہے اور ہوا میں فائر کر رہی ہے۔۔۔جبکہ پڑوس کے مسلم نوجوان جوابی پتھر بازی کر رہے ہیں۔ریوتی نے ایک نوجوان سے پوچھ لیا کہ پتھر بازی کیوں کر رہے ہو؟ نوجوان نے جواب دیا: "وہ گولیاں چلا رہے ہیں اور آپ کو ہماری پتھر بازی کی فکر ہے۔”
گوکل پوری کی ایک مسلم خاتون کو اپنے دو بچوں کے ساتھ اپنا گھر چھوڑ کر کردم پوری میں اپنے ایک رشتہ دار کے گھر جاکر پناہ لینی پڑی۔اس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ”بجرنگ دل کے لوگوں نے ہمارے علاقہ میں دھاوا بول کر پڑوس کے ہر مکان میں آگ لگادی۔ہمیں چپل اور کپڑوں کے بغیر ہی بھاگنا پڑا۔بچ نکلنے میں ہماری مدد ایک سکھ پڑوسی نے کی۔اگر اس نے مد دنہ کی ہوتی تو نہیں معلوم آج میں کہاں ہوتی۔“ ریوتی کے علاوہ بہت سے ہندو صحافیوں نے اپنی رپورٹوں میں ایک نکتہ یکساں طورپربیان کیا ہے۔یہی کہ پولس یا تو مدد کو نہیں آئی یا پھر خاموش تماشائی بنی رہی۔۔۔
اس ضمن میں سپریم کورٹ کا ایک تبصرہ بہت اہم ہے۔۔۔
26 فروری کو دراصل جسٹس کے ایم جوزف کی بنچ شاہین باغ کے احتجاج کا معاملہ سن رہی تھی۔اسی دوران جسٹس کے ایم جوزف نے پولیس کی گوشمالی کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس نے فسادات سے نپٹنے اور ہجوم کو اکسانے والی نفرت بھری تقریر کرنے والوں کے خلاف کچھ نہیں کیا۔جسٹس جوزف نے کہا کہ اگر پولیس نے نفرت انگیز تقریر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہوتی تو فساد نہ ہوا ہوتا۔۔۔حکومت کے وکیل (سالیسٹر جنرل) نے عدالت سے اپیل کی کہ وہ پولیس کے خلاف تبصرہ نہ کرے کیونکہ اس سے پولیس کی حوصلہ شکنی ہوگی۔جسٹس جوزف نے برطانیہ اور امریکہ کی پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کچھ غلط ہوجاتا ہے تو ان ملکوں کی پولیس پیشہ ورانہ مہارت سے کام لیتے ہوئے فوراً ایکشن لیتی ہے۔
یہاں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہرچند کہ سپریم کورٹ میں شاہین باغ کے احتجاج کا معاملہ زیر غور تھا لیکن جسٹس کے ایم جوزف نے خصوصی طورپر مشرقی دہلی کے فسادات کا معاملہ اٹھایا اور پولیس کو سخت لعن طعن کی۔اس پر مرکزی حکومت کا (سرکاری) وکیل آتش زیر پا ہوگیا اور اسے پولیس کی حوصلہ شکنی کا خیال ستانے لگا۔اسے درجنوں ہلاک شدگان کا خیال نہیں آیا۔اسے سینکڑوں لٹ پٹ جانے والوں کا خیال نہیں آیا۔دراصل سالیسٹرجنرل کو جسٹس جوزف سے خوف تھا۔جسٹس جوزف کا وہ واقعہ شاید آپ کو یاد نہ ہو جب 2016 میں انہوں نے اتر اکھنڈ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے صدر جمہوریہ کا وہ حکم منسوخ کردیا تھا جس کے تحت ریاست کی کانگریس حکومت کو دفعہ356 کے تحت برخاست کردیا گیا تھا۔ایسا کرکے دراصل مودی حکومت وہاں بی جے پی کی سرکار بنوانا چاہتی تھی۔۔۔ہوا یہ تھا کہ کانگریس کے سات ممبران اسمبلی ٹوٹ گئے تھے اور ووٹ آن اکاؤنٹ پاس نہ ہوسکا تھا۔ایسا ہونے کا مطلب یہ سمجھاجاتا ہے کہ حکومت اقلیت میں آگئی ہے اور حکمراں جماعت کو اب اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں رہی۔بی جے پی نے کانگریس کے وزیر اعلی سے مطالبہ کیا تھا کہ یا تو آپ استعفی دیں یا اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ دوبارہ حاصل کریں۔
اسی دوران بی جے پی نے ریاستی ہائی کورٹ کی سنگل بنچ میں رٹ دائر کردی اور اس یک رکنی بنچ نے حکومت کو ہدایت دیدی کہ وہ تین دن کے اندر اندر اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرے۔اس فیصلہ کے خلاف اتراکھنڈ کے وزیر اعلی نے چیف جسٹس کی دو رکنی بنچ میں اپیل دائر کی۔ابھی اپیل پر سماعت جاری تھی کہ مرکزی حکومت نے دفعہ 356 کے تحت ریاستی حکومت کو برخاست کردیا۔بنچ نے اس پر سخت ناراضگی ظاہر کی ۔جسٹس جوزف نے تین دن تک سماعت کی اور تینوں دن انتہائی سخت تبصرے کئے۔ان کے تبصرے کتنے سخت تھے اسے صرف ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔چونکہ دفعہ356 کے حکم نامہ پر صدر جمہوریہ کے دستخط ہوتے ہیں اس لئے جسٹس جوزف نے یہ بھی کہا تھا کہ صدر جمہوریہ بھی خوفناک حد تک غلطی کرسکتے ہیں۔مودی حکومت کو بھی انہوں نے سخت لعن طعن کی تھی۔
اس کے بعد جب 2018 میں سپریم کورٹ کالجیم نے تین لوگوں کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی سفارش کی تو ایک نام جسٹس جوزف کا بھی تھا۔۔۔عام طورپر سپریم کورٹ میں کسی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ہی لایا جاتا ہے۔لیکن اس مرتبہ سپریم کورٹ نے جسٹس جوزف کے ساتھ سپریم کورٹ بار کی نمائندگی کے لئے خاتون وکیل اندو ملہوترا کے نام کی بھی سفارش کی تھی۔حکومت جسٹس جوزف سے اتنی خوفزدہ تھی کہ اندو ملہوترا کے تقرر کا اعلان کردیا اور جسٹس جوزف کی فائل روک لی۔۔۔جب سپریم کورٹ کے بعض ججوں نے اس پر اعتراض کیا تو ان کے نام کی فائل سپریم کورٹ کو واپس بھیج دی گئی۔۔۔اس پر چار ججوں نے چیف جسٹس سے کہا کہ وہ فل کورٹ کی میٹنگ بلائیں اور جسٹس جوزف کا نام دوبارہ حکومت کو بھیجیں۔کالجیم نے دوبارہ جسٹس جوزف کا نام حکومت کو بھیجا اور آخر کار جسٹس جوزف کی تقرری اُس وقت سپریم کورٹ میں کی گئی جب ان کی سینئرٹی گھٹ گئی۔ظاہر ہے کہ جسٹس اندوملہوترا کو ان سے چار مہینے پہلے حلف دلایا گیا لہذا جسٹس جوزف پورے ملک کی ہائی کورٹوں کے چیف جسٹس کی رینک میں سب سے سینئر ہونے کے باوجود سپریم کورٹ میں ایک بالکل نئی جج (اندو ملہوترا) سے بھی جونئر ہوگئے۔ یہی نہیں جسٹس اندرا بینرجی اور جسٹس ونیت سرن بھی ان سے سینئر ہوگئے ۔
بہرحال اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔اب تک مرنے والوں کی تعداد 54 ہوگئی ہے۔لوگ علاج کے دوران بھی ہسپتالوں میں مر رہے ہیں۔اس ضمن میں 11زخمیوں کے مرنے کی اطلاع ہے۔شو وہار میں سب سے زیادہ تباہی وبربادی ہوئی ہے۔وہاں لوگوں کو اپنے جلے ہوئے مکانوں اور دوکانوں کو دیکھنے کے لئے جاتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے۔۔ یہاں تک کہ جمال الدين کی میت لے کر اس کے اہل خانہ شو وہار کے مکان میں جانے کو تیار نہ ہوئے۔۔ اس کے بھائی نے کہا کہ "وہاں بہت خطرہ ہے’ میں وہاں بھائی کی میت لے کر نہیں جاؤں گا۔۔” بہت سے متاثرین کے مطابق لٹھ بردار غنڈے اب بھی گھوم رہے ہیں۔۔شو وہار میں 27 فروری کو 27 سالہ جمال الدین کا قتل ہوا ۔۔جبکہ اس تاریخ میں پولیس کا دعوی تھا کہ سب کچھ نارمل ہوگیا ہے اور لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ جمال الدین اور ان کے اہل خانہ فساد والی رات کو کچھ پہلے ہی رشتہ داروں کے یہاں منتقل ہوگئے تھے۔ان کے پیچھے فسادیوں نے ان کے مکان کو لوٹ کر برباد کردیا۔27 فروری کو جمال الدین اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ اپنا مکان دیکھنے جارہا تھا کہ راستہ میں غنڈوں نے روک لیا اورنام پوچھ کر مارڈالا۔اس سے پوچھاتھا کہ یہاں کیا کرنے آئے ہو۔جمال الدین نے جب بتایا کہ میں اپنے لٹے پٹے مکان کو دیکھنے آیا ہوں تو غنڈے اس پر ٹوٹ پڑے۔۔۔اس کے بھائی نے یہ منظر دیکھ کر اپنا نام راجو بتادیا۔لیکن غنڈوں کو یقین نہ ہوا اور انہوں نے اس سے کچھ اشلوک سنانے کے لئے کہا جو وہ نہیں سنا پایا۔اس پر انہوں نے اسے خوب زدوکوب کیا لیکن وہ کسی طرح بچ کر بھاگ نکلا۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ کے تین سابق جج‘ جسٹس اے کے پٹنائک‘کورین جوزف اور وکرم جیت سین نے شو وہار کا دورہ کیا’ وہ سب سے پہلے اولیاء مسجد گئے۔۔۔اس مسجد کو شرپسندوں نے بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ایک ہندو صحافی کی رپورٹ کے مطابق فساد میں کل 19مسجدوں کو نقصان پہنچا ہے۔۔۔جسٹس جوزف نے پوچھا کہ جو لوگ ان بلڈنگوں میں رہتے تھے وہ کہاں گئے۔انہیں بتایا گیا کہ بہت سے لوگ اپنے رشتہ داروں کے یہا ں چلے گئے ہیں اور کچھ ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔۔۔اس کے بعد یہ تینوں دہلی وقف بورڈ کے زیر اہتمام منعقد ریلیف کیمپ گئے اور وہاں لوگوں کے احوال سے واقفیت حاصل کی۔۔جسٹس پٹنایک نے کہا کہ جو کچھ یہاں ہوا ہے اس کا تو عدالتوں کو دور دور تک کچھ بھی اتہ پتہ نہیں۔۔۔صحیح صورت حال جاننے کے لئے ان میں سے (ججوں میں سے) کسی کو یہاں آنا چاہئے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بناکر حملے کئے گئے ہیں۔بڑے پیمانے پر بربادی ہوئی ہے۔“
اس فساد کے چند نئے نکات بھی ہیں۔مثال کے طورپر:
1- دہلی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں جگہ نفرت بھری تقریروں کے معاملات کی سماعت ہورہی ہے۔۔۔
2- اس فساد میں بی جے پی کے مسلم لیڈروں کو بھی نہیں بخشا گیا۔نہ پولس نے ان کی کوئی مدد کی اورنہ پارٹی نے۔ (اس سلسلہ کی تفصیلات چوتھی قسط میں ملاحظہ کیجئے گا۔)
3- فساد کے معاملات کی سماعت میں بھی عدالتیں مختلف مراحل میں شامل رہیں۔ایک سے زیادہ بنچوں میں سنوائی ہوئی اور ہدایتیں جاری ہوئیں۔یہ ہدایات اب بھی جاری ہورہی ہیں۔
4- دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس سدھارتھ مردل اور جسٹس آئی ایس مہتا کی بنچ نے Heabeus Corpus یعنی حبس بے جا کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے پولس کو ہدایت دی کہ مختلف ہسپتالوں میں پڑی ہوئی تمام غیر شناخت شدہ لاشوں کی تفصیلات ویب سائب پر اپ لوڈ کریں۔۔۔یہ ہدایت 25 سالہ نوجوان حمزہ کے معاملہ میں جاری کی گئی جو غائب ہے۔محمود پراچہ نے یہ رٹ دائر کی تھی۔اس ہدایت سے بہت سے لوگوں کو راحت ملے گی جو اپنے پیاروں کی گمشدگی کے تعلق سے پریشان وسرگرداں ہیں۔۔۔ تازہ اطلاع یہ ہے کہ حمزہ کی لاش ایک نالے سے برآمد ہوگئی ہے۔
5- دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس نجمی وزیری کی بنچ نے ایم سی ڈی کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ فساد زدہ علاقوں میں 500 درخت لگائے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے انٹر نیٹ پر فساد زدہ علاقوں کو دیکھا ہے جہاں دور درو تک درخت تو کیا گھانس تک نظر نہیں آئی۔
6- فسادات کی تحقیقات کے لئے جو دو SIT بنائی گئی ہیں ان میں سے ایک کا ذمہ ڈی سی پی راجیش دیو کو دیا گیا ہے جو الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن سے ڈانٹ پھٹکار کھاچکے ہیں اور جنہیں الیکشن ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ انہوں نے میڈیا کو بتایا تھاکہ شاہین باغ میں گولی چلانے والے کاتعلق عام آدمی پارٹی سے ہے۔اب وہی انکت شرما کابھی کیس دیکھ رہے ہیں جس میں ’AAP ‘ کے کونسلر طاہر حسین کو ملوث بتایا جارہا ہے۔
مشرقی دہلی کے فسادات پر بین الاقوامی ردعمل بھی تیزی کے ساتھ آیا ہے۔برطانیہ‘امریکہ‘ایران اور ترکی نے سخت بیانات جاری کئے ہیں ۔۔۔۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار بننے کے لئے کوشاں برنی سینڈرس نے بہت سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فسادات کو مسلمانوں کی نسل کشی سے تعبیر کیا ہے۔ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف اور سپریم لیڈرخامنہ ای نے بھی سخت الفاظ میں حکومت کو متنبہ کیا ہے۔۔۔ اس پر حکومت ہند نے سفیر ایران کو بلاکر سخت ناراضگی ظاہر کی ہے۔برطانیہ نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ ہمارے تجارتی تعلقات ہیں مگر اقلیتوں کے انسانی حقوق کی قمیت پر نہیں ۔۔۔۔ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں پارٹی بننے کے لئے درخواست بھی دائر کی ہے۔۔۔ شاید آزاد ہندوستان میں مسلم کش فسادات کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے۔ (جاری)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)