Home تجزیہ دہلی الیکشن کا رزلٹ سیکولرزم کے تئیں ملک کا مزاج بتائے گا-مسعود جاوید

دہلی الیکشن کا رزلٹ سیکولرزم کے تئیں ملک کا مزاج بتائے گا-مسعود جاوید

by قندیل

 

انتخابات ہوتے رہتے ہیں اور کبھی کوئی پارٹی جیت کر حکومت بناتی ہے اور کبھی کوئی۔ جمہوری نظام حکومت اور متعدد پارٹی نظام سیاست کی یہی تو صفت اور خوبصورتی ہے۔تاہم اس کی ایک کریہہ شکل بھی ہے اور وہ ہے سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ہر اخلاقی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہو کر by hook or crook اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد۔پچھلے کئی سالوں سے بالخصوص ١٩٩٠— ١٩٩٢ سے مذہب اور ذات برادری کی بنیاد پر سماج کو تقسیم کر کے ووٹرز کو لام بند کرنا انتخابی مہم کا جزءِ اساسی main ingredient بن گیا ہے۔ گرچہ مذہب کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کی شروعات بی جے پی نے کی مگر اس سے پہلے اور اس دوران ذات برادری کے نام پر لام بند کرنے کا کام دوسری پارٹیاں بھی کرتی رہی ہیں۔
١٩٩٠ سے قبل انتخابی مہم میں پارٹیاں اپنی ماضی کی حصول یابیوں اور مستقبل کے وعدوں پر ووٹ مانگتی تھیں۔ تجزیہ نگار ان پارٹیوں کے کارناموں اور عوام دوست اور عوام مخالف پالیسیوں کو نمایاں کر کے رائے عامہ بناتے تھے۔ لیکن اس کے بعد خصوصاً ٢٠١٤ کے انتخابات کے وقت سے بی جے پی نے واضح فرقہ وارانہ بیانیہ اور کھلے عام اور اشارے کنائے میں مخصوص فرقہ کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
ہندوستان میں ۲۹ ریاستیں اور ٩ مرکز کے تحت ” نیم ریاستیں” یونین ٹیریٹوری ہیں۔دہلی ایک نیم ریاست ہے پارلیمنٹ میں آبادی کے تناسب کے مطابق اس کے صرف سات ممبران ہیں۔ نومبر ٢٠١٢ میں عام آدمی پارٹی وجود میں آئی – ٢٠١٤ اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے ٧٠ میں سے ٦٧ نشستیں جیت کر حکومت بنائی اور بہت حد تک تعلیم وصحت اسکول، محلہ کلینکس بجلی پانی سڑکیں سیوریج کے میدان میں نمایاں کام کیا اور اسی لئے ڈنکے کی چوٹ پر اروند کیجریوال اپنی حکومت کے کاموں کی بنیاد پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔دہلی میں حکومت تو بی جے پی کی نہیں تھی لیکن مرکز میں بی جے پی کی حکومت یعنی ریاست دہلی کی نصف حکومت اور بی جے پی کی سربراہی میں میونسپل کارپوریشن کی کارکردگی قطعاً ایسی نہیں رہی کہ اس کی بنیاد پر ووٹ مانگ سکے۔ اس لئے اس پارٹی کے پاس مذہبی فرقہ واریت کا جو آسان اور مجرب نسخہ ہے اسے ہی اپنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
الیکشن تو ہوتے رہتے ہیں۔ چھ سال قبل تک دہلی حکومت کی سربراہی کانگریس کی شیلا دکشت نے کی تھی اور بلا شبہ دہلی میں ان کے دور اقتدار میں تعمیراتی، ترقیاتی اور ماحولیاتی کاموں کی ایک لمبی فہرست اور زندہ مثالیں ہیں مگر انا ہزارے کی کرپشن مخالف تحریک نے ایک طرف نہ صرف مرکز سے بلکہ دہلی ریاست سے بھی کانگریس کو برطرف کیا اور دوسری طرف اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی کو جنم دیا۔
اب ایک بار پھر دہلی کی عوام کا سخت امتحان ہے اس لئے نہیں کہ حسب معمول وہ ووٹ دے گی اور کسی ایک پارٹی کی یا گٹھ بندھن حکومت بنے گی بلکہ اس لئے کہ اس وقت دہلی الیکشن کے نتیجے کا پیمانہ عام نہیں خاص ہونے والا ہے۔ اور وہ خاص بیرومیٹر یا تھرمامیٹر بصورت مجموعی ملک کے مزاج کے بارے میں بتاۓ گا کہ آیا ہندوستان اور ہندوستانیوں کی اکثریت اس ملک کے دستور بحیثیت مجموعی اور بالخصوص سیکولرازم میں پختہ یقین رکھتے ہیں یا مذہبی فرقہ واریت کی، علانیہ یا پس پردہ، تائید کرتے ہیں۔ دہلی دارالحکومت ہے یہاں ملک کی تقریباً تمام ریاستوں کے لوگ رہتے ہیں اور ظاہر ہے ان میں اکثریت پڑھے لکھے لوگوں کی ہے۔ بین الاقوامی طور پر دنیا کی تقریباً ہر نیوز ایجنسی اور چینلز موجود ہیں اور دنیا کے ہر ملک کے سفارتخانے موجود ہیں ۔ اس وجہ سے دہلی اور اس کے انتخابات اہمیت کے حامل ہیں۔بی جے پی اپنا کوئی کارنامہ کا ذکر کرنے کے بجائے شاہین باغ اور پاکستان کے نام پر اور مخصوص فرقے کو نشانہ بنا کر ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ فیصلہ دہلی کے ووٹرز کو کرنا ہے کہ ان کے لئے سی اے اے این آر سی اور این پی آر اہم ہیں یا دہلی کی تعمیر و ترقی ؟
اکثریتی فرقہ کے لوگوں کے لئے سی اے اے این آر سی اور این پی آر کا نافذ ہونا کیوں باعث تسکین ہے؟ اگر نہیں تو اس نۓ ایکٹ میں مذہب کی بنیاد پر جو تفریق ہے اس کی حمایت کیوں ؟ دہلی والے اس نۓ ایکٹ اور اس سے مربوط این آر سی اور این پی آر ، ابھی یا بعد میں، سے جو لوگ متاثر ہونے والے ہیں ان کے ساتھ ہمدردی اور سالیڈریٹی کا عندیہ اپنے ووٹ سے دیں گے۔ دہلی، جو اپنے آپ میں ایک مینی ہندوستان ہے، کے پڑھے لکھے سیاسی طور پر باشعور ووٹرز ہندوستان کے مقدس دستور، سیکولرازم، فرقہ وارانہ رواداری peaceful coexistence میں یقین رکھتے ہیں یا نہیں اس کا جواب ١١ فروری کو ملے گا۔
تاہم بی جے پی دہلی اسمبلی انتخابات میں جیت شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی اور این پی آر کے حق بجانب ہونے کی سند کے طور پر پیش کرے گی ۔ دوسری بات یہ کہ ہندوستان کی سیاست میں دوبارہ کوئی پارٹی ” پارٹی ذرا ہٹ کے” بننے کی کوشش نہیں کرے گی۔ کوئی پارٹی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کی اہل نہیں ہوگی۔ پورے ملک میں سیاست ایک ہی ڈگر یعنی مذہب ذات برادری اور علاقائیت پر ہوگی۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment