Home ستاروں کےدرمیاں دِوانہ مر گیا آخر کو – محمد ہاشم خان

دِوانہ مر گیا آخر کو – محمد ہاشم خان

by قندیل

(سینیئر صحافی اور دانشور مرحوم عبدالرحمن صدیقی کو خراج عقیدت)

رحمان صاحب مرگئے، بس یوں اچانک، دفعتاً، کسی کو پریشان کئے بغیر راہی عدم ہوگئے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ قسطوں میں قتل کئے گئے ہیں، ممکن ہے کہ یہ درست ہو لیکن اب اس جھنجھٹ میں پڑنے سے کیا حاصل کہ وہ مرے یا ہر نفس رفتہ کے ساتھ قتل کئے گئے، اصل مقدر رزق خاک ہونا تھا سو ہوگئے۔

کون رحمان صاحب؟ نہیں جانتے؟ ارے وہی جو ابھی ہمارے ساتھ تھے، لمبے پریشان بالوں اور گھنی گھنیری مونچھوں والے رحمان صاحب —بال جو ان کی منتشرالخیالی کی تعبیر تھے اور مونچھیں جو ہر فکر کو دھوئیں میں اڑانے کا اظہاریہ تھیں۔سلیٹی اور سلونی پیشانی، سَرو قد، شانے ہلکے سے بیٹھے ہوئے جو ناف تک اندر برماتے ہوئے بوجھ اور موج میں آئے ہوئے رخش عمر یا پھر دونوں کے مشترک تقاضوں کے غماز تھے، توند ہودی کی طرح پیند اور دہانے کی طرف سے تنگ اور درمیان سے باہر نکلی ہوئی، آدھی میلی اور آدھی صاف، ڈھیلی ڈھالی جینس اور اسی سے ملتی جلتی قمیص۔ جب اِن کرکے نکلتے تھے تو سراپا کچھ یوں بنتا تھا جیسے دو نصف چیزوں کو جوڑتے وقت ہاتھ میں ہلکی سی لرزش آ جائے۔ جب وہ کسی بات پر ہنستے تھے تو لگتا تھا کہ شیطان مسکرا رہا ہے اور ہماری منافقت کو بنظر استحسان خراج پیش کر رہا ہے، اور جب وہ آپ کی کسی توجہ طلب بات پر سر اٹھا کر استفہامی انداز میں مسکراتے ہوئے ‘ہاں؟’ کہتے تو یہ طے کرنا مشکل ہوجاتا تھا کہ ان کا چہرہ مونا لیزا کی مسکراہٹ کا نیا ویری ایشن ہے یا اس میں قدیسہ تیریزا کی روح حلول کر گئی ہے۔

اب تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ میں کس رحمان صاحب کی بات کر رہا ہوں۔ وہی رحمان صاحب جو للا للا لوری میں کہہ رہے ہیں ‘یہ ہوٹل بھیڑ بھاڑ کے اس وقت میں بھی کتنا ویران ہے، بالکل دانشور لگتا ہے’۔ وہی رحمان صاحب جو میری دو سال قبل کی ایک پوسٹ میں کہہ رہے ہیں ‘ہاشم یہ مت پوچھو کہ تنخواہ ملی یا نہیں، بس اتنا جان لو کہ ہمارا پیسہ بہت مقدس کام میں خرچ ہو رہا ہے۔ چار ماہ کی تنخواہ باقی ہے اور مالکان ہر ماہ بلا ناغہ عمرہ وغیرہ کرتے رہتے ہیں، اگر تنخواہ دے دیتے تو وہ پیسہ اب تک پسینہ، پیشاب اور پاخانے کے راستے صرف ہوچکا ہوتا۔ اس لئے تنخواہ نہ ملنے پر کوئی تکلیف نہیں کہ ہمیں نہیں تو کم از کم ہمارے پیسوں کو مکہ و مدینہ کی زیارت مقدسہ نصیب ہو رہی ہے۔ہاشم! ایک وقت آتا ہے جب مظلوم کو اپنے ظالم سے نہ صرف ہمدردی ہوجاتی ہے بلکہ بے انتہا محبت ہوجاتی ہے۔ ہم اسی قبیلے کے لوگ ہیں۔’۔ رحمان صاحب اسے اسٹاک ہام سنڈروم کہتے ہیں۔

قاتل سے محبت کا سلسلہ مرحوم اختر حسن کی موت سے شروع ہوا۔ 2001 میں وہ واپس اردوٹائمز میں آئے اور ان کے چند ماہ بعد مجھے عالم صاحب کے معاون کے طور پر رکھا گیا۔ رحمان صاحب اس وقت چالیس کے پیٹے میں داخل ہو چکے تھے، شادی نیز بیٹے کی پیدائش کے بعد سدھر چکے تھے اور چاہتے تھے کہ اب زندگی ایک در پر عزت سے صرف ہوجائے سو انہوں نے اپنی صف میں نزولی ترتیب میں بحران قائم کرنے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ جتنا زیادہ بحران ہوگا، اتنی ہی زیادہ میری نوکری محفوظ رہے گی۔ وہ میرے بارے میں صحیح اندازہ نہیں لگا سکے۔ ان کو لگا کہ یہ بائس چوبیس سال کا چھوکرا (ممبئی کی زبان میں غیر تجربہ کار بانکا چھورا لونڈا) ہے اس کو کیا آتا ہوگا اور یہ کب تک ٹکے گا۔ ملازمت کے تیسرے روز جب میں دوپہر تین بجے کے قریب دفتر (پرانی آفس) پہنچا اور انہیں کام میں منہمک دیکھا تو میں نے کہا کہ سر آپ اس پوز میں مارکیز دکھ رہے ہیں۔ انہوں نے سر اٹھا کر استفہامی انداز میں پوچھا ‘مارکیز؟’۔ میرا اشارہ گبریل گارسیا مارکیز کی طرف تھا۔ اب چونکنے کی باری ان کی تھی۔ عالم حیرت و استعجاب میں اوپر سے نیچے تک مجھے دو چار بار دیکھا۔ جو کچھ لکھ رہے تھے اسے سمیٹ کر ایک طرف رکھا اور پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا تو تم مارکیز کو جانتے ہو۔ اس وقت تک میں سارتر، فینن، مارکیز اور ملان کندرا کو بہت حد تک پڑھ چکا تھا۔ یہ ہمارے تعلق کا آغاز تھا۔ میں نے جو اسٹیٹمنٹ دینا چاہا تھا وہ دے دیا تھا۔ رحمان صاحب نے مذاقاً کہا کہ ‘مجھے اب تم سے سنبھل کر رہنا پڑے گا’۔ کچھ ماہ بعد مرحوم حنیف اعجاز انتقال کر گئے اور اس کے بعد بالائی صف بالکل صاف ہوگئی اور رحمان صاحب اور ہماری جوڑی بنی، اس وقت میری منگنی ہو چکی تھی۔ رحمان صاحب نے واپس بحران قائم کرنے کی کوشش کی۔ جب ہم دونوں بسم اللہ ہوٹل میں چائے پی رہے تھے تو انہوں نے کہا "تمہارا اطمینان دیکھ کر مجھے خوف آتا ہے، یہ تمہاری مطمئن ہونے کی عمر نہیں ہے۔ جب تک تم یہاں سے چلے نہیں جاوگے یا تمہیں نکال نہیں دیا جاتا تب تک میں کوشش کرتا رہوں گا”۔ انہوں نے بات بہت ایمانداری سے کہی تھی سو میں نے بالکل برا نہیں مانا صرف اتنا ہی کہا کہ اگر نوکری چلی گئی تو میری شادی خطرے میں پڑ جائے گی۔

خیر!مجھے عالم نقوی صاحب لے کر آئے تھے اور رکھنے نہ رکھنے کا اختیار عالم صاحب کے پاس تھا سو رحمان صاحب نے جب ابتدا میں ایک دو بار معین بھائی مرحوم (مالک) سے میری شکایت کی تو عالم صاحب نے انہیں ڈانٹ دیا اور اس کے بعد وہ سدھر گئے۔ پھر ہوا یوں کہ جب تک ہم ساتھ تھے، ایک دوسرے کے رازدار تھے، ایک دوسرے کی طاقت تھے اور بلاشبہ ایک دوسرے کے خلاف بھی تھے۔ ان کا 80 فیصد کام میں کر دیتا تھا اور ان کے اوپر زیادہ بوجھ نہیں ہوتا تھا۔ پھر جب میں نے 2007 کے آخر میں اخبار چھوڑ دیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور اس کا مجھ سے برملا اظہار بھی کیا۔ رحمان صاحب کے کہنا تھا کہ تم اتنے باصلاحیت آدمی، اس قدر کم پر مطمئن کیسے ہوسکتے ہو۔ یہ جرم ہے۔ اس کے بعد تعلقات اور زیادہ بہتر ہوگئے۔ میں ان کا کنفیشن باکس تھا۔رحمان صاحب اکثر مجھ سے پوچھتے تھے کہ یہ تم نے ضمیر کو مطمئن کرنے کا ہنر کہاں سے سیکھا؟ تم واحد آدمی ہو جس سے کچھ کہتے ہوئے، اچھی بری کوئی بھی بات شیئر کرتے ہوئے، کبھی خوف میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اور میرا یہی جواب ہوتا تھا "رحمان صاحب ایمان کم زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ ایمان کا کم یا زیادہ ہونا اتنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا بڑا مسئلہ ایمان کا نہ ہونا ہے اور الحمد للہ آپ کے اندر ایمان ہے۔ یہ ایمان ہی کی طاقت ہے کہ آپ اعتراف کرتے رہتے ہیں۔”

پس میں جس عبدالرحمان صدیقی کی بات کر رہا ہوں وہ حالات سے لڑ جھگڑ کر، تھک ہار کر یہاں تک پہنچا تھا اور اب اتنا تھک چکا تھا کہ کیا غیرت اور کیا عزت نفس، کیسی ادارت اور کیسی رفعت و شوکت، کون سے حروف اور کیسی حرمت، کون سی صحافت اور کون سا وقار، غرور کا سودا کب ہوا کچھ خبر نہیں، اب بس ایک زیست بچی ہے، رنگ حسن و جمال سے خالی، سو یہ بھی کس لیے؟ پندار کا صنم کدہ مسمار ہوا تو خواہشوں اور محرومیوں، مغالطوں اور غلط فہمیوں، خودی و بے خودی، شعور و آگہی اور کرب و خلش کے تراشیدہ اصنام ایک ایک کرکے اوندھے منہ فرش پر گرے ملے اور اب انہیں چوم چاٹ کر آگے بڑھ جانا تھا۔ عمر کی نقدی ختم ہو رہی تھی، دستار میلی اور پرانی ہو چکی تھی، سکہ کھوٹا تھا چلا نہیں سو رحمان صدیقی نے بھی وہی کیا جو جہالت پسند سماج کو مطلوب تھا۔یہ ان کی زندگی کے ربع آخر کا عشرہ تھا اور مکمل شکست خوردہ ذہنی کیفیت جی رہے تھے۔

اب رحمان صاحب اس حقیقت سے بے نیاز ہوگئے تھے کہ وہ کسی اخبار کے اگزیکیوٹو ایڈیٹر ہیں۔ اب وہ مقامی سیاست دانوں، کارپوریٹروں، ورکروں سے لے کر چھوٹے بڑے دھنا سیٹھوں، سفید پوش بھیڑیوں تک ہر اس کس و ناکس کے سامنے ناصیہ فرسا ہوئے جو انہیں خریدنے کی بے شرمی رکھتا تھا۔ اور قیمت کیا تھی ایک دو پیالہ کافی، دو سو، پانچ سو، ہزار روپے یا وقت اور حالات۔ بے چارے انتہائی شریف آدمی تھے، دنیا سمجھتے تھے لیکن دنیا داری نہیں آتی تھی، سو وہ ہر چشم خریدار میں امید سے کم ہی آئے۔ پیسے وہ اپنے کام کے لیتے تھے اور کام کیا تھا۔ کسی کی پروفائل تیار کردی، پریس ریلیز بنا دیا، تقریر لکھ دی، نکات بتا دیئے، کتابچے تیار کر دیئے، پمفلٹ کا مواد مہیا کر دیا، مضمون لکھ دیا، تشہیری لٹریچر تیار کردیا اور تو اور یہاں وہاں سے اٹھا کر، ادھر ادھر سے کچھ ملا کر وہ آپ کو صاحب کتاب بھی بنا دیتے تھے (اس جرم میں میں شریک رہا ہوں)۔ وہ استحصال کئے جانے کے مواقع ڈھونڈتے رہتے تھے اور لوگوں نے کیا بھی اور وہ شوق سے ہوئے بھی۔

سوال یہ ہے کہ وہ یہ سب کرتے کیوں تھے، جواب یہ ہے کہ بس یہی ایک سوال مت پوچھئے۔ وہ اس قدر معمولی پیسوں کے عوض اتنی سب اذیتیں کیوں برداشت کرتے تھے؟ اتنا سینئر صحافی، اردو کے اتنے بڑے اخبار کا مدیر؛ وہ اذیت پسند کیسے ہوگیا؟ شان مدیری سے محروم کیسے رہا؟ یہ بے نیازی کیوں نہیں پیدا ہوئی کہ میں ایک صحافی ہوں، ایڈیٹر ہوں اور یہ میری شان کے خلاف ہے۔ تو جواب سن لیجئے حضور کہ اردو اخبارات کے مالکان اپنے مدیروں کو بھنگی بنا کر رکھتے ہیں۔ اگر کسی مدیر کے اندر یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ واقعی میں ایڈیٹر ہے تو یہ خیال نہیں بلکہ ملازمت کی موت کو دعوت دینا ہے۔ وہ صرف نام کے مدیر ہوتے ہیں، ان کے اختیار میں کچھ نہیں ہوتا۔ان کا اصل کام مالکان کی غلاظت صاف کرنا ہوتا ہے۔

آخری دنوں میں وہ اپنے بیٹے کی شادی کو لے کر کافی پریشان تھے۔کہنے لگے کہ ہاشم اب اس سے زیادہ شرم کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ اپنے بیٹے کی شادی نہیں کر پا رہا ہوں۔ شادی میں کم از کم تین، ساڑھے تین لاکھ روپے خرچ ہوں گے۔ سات آٹھ ماہ سے تنخواہ رکی ہوئی ہے۔ لڑکی والوں کی طرف سے دباو بڑھتا جا رہا ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ادارہ آپ کی کوئی مدد نہیں کر رہا ہے، کہنے لگے کہ انہوں نے کہا تو ہے لیکن اب تک کچھ کیا نہیں ہے، آجکل پر ٹالے جا رہے ہیں۔پھر میں نے ان سے دوسرا سوال پوچھا کہ شہر میں اتنے سارے امراء و روؤسا ہیں، ایک دو سے کہہ کر دیکھیں۔ آخر اپنے سماج کے ایک جینوئن دانشور کی مدد یہ نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔ فرمانے لگے کہ کوشش کی تھی بارور نہیں ہوئی، یہ ہماری حیثیت جانتے ہیں اور اسی حساب سے دست تعاون دراز کرتے ہیں۔

اب تو آپ لوگوں کو معلوم ہی ہوگیا ہوگا کہ کون سے رحمان صاحب مرے ہیں۔ وہ رحمان صاحب نہیں مرے ہیں جو کسی اخبار میں کام کر رہے تھے، وہ رحمان صاحب تو بہت پہلے مر چکے تھے۔ اس بار جو عبدالرحمان صدیقی مرا ہے وہ ایک نواجون بیٹے کا باپ تھا اور جس کا خیال تھا کہ اس کا سماج ابھی اتنا بے حس نہیں ہوا ہے۔ جب تم اپنے دانشوروں کو قتل کرو گے تو زوال و ابتذال ہی تمہارا مقدر ہوگا۔ یہی نوشتہ دیوار ہے۔ اب آگے اور کچھ نہ لکھنے کی ہمت ہو رہی ہے اور نہ ہی لکھنے کے لیے کچھ بچا ہے۔ اب صرف دل لہو ہو رہا ہے۔

غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی

دِوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری

(رام نرائن موزوں)

You may also like