Home نقدوتبصرہ دیوان غالب کا عروضی مطالعہ :ایک منفرد کتاب – طیب فرقانی

دیوان غالب کا عروضی مطالعہ :ایک منفرد کتاب – طیب فرقانی

by قندیل

اس کتاب کی اہمیت کیا ہے؟ جب یہ کتاب میرے ہاتھوں میں آئی اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھا تو جو سب سے پہلا سوال میرے ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ اس کتاب کی اہمیت کیا ہے؟ کیوں کہ اس جیسی کوئی دوسری کتاب اگر پہلے سے موجود ہو اور اِس میں کسی طرح کا اضافہ یا نیا نکتہ نہ ہو تو اسے غیر مفید تکرار کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں۔ بہ قول شمس الرحمن فاروقی "غالب کے بارے میں اب کچھ کہنا چبائے ہوئے نوالوں کو دوبارہ چبانا ہے” ۔

اس صورت میں اس تحریر کے عنوان میں "منفرد" لفظ کا جواز پیش کرنا میرے لیے سب بڑا چیلنج ہے۔ خاص طور سے جب کہ میں نے اسی کتاب سے یہ جانا کہ اس سے ملتی جلتی ایک کتاب ١٩٨٤ء میں منظر عام پر آجکی ہے۔

اس کتاب میں عرض مصنف کے علاوہ دو تقدیمی مضامین بھی شامل ہیں. پہلا احسان قاسمی کا اور دوسرا حقانی القاسمی کا۔ دونوں حضرات نے اس جیسی دوسری کتاب کا ذکر کیا ہے۔ احسان قاسمی لکھتے ہیں کہ یہ کوئی نیا کام نہیں ہے بلکہ اس سے قبل صغیرالنساء بیگم نے اور دوسرے لوگوں نے یہ کام کیا ہے۔ حقانی القاسمی نے صغیرالنساء کے علاوہ قاضی عبدالصمد صارم کا حوالہ بھی دیا ہے جنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ غالب کی شاعری میں فنی سقم ہے۔ حقانی صاحب نے اپنے ایک دوسرے مقالے "عبدالرحمن بجنوری کا مقالہ محاسن کلام غالب (غالب تنقید کا ایک نیا دریچہ) میں صغیرالنساء بیگم کے ساتھ رضوان ندوی کی زیر بحث کتاب کا ذکر کیا ہے۔

ہاں تو یہ بتانا رہ گیا تھا کہ” دیوان غالب کا عروضی مطالعہ" نامی کتاب رضوان ندوی کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب ٢٠٢٢ ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے شایع ہوئی ہے۔ رضوان ندوی کون ہیں؟ تحریر کے اسی حصے میں یہ بتادینا بھی ضروری سمجھتا ہوں تاکہ مکمل تحریر پڑھنے یا نہ پڑھنے کے بارے میں آپ کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔

رضوان ندوی قاضی ٹولہ، بھاگ طاہرہری پور ، امور، پورنیہ، بہار، ہند، سے تعلق رکھتے ہیں. دینی تعلیم کی تکمیل ندوۃ العلماء لکھنؤ سے کی اور پھر عصری تعلیم بھی حاصل کی. فی الوقت وہ بہار گورنمنٹ ہائی اسکول تیلتا ضلع کٹیہار میں اردو کے مدرس ہیں۔ وہ علمی و ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں. ان کے دادا قاضی جلال ہری پوری اور چچیرے پردادا قاضی نجم ہری پوری اردو، فارسی کے باکمال شاعر تھے۔ ان دونوں شخصیات نے اردو فارسی دونوں زبانوں میں اتنا ادبی سرمایہ چھوڑا ہے کہ جب رضوان ندوی نے انھیں تدوین و ترتیب دے کر منظر عام پر لانا شروع کیا تو ان کی تعداد نو تک پہنچ گئی. جس میں اردو کے ساتھ فارسی شعری مجموعہ بھی ہے اور خطوط کا مجموعہ بھی. انھوں نے اپنی خاندانی شعری وراثت کو صرف شعری مجموعوں کی شکل میں ہی پیش نہیں کیا بلکہ ان دونوں حضرات کے اردو فارسی کلام کا عروضی تجزیہ بھی کیا. غالبا یہی وہ موڑ ہے جس کی تحریک سے زیر نظر کتاب وجود پذیر ہوئی. یعنی انھوں نے دیوان غالب کا عروضی مطالعہ پیش کرنے سے قبل تین شعرا (جلال ہری پوری، نجم ہری پوری اور پروفیسر طارق جمیلی) کے کلام کا عروضی مطالعہ پیش کیا ہے. تینوں ہی مقالے مختلف شکلوں میں شایع شدہ ہیں. نو کتابوں کی "تدوین و ترتیب” کے بعد یہ ان کی دسویں کتاب ہے جو ان کی پہلی "تصنیفی کاوش" ہے.

اس موضوع پر رضوان ندوی سے پہلے ایک ہی مربوط و مبسوط کتاب کا پتا چلتا ہے. وہ ہے صغیر النساء کی کتاب: "غزلیات غالب کا عروضی تجزیہ”. (غالب کے اردو کلام کے عروضی تجزیے یا مطالعے کے تعلق سے میری انتہائی محدود نظر میں صرف یہی دو کتابیں ہیں. میں نے غالب کی ببلیو گرافی دیکھی اور کچھ ادبی ویب سائٹ پر تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا. ایسے مکمل کام کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا. یہ باتیں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ اگر کوئی صاحب میرے علم میں اضافہ کردیں تو نوازش ہوگی.)

صغیر النساء بیگم کا تعلق دکن سے ہے، معروف ماہر لسانیات ڈاکٹر فہمیدہ بیگم ان کی دختر نیک اختر ہیں، ڈاکٹر فہمیدہ بنگلور یونی ورسٹی میں شعبۂ اردو کی ریڈر اور انجمن ترقی اردو بورڈ کی ڈائرکٹر رہیں. صغیر النساء کے بیٹے ڈاکٹر محمد نورالدین سعید بھی گورنمنٹ کالج بنگلور میں اردو کے معلم رہے. اس طرح یہ خانوادہ "ایں خانہ ہمہ آفتاب ست" قرار پاتا ہے.

جیسا کہ مذکور ہوا صغیر النساء بیگم کی کتاب کا نام "غزلیات غالب کا عروضی تجزیہ" ہے اس کتاب کو اردو کے ممتاز ناقدین نے سراہا اور اس پر تقدیمی تحریریں لکھیں. پروفیسر گیان چند جین نے قدرے تفصیلی اور شمس الرحمن فاروقی نے یک صفحاتی مختصر تحریر لکھی ہے. صغیرالنساء بیگم کی مذکورہ کتاب کی اہمیت و افادیت کے تعلق سے گیان چند جین لکھتے ہیں کہ صغیر النساء بیگم نے "غالب کی جملہ غزلوں کی تقطیع کر کے عروض میں تھوڑا دخل رکھنے والوں کو سہولت فراہم کی ہے ہو سکتا ہے وہ اسے پڑھ کر اور مصرعوں کی تقطیع پر انگلی پھیر کر عروض میں اور زیادہ درک و دخل پا جائیں۔ یہی اس کتاب کی افادیت ہے۔"

اسی طرح شمس الرحمن فاروقی نے اس کتاب کی اہمیت پر قدرے زیادہ زور دیتے ہوئے اس کام کو سراہا ہے اور لکھا ہے کہ انھیں "یقین ہے کہ اس کتاب کی پذیرائی علمی اور طالب علمانہ، دونوں حلقوں میں یکساں ہوگی۔"

اس سے یہ تو سمجھا جا ہی سکتا ہے کہ اس طرح کے کام کی اہمیت و افادیت کیا ہے. لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہی اہمیت و افادیت رضوان ندوی کی کتاب کی بھی مانی جائے یا اس سے کم یا اس سے زیادہ. اس سوال کا جواب ہمیں تبھی حاصل ہوگا جب دونوں کتابوں کے مندرجات پر تھوڑی روشنی ڈال لی جائے اور کسی قدر تقابل کرلیا جائے.

*غزلیات غالب کا عروضی مطالعہ (مواد، ترتیب، پیش کش اور طریقہ کار)

"غزلیات غالب کا عروضی مطالعہ " میں گیان چند جین اور شمس الرحمن فاروقی کی تحریروں کے علاوہ قریب چھ صفحات پر مشتمل ایک مضمون صغیرالنساء بیگم کے فرزند ڈاکٹر محمد نورالدین سعید کا ہے، اس مضمون میں انھوں نے فن عروض کی چند بنیادی باتیں جیسے بحر کی تعریف، ارکان بحر کی تفہیم، دیوان غالب میں مستعمل بحروں کی نشان دہی اور زحاف کی صورتوں پر گفتگو کی ہے.

عرض مصنف کے تحت مصنفہ نے دو صفحات میں یہ بتایا ہے کہ انھوں نے اس کام کا خاکہ 1941 میں بنایا تھا اور کام بھی کیا لیکن مسودے کی اشاعت کی نوبت نہیں آئی، بعد میں ایک صاحب نے مسودے کا غبن کرلیا. ملازمت سے سبک دوشی کے بعد انھوں نے اس کام کو از سر نو کیا جو کتابی شکل میں شایع ہوا. 9 صفحات پر مشتمل مقدمے میں انھوں نے عروض کی اہمیت اور کلاسیکی شعرا کی عروضی مہارت کا اثبات کرتے ہوئے ان بحروں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جو غالب کی غزلوں میں مستعمل ہوئے ہیں. وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ کس بحر میں غالب نے کتنے اشعار کہے اور غالب کی غزلوں کے کل 1456 اشعار کا اس بحر میں کہے گئے اشعار کی شرح (فی صد) کیا ہے. مثلاً بحر رمل میں غالب نے سب سے زیادہ اشعار کہے جو ان کی غزلیات کا ایک تہائی حصہ ہے. غالب کی غزلوں میں مستعمل بحروں کے تعلق سے وہ کہتی ہیں کہ غالب نے کل نو بحریں اپنی غزلوں میں استعمال کی ہیں. نویں بحر بحر مقتضب ہے. کتاب کا یہ حصہ سب سے زیادہ توجہ طلب ہے. ان سے قبل تک سبھی ماہرین عروض نے غالب کی غزلوں کے لیے آٹھ ہی بحریں قرار دی تھیں. انھوں نے سید مبارک علی اور علامہ اخلاق دہلوی کے خیال پر تنقید کی ہے جن کا خیال تھا کہ غالب کی غزلوں میں صرف آٹھ بحریں مستعمل ہوئی ہیں اور یہ کہ بحر مقتضب اردو میں مروج و مقبول نہیں ہے. انھوں نے عبد الروف عشرت اور نجم الغنی کے تقطیع کردہ اشعار سے اپنی بات مدلل کی ہے.

صغیرالنساء اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ جن لوگوں نے غالب کی غزلوں میں آٹھ بحریں تلاش کی ہیں انھوں نے بحر ہزج مثمن اشتر کو بحر مقتضب کی جگہ رکھ دیا ہے اور تسامح یہ ہے کہ سالم رکن میں تسبیغ لانا ٹھیک نہیں. اور یہ کہ ایک ہی غزل کے چند الگ الگ اشعار کا الگ الگ بحروں میں مستعمل ہوجانا ممکن ہے. اس لیے کسی غزل کی بحر کا تعین اس غزل کے تمام اشعار کی تقطیع کے بعد ہی ممکن ہے.

صغیرالنساء بیگم نے پانچ صفحات پر مشتمل دوسری تحریر میں تقطیع اور اس کا طریق کار بتایا ہے. انھوں نے غالب کے ایک شعر :

"بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب

تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں ”

کی عملی تقطیع کی ہے اور تقطیع کے اصول، (تقطیع میں) حروف جو شمار نہیں کیے جاتے، حروف جو لکھے نہیں جاتے لیکن شمار کیے جاتے ہیں، حرکات جو حروف شمار کی جاتی ہیں، ساکن حروف جو متحرک بن جاتے ہیں، متحرک حروف جو ساکن بن جاتے ہیں، کی ذیلی سرخیوں میں تقطیع کے اصول پیش کیے ہیں. اس کے بعد انھوں نے ایک جدول کی مدد سے بتایا ہے کہ کس بحر میں غالب کی کتنی اور کون کون سی غزلیں ہیں اور دیوان غالب میں اس غزل کا نمبر شمار کیا ہے؟ اس طرح انھوں نے 235 غزلوں کا عروضی تجزیہ کیا ہے. انھوں نے غالب کی غزلوں میں مستعمل بحروں کے ارکان میں پیش آمدہ زحافات پر بھی مکمل روشنی ڈالی ہے. اور یہ بتایا ہے کن کن ارکان میں زحاف واقع ہوا ہے اور بدلی ہوئی شکل کیا ہے. اس کے بعد انھوں نے سبھی غزلوں کا عروضی تجزیہ اس طرح کیا ہے کہ پہلے بحر کا نام اور ارکان بتادیے اور غزل کے اشعار لکھ کر ہر شعر کے نیچے بحر کے ارکان لکھ دیے. مثال دیکھیں :

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

ہر غزل میں انھوں نے یہی طریقہ اپنایا ہے. یعنی اس حصے میں انھوں نے غزل کی بحر اور اشعار کے نیچے ارکان لکھ دیے ہیں، ان کی عملی تقطیع نہیں کی ہے، جو اس کتاب کی سب سے بڑی خامی ہے. اس سے وقت کا ضیاع اور کاغذ کا اصراف لازم آتا ہے. گیان چند جین نے ( اپنے پیش لفظ میں) اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھا ہے:

” انھوں نے غزل کے پہلے مصرع یا پہلے شعر کا وزن لکھنے پر اکتفا نہیں کی بلکہ تمام غرلیات کے ہر مصرع کا وزن لکھ دیا۔ اس طرح گویا پوری غزلیات غالب کا مجموعہ شائع کر دیا۔ غزل کے وزن کی نشاندہی مفید ہو سکتی ہے لیکن ہر مصرع کی تقطیع کرنا میرے نزدیک کار زائد ہے۔ اتنی محنت، وقت، کاغذ اور زر کے صرفے کی کیا ضرورت تھی۔"

واضح ہو کہ صغیرالنساء نے صرف وزن لکھا ہے تقطیع نہیں کی ہے. صرف وزن لکھ دینا وزن کی نشان دہی ہے تقطیع نہیں. تقطیع کا مطلب ہے مصرع کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے وزن کے حرکات و سکون سے مطابقت کرکے دکھانا.

*دیوان غالب کا عروضی مطالعہ (مواد، ترتیب، پیش کش اور طریقہ کار)

عرض مصنف کے تحت مصنف نے بتایا ہے کہ انھیں بچپن سے عروض سیکھنے کی خواہش تھی، چنانچہ نوے کی دہائی میں جب وہ لکھنؤ میں زیر تعلیم تھے، اسی وقت علامہ اخلاق دہلوی کی کتاب فن شاعری سے تعارف ہوا اور یہی تعارف اس فن سے ان کی دل چسپی کا پہلا پڑاؤ ثابت ہوا، اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے اس فن کی تقریباً تمام متداول کتابیں جمع کیں اور ان کا گہرائی سے مطالعہ کیا. اس کے علاوہ انھوں نے اپنے تعلیمی سفر، ملازمت کے سلسلے کی جدو جہد اور کتاب کی تصنیف کے اسباب، طریقہ کار اور کتاب میں پیش آمدہ مواد کے حوالے درج کیے ہیں. انھوں نے عروضی مطالعے کی اہمیت اور افادیت پر بھی روشنی ڈالی ہے. وہ کہتے ہیں عروضی مطالعے سے کسی شاعر کے مزاج اور اسلوب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے. میں اس میں تھوڑا اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ عروضی مطالعے اور تجزیے سے کلام کی صحت بھی محفوظ ہوجاتی ہے. کیوں کہ مرور زمانہ کی وجہ سے متن میں کچھ تبدیلیاں واقع ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں. ہم فیک خبروں اور ڈیپ فیک پروپیگنڈا کے زمانے میں ہیں، اس عہد میں ویوز حاصل کرنے کے لیے خاص طور سے کلاسیکی شعرا کے کلام کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے. عروضی مطالعہ متن کی وزن پر ہم آہنگی پیش کرکے اس میں کی گئی تحریفات کو محدود کرتا ہے.

احسان قاسمی نے اپنے مضمون میں اس کتاب کی اہمیت کے بارے میں لکھا ہے کہ سیمانچل میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے. جب کہ حقانی القاسمی نے اس کتاب کی اہمیت و افادیت کے تعلق سے لکھا ہے کہ یہ کتاب مطالعہ غالبیات میں اہم اضافہ ہے کیوں کہ اس طرح کے کام بہت کم کیے گئے ہیں. اور یہ کہ یہ کتاب علمی حلقوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی. یہاں پہنچ کر یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ اس کتاب کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں. لیکن :

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے

رضوان ندوی نے اس کتاب میں (اگر فونٹ سائز کم دیں تو) قریب چالیس صفحات پر مشتمل علم عروض، تقطیع اور دیوان غالب میں مستعمل بحروں کی تفصیل لکھی ہے. چونکہ مبادیات عروض پر متعدد کتابیں موجود ہیں، اس لیے رضوان ندوی نے اس سے متعلق بحروں کی جو تعریفات اور تقطیع کے اصول بیان کیے ہیں، ان کے مآخذ بھی لکھ دیے ہیں. اس میں ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس فن کے مبتدیوں کے لیے زبان کو آسان اور طریقہ کار کو سہل بنایا ہے. اس کے لیے انھوں نے مثالوں سے بہت کام لیا ہے. یعنی اس حصے کو انھوں نے عروض دانی کے اظہار سے پرے خاص طور پر مبتدیوں کے استفادے کے لیے لکھا ہے. چوں کہ عروض پر لکھنا نہایت خشک موضوع سمجھا جاتا ہے اس لیے رضوان ندوی نے اسے دل چسپ بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے.

رضوان ندوی کے تجزیے میں غالب کی غزلوں میں مستعمل آٹھ ہی بحروں کا ذکر ملتا ہے. ان آٹھ بحروں کی تفصیلات ان کی باریکیوں اور نکات کے ساتھ انھوں نے پیش کی ہیں. اس نو اور آٹھ کے نکتے کو سمجھنے کے لیے یہ کہہ سکتے ہیں کہ بحر مقتضب چوں کہ اردو میں بہت مقبول اور مروج نہیں رہی اور ارکان میں ذرا سی ترمیم سے بحر مقتضب بحر ہزج اشتر میں شامل ہوجاتی ہے، غالبا اسی وجہ سے رضوان ندوی نے بھی غالب کے کلام میں آٹھ بحریں ہی تلاش کی. صغیر النساء بیگم نے غالب کی تین غزلوں میں بحر مقتضب کا ہونا ثابت کیا ہے. جن میں سے ایک ہے :

ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا

بن گیا رقیب آخر تھا تھا جو راز داں اپنا

رضوان ندوی جب اس غزل کی تقطیع بحر ہزج مثمن اشتر میں کرتے ہیں تو وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس غزل کی تقطیع

فاعلات مفعولن فاعلات مفعولن

کے ارکان پر بھی ممکن ہے. انھی ارکان پر صغیر النساء بیگم نے ان اشعار کو بحر مقتضب میں شامل کیا ہے جب کہ رضوان ندوی اس بحر کا نام رمل مثمن مکفوف مخبون مسکن مکفوف مخبون مسکن بتاتے ہیں. اور اس بحر کے تعارف میں "نکتہ" کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اس وزن کو بعض عروضیوں نے بحر رجز کے ضمن میں اور بعض نے بحر مقتضب کے ضمن میں بیان کیا ہے، اور گزارش کی ہے کہ تفصیلات عروض کی کتابوں میں دیکھیں. اس سے واضح ہوتا ہے کہ رضوان ندوی اس بات سے تو واقف ہیں کہ غالب کی غزلوں کی تقطیع نو بحروں میں ممکن ہے لیکن وہ اساتذۂ فن کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرتے ہیں.

انفرادیت:

صغیر النساء بیگم نے غالب کی صرف غزلوں کا عروضی تجزیہ پیش کیا ہے، جب کہ رضوان ندوی نے مکمل دیوان غالب کا عروضی مطالعہ پیش کیا ہے. دیوان غالب میں غزلیات کے علاوہ قصائد، رباعیات اور قطعات بھی ہیں. رضوان ندوی کے مطابق دیوان غالب میں رباعیات کو چھوڑ کر کل 1784 اشعار ہیں، چنانچہ انھوں نے مکمل دیوان کے پیش نظر بحروں کے مطابق کل اشعار کی تعداد اور ان کا فی صد تناسب کا جو جدول پیش کیا ہے وہ بھی منفرد اور کار آمد ہے. کیوں کہ انھوں نے قصائد اور قطعات کو بھی شامل کیا ہے.

رضوان ندوی نے تمام رباعیات کے چاروں مصرعوں کی تقطیع کی اور دیگر اصناف (غزل، قصیدہ، قطعہ) کے ابتدائی تین اشعار کی تقطیع ہے. ان کی تقطیع بہترین عملی تقطیع ہے، وہ پہلے بحر کا نام لکھتے ہیں، پھر ارکان لکھتے ہیں، پھر ایک شعر، پھر مصرع اول کی تقطیع، پھر مصرع ثانی کی تقطیع اور پھر "نکتہ” کے ضمن میں (اگر ضروری ہو تو) شعر میں واقع زحاف وغیرہ کی نشان دہی کرتے جاتے ہیں، ایک مثال دیکھیں:

"ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں

تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

 

مصرعۂ اول کی تقطیع :

ہم کہاں قس (فاعلاتن) متا ز ما (مفاعلن) نِ جَ ئے (فعلن )

 

نکتہ: ۔ دوسرے رکن میں آزمانے کا الف وصل حذف ہو گیا ہے، اور اس کی حرکت قسمت کی تاکو دے دی گئی ہے، اور قسمت کی تا آزمانے کے الف ساکن میں مل گئی ہے۔ اب اس کی شکل ‘متاز ما’ ہوگئی ہے۔

 

مصرعۂ ثانی کی تقطیع :

تو ہِ جب خن (فاعلاتن) جَر اْ زَ ما ( مفاعلن ) نَ ہوا (فعلن)

 

نکتہ : دوسرے رکن میں آزمانے کا الف وصل حذف ہو گیا ہے، اور اس کی حرکت خنجر کی را کودے دی گئی ہے، اور را آزمانے کے الف ساکن میں مل گئی ہے۔ اب اس کی شکل ‘جرَازما` ہوگئی ہے۔"

اس طرح یہ کتاب نہ صرف انتہائی اہم علمی کام ہے بلکہ مبتدیان عروض کے لیے غالب کی شاعری اور اس کے آہنگ و وزن سے روشناس بھی کراتی ہے اور عروض میں ان کے درک و دخل کو رہ نمائی اور پختگی بھی عطا کرتی ہے۔

You may also like