دارالعلوم دیوبند و دیگر بڑے دینی مدارس سے ہزاروں طلباء ہر سال فارغ التحصیل ہوتے ہیں وہ سب کے سب فقیہ، مفتی، مدرس، خطیب،امام یا مؤذن نہیں ہو سکتے اور شریعت کی رو سے نہ یہ مطلوب ہے تو پھر کیوں نہیں ایسے فضلاء کو عصری دانشگاہوں میں مزید تعلیم کے لیے داخلے کا اہل بنایا جاتا ہے ؟
اس کے لیے نصاب تعلیم میں بسیط ترمیم کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ این سی آر ٹی کی آٹھویں و نویں درجے کی کتابیں ہفتم و دورہ سے پہلے کے سالوں میں شامل کر دیں اور اس طرح انہیں:
١- جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، جے این یو، اور دیگر یونیورسٹیوں میں راست بی اے کے مختلف کورسز میں داخلہ کا اہل بنایا جائے۔
٢- نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ NIOS سے میٹرک کا امتحان میں شریک ہو سکیں۔
٣- کسی بھی تجارتی مرکز فیکٹری یا دفتر میں اہلیت کے مطابق ملازمت حاصل کر سکیں۔
٤- ڈپلومہ ان کمپیوٹر اپلیکیشن DCA حاصل کر کے کسی کمپنی میں کمپیوٹر آپریٹر کی ملازمت حاصل کر سکیں۔
٥ – اور سب سے بڑی بات یہ کہ تعلیم یافتہ ، اپنی ذمہ داری اور فرض سے واقف اچھا اور ذمہ دار شہری بن سکے۔ظاہر ہے اچھا اور ذمہ دار شہری کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے نظام اور دستور کے عام لوگوں سے متعلق بنیادی بنود سے واقف ہو۔
بدقسمتی سے دینی مدارس کے ارباب حل و عقد نصاب تعلیم میں عصری علوم کی چند کتابوں؛ ہندی، انگریزی، ریاضی، سوشل سائنس، جغرافیہ، جنرل نالج کی باتیں تو کرتے ہیں اعلان بھی کرتے ہیں مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔
مجھے تکلیف اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب دیکھتا ہوں کہ دارالعلوم یا ندوہ وغیرہ کے فضلاء اردو زبان وادب میں ماہر اور بہترین تنقید نگار کسی سرکاری غیر سرکاری ادارے میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فقط اس لیے فائز نہیں ہو سکتے کہ اس کے پاس گریجویشن پوسٹ گریجویشن کی ڈگری نہیں ہے۔ بعض اداروں میں وہ زندگی بھر تھوڑی تنخواہ پر کم اہل ڈائریکٹروں کے معاون کے طور پر کام کرتے رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے بعض مدارس کے ارباب حل و عقد اور مساجد کے متولیان اپنے ماتحتوں کی عزت نفس کو پاش پاش کر کے اپنی مریض ذہنیت کو لذت پہنچاتے ہیں یا احساس کمتری کے شکار ہوتے ہیں یا انہیں اندیشہ ہوتا ہے کہ آگے چل کر ماتحت ان سے آگے بڑھ جائیں گے۔ مدارس میں اصلاح نہیں کرنے کے پیچھے یہ بھی ایک محرک ہے۔