دعوت طعام اور ضیافت کے انتظام میں تہذیب نو کے نام پر جو بدتہذیبی ہم مسلمانوں میں دوسروں کی دیکھا دیکھی رائج ہو گئی ہے اس پر قلم اٹھانے کا خیال اکثر آتا ہے اور چلاجاتا ہے، مگر آج اسے موضوع قلم بنانے کی تحریک ایک ایسی دعوت سے ملی جو کھانے پینے کے اسلامی آداب کے مطابق تھی، اور اسی کی برکت سے یہ مہمانوں کے لئے ایک پر لطف اور خوش گوار دعوت بنی۔ اس لئے اس کا حق ہے کہ پہلے اس کا ہی تذکرہ کیا جائے۔
یہ علی گڑھ میں ہمارے دوست مفتی عبداللہ شمیم ندوی کے برادر خورد عزیزم کلیم اللہ شمیم کے ولیمے کی دعوت تھی جو کل شام علی گڑھ کی ایک تقریب گاہ میں منعقد ہوئی۔ جناب عبداللہ شمیم علی گڑھ کے ایک متحرک اور مخلص سماجی کارکن ہیں اور دعوت واصلاح کے مشن پر کاربند ہیں۔ اللہ نے انہیں ہمہ جہت صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔ وہ بہ یک وقت مختلف النوع کام بڑی مستعدی کے ساتھ انجام دیتے رہتے ہیں۔ اپنے بھائی کلیم اللہ کا نکاح بھی خود انہوں نے ہی پڑھا یا، اور بہت خوب پڑھا یا۔ اور یہ نکاح پڑھانا اس کے سوا کیا ہے کہ خطبہ مسنونہ کو دوہرانا اور اس کی وضاحت کرنا، پھر ایجاب وقبول کرانا۔
اس موقع پر عبداللہ شمیم صاحب نے جو مختصر اور موثر گفتگو سادہ اور بے تکلف انداز سے حاضرین کے سامنے رکھی وہ یہی تھی کہ نکاح کو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت آسان بنایا ہے لیکن ہم نے خود اپنے لئے اسے مشکل بنالیا ہے جس کا فساد اب کھل کر سامنے آرہا ہے مگر اکثر مسلمان اپنی آنکھیں کھولنے اور خود کی اصلاح کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ نکاح مسجد میں اس لئے رکھا گیا کہ مسجد میں منعقد ہونا ہر لحاظ سے بہتر اور مفید ہے۔
دولہا میاں نہ تو سہرا باندھ کر آئے تھے نہ ہار پھولوں سے لدے ہوئے تھے۔ نہ کوئی خاص تام جھام تھا۔ شادی کا حصہ بن جانے والی تمام غیر ضروری رسموں، جہیز اور لین دین کے دکھاؤں سے پاک یہ شادی ایک نمونے کی شادی تھی اور نمونہ پیش کرنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش تھی۔
اس مسنون نکاح کے بعد ولیمہ کی دعوت کا اہتمام بھی اسلامی ادب و تہذیب کے مطابق کیا گیا۔ یعنی مہمانوں کو کھانا بٹھاکر خود کھلایا گیا، ان کے ہاتھوں میں پلیٹیں دے کر لائن میں کھڑے ہونے، خود نکالنے اور کھڑے کھڑے بد تہذیبی کے ساتھ کھانے کی زحمت نہیں دی گئی۔میز وکرسی کے سیٹ لگے ہوئے تھے، مہمانوں کو اجتماعی طور سے بٹھایا گیا ، احباب و متعلقین نے میزبانی کی، خود کھانا لاکر پیش کیا، ہر فرد کاخیال رکھا، عزت اور توجہ کے ساتھ ضیافت کی گئی۔ مدد کے لئے اگر چہ ویٹریس موجود تھے لیکن ان کا رول محدود تھا اور میزبانی کا کام ان کے اوپر نہیں چھوڑا گیا تھا۔ حالانکہ ڈشیز کئی طرح کی تھیں اور لوازمات حسب رواج تھے، مہمانوں کی تعداد بھی ماشاءاللہ خوب تھی۔
اس طرح کھانا کھانے کا لطف اور سہولت سبھی نے محسوس کی۔اور مہمانوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ” اس طرح کی دعوت بہت زمانے کے بعد کھانے کو ملی، مزا آگیا.”
دراصل ہم مسلمانوں کی تہذیبی روایت یہی رہی ہے اور اسلام نے کھانے پینے اور ضیافت و طعام کے یہی انداز سکھائے ہیں۔ یہ طریقہ بہت سے شہروں اور بہت سے طبقوں میں ابھی بھی چلا آرہا ہے، لیکن جدید تہذیب کے نشے میں کھانے پینے کی بد تہذیبی اب عام ہوتی جارہی ہے، اور اس بدتہذیبی کو اپنانے میں وہ لوگ، تنظیمیں اور ادارے بھی پیچھے نہیں ہیں جن پر عوام کی تربیت اور اسلامی تہذیب کےفروع و تبلیغ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان طبقات کی طرف سے جو سیمنار، سمپوزیم، کانفرنسیں وغیرہ منعقد ہوتی رہتی ہیں ان میں اب یہ چیز بالکل دیکھنے میں نہیں آتی کہ کھانے کے نظم میں اسلامی آداب و تہذیب کا اہتمام کرتے ہوں۔ بلکہ اسی بے ڈھنگے پن، بے ادبی اور بدتہذیبی سے کھانآ کھایا اور کھلایا جاتا ہے جو بوفے سسٹم نے عام کر دی ہے۔
بوفے سسٹم
کسی کھلے ہال یا لان میں ایک لمبی سی میز یا کاؤنٹر پر متعدد ڈشیں سجاکر انہیں کھلا چھوڑ دینا تاکہ کھانے والے اپنی پسند سے جو چاہیں، جتنا چاہیں لیں اور کھائیں، اس کا نام بوفے (Buffet) ہے۔ یہ لفظ انگریزی میں فرانسیسی زبان سے آیا ہے اور عموماً اسی معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں سیلف چوائس اور سیلف سروس کے لئے بھی یہی لفظ مستعمل ہے۔ لیکن اس لفظ کی متعدد اصلیات ہیں اور کئی طرح کے معنیٰ اس لفظ سے وابستہ ہیں۔ اس کا ایک مطلب ہے ہاتھ مار کر آواز نکالنا۔ ایک مطلب ہے تیزی سے حرکت کرنا، ایک مطلب ہے سرعت سے آنا اور لپک کر نکل جانا۔
یہ بوفے سسٹم حالانکہ مغرب سے آنے والی جدید تہذیب کی دین ہے، لیکن خود اس جدید تہذیب نے ہی اپنے علم و تحقیق سے جو نتیجے نکالے ہیں ان کی رو سے بھی کھانا کھانے اور کھلانے کا یہ طریقہ کئی لحاظ سے غلط ہے۔ پہلی بات تو یہی ہے کہ یہ نظام ہضم کے لئے مفید نہیں ہے۔ متعدد تحقیقات سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ کھڑے کھڑے کھانے پینے سے، جلدی جلدی کھانے پینے سے اور متعدد کھانے ایک ساتھ کھانے سے آنتوں، جگر اور گردوں وغیرہ پر نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پھر اس بوفے سسٹم کی دعوت میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی حرص اور جلد بازی بڑھ جاتی ہے اور آدمی ایک ہی بار میں اپنی پلیٹ متعدد چیزوں سے بھرلیتا ہے، پھر ان میں سے کچھ کھاتا ہے، کچھ چھوڑتا ہے۔ اور جو چھوڑتا ہے اسے کوڑے دان میں پھینکتا ہے اور پھر لائن میں لگ جاتا ہے۔ جدید تحقیقات نے یہ تخمینہ لگایا ہے کہ اس طرح ہزاروں ٹن کھانا اور ناج ضائع ہوتا ہے جب کہ خوراک اور اناج کی کمی سے انسانوں کی بہت بڑی آبادی پوری دنیا میں جوجھ رہی ہے۔ اس طرح کے اور بھی نقصانات ہیں جن کے لحاظ سے کھانے کا یہ سسٹم اچھا نہیں ہے۔
مگر ہم مسلمانوں کے لئے اس سے بھی زیادہ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہم کس چیز کو چھوڑ کر کیا چیز اختیار کررہے ہیں؟ اس شائستگی، ادب اور سلیقے کو چھوڑ کر جو اسلام نے سکھایا، ہم ایک بد تہذیبی اور حیوانی انداز کو اپنا رہے ہیں۔
یہ ضیافت کے آداب و اخلاق کے خلاف نہیں تو اور کیا ہے کہ مہمان کو فقیروں کی طرح پلیٹیں اپنے ہاتھ میں لے کر لائن میں لگنا پڑتا ہے، یہ صورت حال اس وقت اور زیادہ خفت آمیز بن جاتی ہے جب بہت سے کھانے والے ایک ساتھ جمع ہوجاتے ہیں اور کھانا شروع ہونے کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ ایسے موقعے پر تکلف اور لحاظ پاس ختم ہوجاتا ہے، کھانے والا خود غرض بن جاتا ہے، دوسروں سے پہلے خود ہاتھ بڑھاتا ہے اور خوب چھانث چھانٹ کر دیر تک اپنی پلیٹ بھرنے میں لگا رہتا ہے۔ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ حریص لوگ بوفے ٹیبل کے پاس ہی کھڑے رہتے ہیں تاکہ دوبارہ، سہ بارہ اور بار بار آسانی سے پھر لے سکیں۔ بعض اوقات یہ کیفیت بالکل جانوروں کی طرح کھانے جیسی محسوس ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں لحاظ و ادب کا خیال رکھنے والے پیچھے رہتے ہیں اور ضرورت سے بھی کم کھانے کو غنیمت جانتے ہیں۔
بوفے لفظ کا ایک مطلب مشکل سے جوجھنا بھی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہاتھ میں پلیٹ لے کر کھانا کھانا ایک مشکل اور الجھن والا کام ہے اور اس میں کھانے کا لطف لوگ عام طور سے محسوس نہیں کرتے۔
اس بوفے کلچر میں کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونے اور کلی کرنے کی بھی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی۔ ٹشو سے ہی کام چل جاتا ہے۔ یہ بات بھی صرف اسلامی تہذیب کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ جدید تحقیقات کے لحاظ سے بھی غلط ہے۔
الغرض یہ بوفے سسٹم جدید تہذیب کی بد تہذیبی ہے جو ہم مسلمانوں کو اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے کھانے سے منع فرمایا ہے، مہمان کی عزت کرنے، دسترخوان لگانے، اپنے ہاتھ سے مہمان کو پیش کرنے اور کھاتے وقت دوسروں کا خیال رکھنے وغیرہ وغیرہ کی تعلیم دی ہے۔ یہی ہمارا دین ہے، یہی ہماری تہذیب ہے۔