تبلیغی جماعت پر دیگر جماعت والے بالخصوص متشدد حضرات یہ کہ کر تنقید کرتے ہیں کہ دعوت دین تو در اصل غیروں کو اللہ کی طرف بلانے کا نام ہے نہ کہ مسلمانوں کو دین کی دعوت دینے کا!
ایسے لوگوں کو یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ پڑوسیوں کو ان کے گھروں کی صفائی کی تلقین کرنے سے پہلے اپنے گھر کی صفائی ضروری ہوتی ہے ورنہ صفائی مہم چلانے والوں پر دنیا ہنستی ہے اور ایسے لوگوں کی مہم کو لوگ نہ صرف سنجیدگی سے نہیں لیتے بلکہ مذاق بھی اڑاتے ہیں۔
کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ تبلیغی جماعت کو "مسلمانوں کو مسلمان” بنانے دیجیے اور آپ لوگ غیروں میں دعوت کا کام کر لیں۔
تبلیغی جماعت کے اغراض ومقاصد بہت محدود ہیں اور اس کے بنیادی مشن ؛ عام مسلمان جو دین کی بنیادی تعلیمات سے ناواقف ہیں انہیں ایمان ، ایک اللہ سے ہونے اور غیر اللہ سے نہیں ہونے کا یقین ، کلمہ، نماز ، روزے، حج ، زکوٰۃ اور نوافل و صدقات کے فضائل سے واقف کرانا ہے۔ یہی اس جماعت کا اختصاص ہے اور بہت حد تک اس میں یہ جماعت کامیاب ہے۔
یہ اور بات ہے کہ بسا اوقات ان کے بعض ذمے دار اور دو تین چلے لگائے ہوئے ‘بزعم خود ذمے دار’ اپنے حدود سے تجاوز کرتے ہوئے عالم دین ، مفتی اور مفسر کا کردار ادا کرنے لگتے ہیں ۔ فقہی اور دیگر مسائل میں الجھتے ہیں اور بعض لوگوں کو ان کے وضع قطع کی بنیاد پر طعن و تشنیع ہی نہیں فاسق و فاجر کا "فتویٰ” بھی لگا دیتے ہیں۔ جو علماء و غیر علماء ان کی جماعت میں شامل نہ ہوں جو وقت نہ لگائیں وہ ان کی نظر میں اچھے مسلمان نہیں ہوتے ہیں !
ادیان کا تقابلی مطالعہ کے میدان میں بلا شبہ ڈاکٹر ذاکر نائیک ید طولی رکھتے ہیں۔ قرآن ، بائبل اور ویدوں کا جس طرح وہ حوالے دیتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حافظہ کی بہت خاص نعمت سے انہیں نوازا ہے۔ ان کے پروگراموں میں دین اسلام سے متعلق سوال کرنے والوں کو ایسا شرح صدر جواب دیتے ہیں کہ بہت سے لوگ اسلام قبول کر لیتے ہیں۔
تقابل ادیان کے اصل مخاطب غیر مسلم ہیں تو ڈاکٹر صاحب تقریباً ٩٧ فیصد مسلم آبادی والے ملک میں کیا کرنے گئے ہیں ؟
اس کا جواب ڈاکٹر صاحب سے پڑوسی ملک کی بلوشہ نامی ایک لڑکی کے سوال/ بیان سے اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ اسلامی معاشرہ اور مسلم معاشرہ میں بہت بڑا فرق ہے۔ ممکن ہے ایسے گناہ ان لوگوں سے بھی سرزد ہو رہے ہیں جو تبلیغ کے کام سے جڑے ہوئے ہوں جو داڑھی کرتا ، شلوار قمیض ، ٹخنے سے اوپر پاجاما داہنے ہاتھ کی کلائی پر گھڑی اور اوپر کی جیب میں مسواک رکھتے ہوں۔ ان سب ظاہری اعمال کے باوجود اگر وہ جائز ناجائز حرام حلال حق نا حق اور ظلم اور انصاف میں تمیز کرنے کی صلاحیت اور اس کے مطابق عمل نہیں کیا تو یہی سمجھا جائے گا کہ ان کے ظاہری اعمال سماجی تقاضے ہیں نہ کہ اتباع دین کی ضرورت۔
تاہم آپ یہ کہہ کر دامن نہیں چھڑا سکتے کہ سود اور اغلام بازی جیسے گناہ اس خطے میں صدیوں سے ہوتے آ رہے ہیں اور سماج میں اتنا رچ بس گیا ہے کہ اب اسے گناہ نہیں سمجھا جاتا ہے یا ہلکے میں لیا جاتا ہے۔ تبلیغی جماعت، علماء، فقہاء اور دینی و سماجی شخصیات سے کل قیامت کے روز بازپرس ہوگی کہ ان گناہوں کو آپ نے دیدہ و دانستہ کیوں رائج ہوکر سماجی رسم و رواج کا حصہ بننے دیا۔ جس طرح علماء حضرات اور فارغین مدارس سے باز پرس ہوگی کہ بہنوں اور پھوپھیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دینا سماجی رواج کیوں بننے دیا ۔ نہ خود دیتے ہیں اور نہ مسلمانوں کو دینے کی تلقین کرتے ہیں۔
حقوق العباد کی ادائیگی پر زور دینے کی بجائے فضائل اعمال؛ نوافل اور تسبیحات پر ہی زور کیوں ! عوام تو عوام خواص کا یہ طبقہ بھی حقوق العباد اور معاملات میں بہت کمزور ہے ۔ شاید اس کی وجہ ان مبلغوں اور داعیوں کا فقط اللہ کی صفات عالیہ غفور رحیم سے متعلق قرآن کی آیات اور منتخب احادیث بیان کرنا ہے کہ اللہ شرک کے علاوہ ہر گناہ کو معاف کر دے گا خواہ وہ پہاڑ کے برابر ہی کیوں نہ ہو! یہ معافی حقوق اللہ سے متعلق ہے یا حقوق العباد سے اس کی وضاحت کون کرے گا۔
اسلامی معاشرہ اور مسلم معاشرہ کا فرق :
اسلامی جمہوریہ پاکستان ! کیا نام رکھنے سے پڑوسی ملک اسلامی ملک ہو گیا؟
دنیا بھر کے مسلم ممالک میں کیا کہیں بھی اسلامی معاشرہ کا وجود ہے ؟ ظاہر ہے صرف نام رکھنے، وضع قطع اور شکل و صورت بنا لینے سے اسلامی معاشرہ کی تشکیل نہیں ہوتی ہے۔ اسلامی معاشرہ کی تشکیل اسلامی تعلیمات پر مبنی قانون سازی اور افراد سازی سے ہوتی ہے۔
١٩٤٧ میں وجود آنے کے بعد سے لے کر اب تک یہی طے نہیں ہو پایا کہ اس ملک کا نظام اسلامی ہوگا یا سیکولر، خلافت ، امارت، مملکت ، جمہوریت یا ان سب کا ملغوبہ!
اسی لیے اسلام کی صحیح تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے اگر کسی ایسے اسلامی اسکالر کو بطور مہمان دعوت دی جائے جو وہاں کی سماجی صورتحال سے اچھی واقفیت رکھتا ہو قبائلی نظام اور طور طریقوں پر ریسرچ کیا ہو اور مسلکی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے ایسا کوئی میکانزم جو مختلف فریقوں کے لیے قابل قبول ہو ، رکھتا ہو۔
گرچہ ڈاکٹر صاحب کا اختصاص تقابل ادیان ہے اور مخاطب غیر مسلم، پھر بھی ٩٧ فیصد مسلم آبادی والے ملک میں ڈاکٹر صاحب مختلف مسالک کے لوگوں کو قرآن مجید کی آیت” تَعَالَوْاْ إِلَى كَلَمَةٍ سَوَاء بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ ” کے ذریعے اختلاف امت کی بجائے اتحاد ملت کی دعوت دے رہے ہیں ۔ یہ ایک مشکل ترین کام ہے۔
پڑوسی ملک میں تو اسلام ، اہل کتاب اور کفر کا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن مسلکی گروہوں کی جانب سے کارزار گرم رکھنے والے محاذ آرائی بر اتر آئے ہیں۔ اہل حدیث ان پر اخوانی کا الزام لگاتے ہیں تو بریلوی یزید ، معاویہ اور شرکیہ اعمال پر ان کے موقف کی وجہ سے ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بعض دیوبندی مولویوں کو اپنی دکانداری ماند پڑتی نظر آتی ہے اس لیے ان کی باتوں کو سننا ناجائز کہتے ہیں اور ان کی دلیل بس یہ ہوتی ہے کہ وہ سند یافتہ عالم ( مولوی ) نہیں ہیں۔
تو سند یافتہ مولوی حضرات سن لیں کہ آپ صرف مدرسوں سے سند فراغت لینے سے موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے اہل نہیں ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کو اسلامی معیشت، بینک کاری اور ناگزیر سود کے بارے میں کچھ رائے دینی ہو یا تقریر کرنی ہو تو اس کے لیے مطلوبہ اختصاص حاصل کریں عصری درسگاہوں میں معاشیات اور اقتصادیات میں تخصص کریں۔ یکطرفہ بات قابلِ قبول نہیں ہے۔ اگر ڈاکٹر صاحب کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ فقہی موضوعات پر گفتگو نہ کریں تو آپ کو بھی کہا جا رہا ہے کہ بغیر قابلیت اور صلاحیت سیاسی ، سماجی، معاشی اور اقتصادی امور پر زبان نہ کھولیں۔
تبلیغی جماعت کے ذمے داران بھی وقت کے تقاضوں کے مطابق لائحہ عمل طے کریں۔ جس وقت اس کی بنیاد رکھی گئی تھی اس وقت اس کے مخاطب اسلام کی بنیادی باتوں سے بھی واقف نہیں تھے کلمہ، اذان ،وضو ، نماز، تجہیز و تکفین تدفین کے اسلامی طریقے سے بھی واقف نہیں تھے اسی لیے سادہ زبان میں ان کے لیے نصاب معین کیا گیا تھا ۔ اب ماشاءاللہ تعلیم یافتہ ہی نہیں اعلی تعلیم یافتہ حضرات و خواتین بھی وابستہ ہیں ان کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم و تربیت کی کتابیں شامل کی جائیں ۔
ایک صاحب نے غالباً صحیح لکھا کہ ڈاکٹر صاحب دوسروں کو مسلمان بنانے کا کام کرتے ہیں لیکن اگر وہ خود کے لیے مسلمان کا سرٹیفکیٹ لے کر پڑوسی ملک سے نکل آئیں تو بہت بڑی بات ہوگی۔اس بندے کے پیچھے تو لوگ ہاتھ دھو کر پڑے ہیں۔