اردو میں کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ تمام زبانوں میں سب سے زیادہ ہے۔ہرروز ایک نئی کتاب منظرعام پر آتی ہے، لیکن کتابوں کے اس ہجوم میں ایسی کتنی کتابیں ہوتی ہیں جنھیں سرمہ جاں بنایا جائے یا جن کے مشمولات پر سردھنا جائے۔ظاہرہے کسی بھی چیز کی کثرت اس کے معیار کا خون کردیتی ہے۔ اردو کتابوں کے بازار میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی ایسی کتاب منظرعام پرآئے جس میں مصنف نے کتاب کے تمام حقوق ادا کیے ہوں۔چاہے وہ تحقیق وتنقید ہو یا ترتیب تدوین۔
اس وقت میرے ہاتھوں میں ایسی ہی ایک بیش قیمت کتاب ہے جس میں مصنف نے نہایت عرق ریزی اور جستجو کے ساتھ ایسا نایاب مواد جمع کردیا ہے جو اب تک بیشتر محققین کی نظروں سے اوجھل تھا۔ کتاب کا نام ہے ”دولت عثمانیہ اور ترکی کی تاریخ“۔کتاب کے لائق وفائق مصنف نامور عالم دین مولانا عتیق احمد بستوی ہیں،جو اپنے علمی، تدریسی اور فقہی کارناموں کے لیے ملک گیر شہرت رکھتے ہیں۔ انھوں نے کئی دہائیوں پر محیط اپنی جفاکشی، محنت شاقہ اور عرق ریزی کے ساتھ ایک ایسے موضوع پر کام کیا ہے، جوعالم اسلام کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔فاضل مصنف کو اپنے موضوع کی تہہ تک پہنچنے میں نصف صدی کا عرصہ لگا ہے۔مولانا عتیق احمد بستوی کی اب تک تقریباً ڈیڑھ درجن کتابیں منظرعام پرآچکی ہیں۔وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممتازرکن اساسی، اسلامک فقہ اکیڈمی کے سیکریٹری، ندوۃ العلماء کی مجلس تحقیقات شرعیہ کے ناظم اور معہد شریعہ لکھنؤ کے بانی صدر ہیں۔ وہ طبعی طورپر ایک سنجیدہ اور خاموش طبیعت کے انسان ہیں اور اپنا بیشتر وقت علمی کاموں میں گزارتے ہیں۔زیرنظر کتاب ان کی علم دوستی اور گہرے تاریخی شعور کا مظہر ہے۔
سلطنت عثمانیہ 1299سے لے کر1922تک قایم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمراں ترک تھے۔سولہویں اور سترہویں صدی میں اپنے عروج کے زمانے میں یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی۔ جنوب مشرقی یوروپ،مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیرنگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر،مشرق میں بحیرہ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلواکیہ اور موجودہ یوکرین سے جنوب سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھیں۔ مجموعی طورپر اس کے 19صوبے تھے۔ اس عظیم سلطنت کا پوری دنیا پر بڑا جلوہ تھا اور بڑے بڑے یوروپی ممالک اس سے خوف کھاتے تھے۔ تاریخ میں ایسا عروج کسی مسلم سلطنت کو حاصل نہیں ہوا، لیکن یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ساڑھے چھ سوسال تک حکومت کرنے والی اس سلطنت کو منصوبہ بند سازش کے تحت ختم کیا گیا۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ اس میں غیروں کی سازشوں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی ریشہ دوانیوں کا بھی بڑا دخل رہا۔
دولت عثمانیہ کے عروج وزوال کی یہ داستان بڑی المناک ہے اور ا س میں اسلامی تاریخ کے کئی گوشے پوشیدہ ہیں۔زیرنظر کتاب ان ہی موضوعات کا بھرپوراحاطہ کرتی ہے۔کتاب میں مصنف نے تحقیق کے ہرا س تقاضے کو پوراکیا ہے جو موجودہ دور کے تن آسان محققین کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔تین جلدوں پر مشتمل کوئی کتاب جس کی ضخامت 1700سے زیادہ صفحات پر پھیلی ہوئی ہو، اس میں مصنف کی محنت شاقہ کو صرف محسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔اس کتاب کی داغ بیل مولانا علی میاں مرحوم کے ایماء پر ڈالی گی تھی اور وہ چاہتے بھی تھے کہ ان کی زندگی میں شائع ہوجائے لیکن مصنف کو اپنے موضوع سے جو غیر معمولی شغف تھا، اس کے نتیجے میں اس کی اشاعت میں تاخیرہوتی چلی گئی۔ اگرآج مولانا علی میاں زندہ ہوتے تو وہ اس وقیع کتاب کو دیکھ کر کتنا خوش ہوتے اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔مصنف نے اس کتاب کی تیاری کے صبرآزما دور میں ندوہ کے کتب خانے کے علاوہ علی گڑھ کی شہرہ آفاق مولانا آزادلائبریری سے بھی بھرپور استفادہ کیا۔
اس کتاب کی تیاری کے د وران مصنف کی عربی زبان پر مضبوط گرفت اور مہارت نے بھی بہت کام کیا۔ کتاب کے مرکزی کردار سلطان عبدالحمیدثانی کی دوڈائریوں کا عربی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ یہ کام انیسویں اور بیسویں صدی کی عالمی سیاست کو سمجھنے اور دولت عثمانیہ کے دورزوال سے مکمل واقفیت کے لیے بہت ضروری تھا۔اس کے علاوہ مصنف نے ا س وقیع کتاب کو اور معنی خیز بنانے کے لیے یہودیوں کی برپا کی ہوئی دوتحریکوں فری میسن اورصہیونیت کا مطالعہ بھی کیا ۔خلافت عثمانیہ کی تاریخ پر اب تک جو کتابیں رقم کی گئی ہیں ان میں خلافت عثمانی کے آخری دور اور پھر سقوط خلافت پر جس غیر جانبداری کے ساتھ تجزیہ کی ضرورت تھی، وہ اس کتاب سے پوری ہوتی ہے۔ فاضل مصنف نے اپنے موضوع سے انصاف کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک اہم تاریخی دستاویز بن گئی ہے، جس کے مشمولات اورطریقہ تحقیق کو ہر وہ شخص خراج تحسین پیش کرے گا جس کو اسلامی تاریخ سے دلچسپی ہے اور جو دولت عثمانیہ کی تاریخ سے کماحقہ واقف ہونا چاہتا ہے۔
اس کتاب میں دولت عثمانیہ کا عروج وزوال، سلطان عبدالحمید ثانی کے دور خلافت اور ان کے کارناموں کی تفصیل، خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کا سانحہ، انجمن اتحاد وترقی اور مصطفی کمال پاشا کے دور حکومت کے واقعات، ترکی میں اسلامی بیداری کے حوصلہ افزااقدامات وحالات، سلطان عبدالحمید ثانی کی دوڈائریاں نیز موجودہ صدرترکی رجب اردگان کے اقدامات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ایک ہزار سات سو سینتالیس صفحات پر پھیلی ہوئی یہ کتاب اپنے موضوع سب سے ضخیم پیشکش ہے جس میں فاضل مصنف نے تحقیق وتنقید کے دریا بہادئیے ہیں۔
مولانا عتیق احمد بستوی نے دولت عثمانیہ کی تاریخ خصوصاً سلطان عبدالحمید کے کارناموں اور زوال خلافت کے موضوع پر مواد اکھٹا کرنے کا کام زمانہ طالب علمی میں شروع کردیا تھا۔ انھوں نے جب دولت عثمانیہ کے عروج وزوال کی داستان پڑھی تو دل ودماغ پر اس کے اثرات مرتب ہوئے۔اگر یہ کہا جائے کہ مصنف نے اپنی زندگی کا قیمتی عرصہ اس ایک کتاب کی نذر کردیا ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ اگر اتنی وقیع کتاب انگریزی زبان میں شائع ہوتی تو اب تک رائلٹی کی صورت میں مصنف پردولت کی بارش ہورہی ہوتی مگر یہ ایک ایسی زبان میں شائع ہوئی جس کے قارئین کی تعداد بطورخاص شمالی ہند میں دن بہ دن کم ہو رہی ہے اور جس کے مصنفوں کو پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملتی۔ فاضل مصنف کے پیش نظر یہ مقصد رہابھی نہیں ہے اور اس کی تیاری میں تمام ترخلوص شامل ہے جو اپنی زبان اور تاریخ وتہذیب سے گہرے شغف کا ثبوت ہے۔مجھے امید ہے کہ یہ وقیع کتاب علمی اور ادبی حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔ کتاب مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنؤ نے شائع کی ہے۔رابطہ نمبرہے: 9839776083
دولت عثمانیہ اور ترکی کی تاریخ‘ – معصوم مرادآبادی
previous post