Home مباحثہ دارالعلوم، اسدالدین اویسی اور طوفانِ بدتمیزی- شاکر حسین عابدی قاسمی

دارالعلوم، اسدالدین اویسی اور طوفانِ بدتمیزی- شاکر حسین عابدی قاسمی

by قندیل

شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور

دو دنوں سے دیکھا یہ جارہا ہےکہ بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کو دارالعلوم دیوبند نہ بلائے جانے پر کچھ لوگ دار العلوم دیوبند کے حوالے سے اپنی اپنی بھڑاس نکالنے میں مصروف ہیں اور دارالعلوم کی شبیہ بگاڑنے کے لئے حضرت مہتم صاحب کے ساتھ اندریش کی تصویر وغیرہ یہ کہہ کر وائرل کر رہے ہیں کہ اسلام کے دشمنوں کو دارالعلوم آنے کی اجازت ہے مگر مسلمانوں کے اکلوتے قائد اور رہبر و رہنما کو دارالعلوم آنے کی اجازت نہیں ہے۔

اس سلسلے میں چند باتیں قابل غور ہیں:

پہلی بات: دار العلوم دیوبند کی طرف سے کسی بھی سیاسی پارٹی سے ملاقات کی اجازت نہیں ہے۔
دوسری بات: ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے خلاف زہر اگلنے والے سے بھی مذاکرات ہونے چاہیے؛ تاکہ ملک کی اکثریت کی غلط فہمی دور کی جاسکے اور دوسری طرف اندریش سے ملاقات ہوتی ہے تو آپ کو تکلیف بھی ہوتی ہے۔ اب تکلیف کا تو کوئی علاج نہیں ہے۔ اللہ آپ پر رحم کرے

تیسری بات: اندریش اگر آتا ہے تو ایک طرح سے خود اس کے ہندو مسلم منافرت کے منصوبے پہ زد پڑتی ہے، ہمیں کسی خاص فریم میں فٹ نہیں کیا جاسکتا۔

چوتھی بات: اکھیلش کا حوالہ بھی دیا جا رہا ہے، تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اکھیلش کو دارالعلوم نے بلایا نہیں تھا، اگر کوئی فرد وہاں کسی سے انفرادی ملاقات کے لیے چلا جاتا ہے تو یہ اس کا اپنا فعل ہے نہ کہ دار العلوم کا۔

اب اگر اویسی صاحب نے اجازت لی پھر اجازت نہیں ملی تو دارالعلوم نے بالکل درست فیصلہ کیا؛کیونکہ کسی ایک کو اجازت دینے کا مطلب ہے کہ باقیوں کے لئے بھی دروازے کھولے جائیں۔ نیز اجازت دینے کا مطلب ہے کہ آپ اسے باضابطہ مدعو کر رہے ہیں اور اوپر بتایا جا چکا کہ دار العلوم نے سیاسی ملاقات بند کر رکھی ہے۔ اب اگر اویسی صاحب کو جانا ہی تھا تو جس طرح عام لوگ دارالعلوم جاتے ہیں اور جس استاذ سے ملنا چاہتے ہین ان کے دروازے پہ دستک دیتے ہیں اور مل لیتے ہیں، ویسے ہی وہ بھی تشریف لے جاتے، ان کو اگر مہتمم صاحب سے ملنا تھا تو ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے پھر دیکھتے کہ وہ ملتے ہین یا دروازہ بند کر لیتے ہیں یا وہ دارالعلوم کے مہمان خانہ پہنچتے اور ان کو روم نہیں دیا جاتا تو کہتے کہ سب کو ٹھہرایا جاتا ہے، مگر اویسی کو بھگا دیا گیا، مگر وہ امت کے ایک عام فرد کی طرح دار العلوم جانا نہیں چاہتے؛ بلکہ سیاسی پلیٹ فارم سے جانا چاہتے ہین اور جب وہاں کے دروازے سب کی طرح ان کے لیے بھی بند ملتے ہین تو بھکت ایک طوفان بدتمیزی برپا کرنے پہ تلے ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ کسی کو یہ اعتراض ہو کہ اویسی صاحب ملک کے قائد رہنما ہیں وہ ایک عام آدمی کی طرح دارالعلوم کیسے جائیں گے؟ تو واضح کردوں کہ وہ آپ کے قائد اور بڑے ہوسکتے ہیں، دارالعلوم دیوبند کے نہ ہی قائد ہین اور نہ بڑے:
کہسار یہاں دب جاتے ہیں، طوفان یہاں رک جاتے ہیں
اس کاخِ فقیری کے آگے، شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں

You may also like

Leave a Comment