عرصہ سے دار العلوم (وقف) دیکھنے کی خواہش تھی – چنانچہ برادر مکرم ڈاکٹر محی الدین غازی نے جب دیوبند جانے والے جماعت اسلامی ہند کے وفد میں شامل ہونے کی پیش کش کی تو میں فوراً تیار ہوگیا –
گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں جب دار العلوم دیوبند کے دو ٹکڑے ہوئے تھے تو لاکھوں بہی خواہوں کی طرح میں نے بھی اس کا درد محسوس کیا تھا – لیکن چار دہائیاں گزرنے کے بعد کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ قدرتِ الٰہی نے اس شر سے خیر برآمد کیا – نئے قائم ہونے والے ادارہ (دار العلوم وقف) نے ترقی کی منازل طے کرنی شروع کیں – مولانا محمد سالم قاسمی رحمہ اللہ نے نئے ادارہ کی کمان سنبھالی – 2014 سے ان کے صاحب زادے مولانا محمد سفيان قاسمی اس کے مہتمم ہیں – آج حال یہ ہے کہ دونوں ادارے متّصل قائم ہیں اور ہزاروں طلبۂ علوم نبوت کو سیراب کررہے ہیں –
یہ وفد جناب سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت ، جناب ایس امین الحسن نائب امیر ، ڈاکٹر محی الدین غازی سکریٹری اور راقم سطور پر مشتمل تھا – امیر جماعت کی سربراہی میں ہم لوگ فجر کے بعد روانہ ہوئے – مولانا سفیان قاسمی حفظہ اللہ سے پہلے ہی رابطہ ہوگیا تھا – انھوں نے ناشتہ کی دعوت دے دی تھی – آٹھ بجے ہم دار العلوم پہنچ گئے – مہمان خانہ پہنچ کر ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد مولانا کے دفتر میں حاضری ہوئی – انہیں منتظر پایا – انھوں نے ہمارا پُر تپاک استقبال کیا اور پُرتکلّف ناشتہ کروایا – اس کے بعد ہمارے ساتھ چل کر پورے دار العلوم کی زیارت کروائی –
ماشاء اللہ دار العلوم کی عمارتیں دیکھ کر بہت زیادہ خوشی ہوئی – سب بہت سلیقے اور ترتیب سے تعمیر کی گئی ہیں اور روایتی اور جدید طرز تعمیر کی جامع ہیں – دار القرآن ، دار الحديث ، رواق سالم (ہاسٹل) ، المکتبۃ القاسمیۃ (لائبریری) ، حجۃ الاسلام اکیڈمی ، مطبخ ، اطیب المساجد وغیرہ – مسجد تو بہت کشادہ ، دیدہ زیب اور خوب صورت ہے – اس میں دس ہزار افراد بہ یک وقت نماز ادا کرسکتے ہیں – اس میں بیسمنٹ بھی ہے –
معلوم ہوا کہ مولانا احمد خضر شاہ حفظہ اللہ (حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے پوتے ) کا درسِ حدیث چل رہا ہے – ہم نے کچھ دیر اس میں شریک ہونے کی خواہش کی – افسوس کہ وہاں پہنچے تو درس ختم ہوچکا تھا – مولانا بہت محبت سے ملے – تعارف ہوا تو یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ سوشل میڈیا پر میری تحریریں ان کی نظر سے گزرتی رہتی ہیں – دار العلوم کی لائبریری کی ایک خاص بات یہ نظر آئی کہ وہ کتابوں کے جدید اڈیشن سے مزیّن تھی – ہم اپنی چند کتابیں ساتھ لے گئے تھے ، وہ پیش کیں –
حجۃ الاسلام اکیڈمی میں مختصر نشست ہوئی ، جو بہت مفید ، معلوماتی اور خوش گوار رہی – یہیں مولانا اظہار قاسمی اور مولانا نوشاد قاسمی سے ملاقات ہوئی ، جن سے پہلے سے شناسائی تھی – مولانا سفیان صاحب نے بتایا کہ یہاں سے تین مجلات نکلتے ہیں : اردو میں ندائے دار العلوم ، عربی میں وحدۃ الامۃ اور انگریزی میں Vioce of Darul Uloom – یہ مجلات میری نظر سے گزرتے رہے ہیں – خاص طور سے عربی مجلہ بہت معیاری اور تحقیقی مضامین پر مشتمل ہوتا ہے – اکیڈمی میں تصنیف و تحقیق کی تربیت کا بھی انتظام ہے – مولانا مودودی رحمہ اللہ کا ذکر چِھڑ گیا تو سفیان صاحب فرمایا : میں لوگوں سے کہتا ہوں : اگر آپ کو مولانا کی کتاب ‘خلافت و ملوکیت’ سے اختلاف ہے تو اس کا مطالعہ مت کیجیے ، لیکن ان کی دیگر جو کتابیں متفقہ ہیں ، ان میں موجود کسی بات سے علمائے اہل سنت کا اختلاف نہیں ہے اور وہ دین کی اچھی تفہیم و تشریح کرتی ہیں تو ان کا مطالعہ کیوں نہ کیا جائے؟ اور ان سے دوسروں کو کیوں دوٗر رکھا جائے؟! مولانا نے بڑی اچھی بات کہی کہ تحقیق کا مطلب یہ نہیں کہ جو بات پہلے سے معروف ہے اور جسے ہم طے شدہ سمجھتے ہیں اس کے لیے کچھ دلائل فراہم کردیں ، بلکہ تحقیق یہ ہے کہ کسی موضوع کا معروضی انداز میں مطالعہ کیا جائے ، تمام موافق و مخالف دلائل جمع کیے جائیں ، پھر اس سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے اسے بے لاگ لپیٹ پیش کردیا جائے – انھوں نے فرمایا کہ مولانا اظہار کو مولانا مودودی اور جماعت اسلامی پر کام کرنے کو کہا گیا تو تاکید کی گئی کہ مولانا مودودی پر دوسروں نے جو کچھ لکھا ہے اس پر اکتفا کرنے کے بجائے مولانا کے افکار جاننے کے لیے ان کی کتابوں کا براہ راست مطالعہ کیا جائے – مولانا اظہار نے بتایا کہ جماعت اسلامی ہند کے بارے میں میں نے ایک سوال نامہ تیار کیا ، پھر مرکز جماعت میں جاکر اُس وقت کے امیر جماعت مولانا سید جلال الدین عمری اور سکریٹری مولانا محمد رفیق قاسمی سے تفصیلی انٹریو لیے – اس سے میری بہت سی غلط فہمیاں دوٗر ہوئیں اور میں ایسے نتائج تک پہنچا جو مجھے دوسرے مصنفین کی تحریروں میں نہیں ملے – میں نے مولانا اظہار سے خواہش کی کہ آپ کی یہ کتاب جلد از جلد شائع ہونی چاہیے – چلتے ہوئے مولانا نے تمام ارکانِ وفد کو اکیڈمی کی مطبوعات کا ایک ایک سیٹ تحفۃً عنایت فرمایا –
مولانا سفیان صاحب کے صاحب زادے مولانا شکیب قاسمی بڑی ذی علم اور خلیق شخصیت کے مالک ہیں – وہ دار العلوم کے علمی اور انتظامی کاموں میں ان کے دستِ راست بنے ہوئے ہیں – افسوس کہ وہ عمرہ پر گئے ہوئے تھے ، اس لیے ان سے ملاقات نہیں ہوسکی – دار العلوم ہی میں سرِ راہ مولانا عبد الرحمٰن قاسمی سے ملاقات ہوگئی ، جو نگارشات ڈاٹ کام کے نام سے سوشل میڈیا پر بہت ایکٹیو ہیں – وہ فراغت کے بعد یہاں کے شعبۂ انگریزی میں اختصاص کررہے ہیں – مولانا امانت علی قاسمی یہیں استاذ اور مفتی ہیں – انہیں میری آمد کی اطلاع ملی تو فون کیا اور ملاقات کی ، جب کہ ہم دار العلوم سے باہر آچکے تھے –
مجھے محسوس ہوا کہ مجھ سے اور جماعت سے محبت کرنے والے ہر طبقے میں اور ہر جگہ موجود ہیں ، کوتاہی ہماری ہے کہ ہم اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں اور دوسروں سے رابطہ کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں –