Home تجزیہ دارالعلوم دیوبند کو نوٹس کیوں؟:شکیل رشید

دارالعلوم دیوبند کو نوٹس کیوں؟:شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز) 

دارالعلوم دیوبند کو ایک فتویٰ پر نوٹس دیاگیا ہے ۔ نوٹس کا دینا اور دارالعلوم دیوبند تو ایک بہانہ ہے اصل میں ساری مسلم قوم ، اس کے ادارے اور اس کےآثار نشانے پر ہیں ۔ اور ذرا ذرا سی بات پر نوٹس ، پولس ، کارروائی ،تلاشیاں ، سروے اور نہ جانے کیا کیا نہیں کیا جارہا ہے ! جس فتوے پر دارالعلوم دیوبند کو نوٹس جاری کیاگیا ہے وہ پرانا ہے ! کوئی ایک دو یا تین سال نہیں پندرہ سال پُرانا فتویٰ ! فتویٰ ’ غزوۂ ہند‘ سے متعلق ہے۔ صحاح ستہ کی کتاب ’ سنن النسائی‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’ غزوۂ ہند‘ میں مرنے والے عظیم قربانیاں دینے والے ہوں گے ۔‘

مذکورہ حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے۔ اس فتویٰ پر ’ نیشنل کمیشن فارپروٹیکشن آف چائلدرائٹس‘ یعنی بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن نے سہارنپور کی انتظامیہ کو کارروائی کی تحریری ہدایت دی ہے ۔ الزام ہے کہ دارالعلوم دیوبند بچوں کو ملک مخالف تعلیم دے رہا ہے ۔ یہ ایک ایسا الزام ہے جس پر سوائے ہنسنے کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ دارالعلوم دیوبند کی پوری تاریخ لوگوں کے سامنے ہے ، چاہے جنگِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا معاملہ رہا ہو یا ملک کو تقسیم سے محفوظ رکھنے کی کوششیں رہی ہوں ، دارالعلوم دیوبند کے علماء اور فضلا پیش پیش رہے ہیں۔ یہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی کوششیں ہی تھیں کہ مغربی اترپردیش سے بٹوارے میں مسلمان اجڑے نہیں، انہوں نے بڑھ چڑھ کر لوگوں کو سمجھایا کہ بٹوارے کے بعد حالات کیسے اور کس طرح سے ابتر ہوسکتے ہیں ۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں انہیں اور مولانا ابوالکلام آزاد کو تقسیم اور بٹوارے کے خلاف بولتے وقت تنگ کیا گیا ۔ حضرت مدنی دارالعلوم دیوبند ہی کے شیخ الحدیث تھے اور اب اسی دارالعلوم دیوبندپر الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ بچوں کو ملک مخالف تعلیم دے رہا ہے ! اس الزام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں وہ بھگوا دھاری عناصر آگے آگے ہیں جن کے اجداد انگریزوں کے سامنے سرجھکائے کھڑے رہتے تھے ، جو انگیریزوں کی غلامی کو ملک کی آزادی سے بہتر سمجھتے تھے ۔ حکم نامہ سخت کارروائی کا ہے ۔ کیا مطلب ہے سخت کارروائی کا؟کیا دارالعلوم دیوبند پر تالا لگانا ہے ؟ خیر یہ ایک خواب ہے جو کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا ، لیکن اس بہانے دارالعلوم دیوبند علماء اور فضلائے کرام اور سارے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم تیز کی جائے گی اور ان پر دہشت گردی کو فروغ دینے کے الزامات عائد کیے جائیں گے ، بہت ممکن ہے کہ کہا جائے احادیث کی کتابیں پڑھانا بند کردیا جائے ۔ تو کیا یہ سب قبول ہوگا؟

یاد رہے کہ یہ مہم ایک دارالعلوم دیوبندکو ہی نہیں تمام مدارس کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ، اور تمام مسلمانوں کے مدرسے اس سے متاثر ہوں گے ۔ مدرسوں کے ذمے داران کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ، اور دارالعلوم دیوبند کے نوٹس کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔ یہ سوال دریافت کیا جانا ضروری ہے کہ بھلا پندرہ سال پرانے کسی فتویٰ کو کھوج کرسامنے لانے اور اس کی بنیاد پر نوٹس دینے کی ایسی کیا ضرورت پیش آگئی؟ سوال یہ بھی کیا جانا چاہیے کہ کیا گذشتہ پندرہ سالوں کے دوران دارالعلوم دیوبند کے کسی فارغ کو ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث پایا گیاہے ؟ یقیناً اس سوال کا جواب نفی میں ہوگا، لیکن ملک کے دوسرے اداروں سے فارغ نہ جانے کتنے لوگ ملک بیچنے کے الزام میں پکڑے گئے ہیں یا فرار ہیں، ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like