شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس ،آرٹس اینڈ سائنس ،پٹنہ
ابھی اخباروں میںیہ خبر گشت کر رہی ہے کہ ہندستان کے عظیم ادارے دار المصنفین کے ایک سو پانچ سالہ لیتھو پریس کو محض لوہا لکڑ سمجھ کر انتظامیہ نے کوڑا کباڑ والوں سے محض ڈیڑھ لاکھ روپے میں فروخت کر دیا۔خبر کی اشاعت کے بعد شبلی اکادمی کے ڈائرکٹر نے اپنی وضاحت شایع کرائی ہے کہ وہ پریس برسوں سے ازکار رفتہ اور بے مصرف پڑا ہوا تھا۔اُس پریس نے بڑی جگہ بھی گھیر رکھی تھی، اِس لیے اِس شَیِ فضول کو ہٹا دیا گیا۔اُنھوں نے اخبار کی خبروں کو سنسنی خیز اور جذباتیت پر مبنی بتایا۔ یہ بھی یاد رہے کہ صحافیوں نے جب شبلی اکادمی کے ناظم سے یہ دریافت کیا کہ کیا اِس پریس کو فروخت کر دینے کے سلسلے سے اکادمی کے بورڈ یا مجلسِ عاملہ میں کوئی فیصلہ ہوا تھاتو اُنھوںنے بس آپسی صلاح ومشوروں کا حوالہ دیا اور کسی باضابطہ میٹنگ سے انکار کیا۔
۱۷ ۔۱۹۱۶ء میں سیّد سلیمان ندوی کی کوششوں سے جرمنی سے لیتھو گرافک پریس کی خریداری ہوئی تھی۔اُس دَور کے خطوط سے بڑی آسانی کے ساتھ یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دار المصنفین کے لیے وہ پریس کس قدر اہم رہا ہوگا۔اُس دَور کاوہ جدید تر چھپائی کا ذریعہ تھا اور بے حد مہنگا ہونے کے باوجود اُسے منگوانے میں جو مشقّتیں ہوئی ہوں گی، اُس کا اندازہ کیاجا سکتا ہے۔ مقصد ایک تھا کہ دار المصنفین اپنے مقاصِد کے حصول میں کسی رُکاوٹ سے دو چار نہ ہو۔اُسی پریس کی وجہ سے دار المصنفین سے ایسی یادگار کتابیں شایع ہوئیںجن کی وجہ سے ہر شخص یہ مانتا ہے کہ شبلی نعمانی کے خوابوں کے ایک ایک ذرّے کو اُن کے شاگرد سیّد سلیمان ندوی نے تعبیرات بہم پہنچائیں۔رفتہ رفتہ ایک جماعت کھڑی ہوتی گئی اور دار المصنفین اپنی علمی ، تہذیبی و ثقافتی اور قومی خدمات کی وجہ سے توجّہ کا مرکز بنتا گیا۔ یہ بات یاد رہے کہ دار المصنفین شبلی نعمانی کا صرف ایک تصوّر تھا۔ وہ جلد سے جلد اِس کے تعمیراتی کاموں کے آغاز کے لیے بھی کوشاں تھے۔ مگر افسوس کہ زندگی نے وفا نہیں کی۔ عالمِ مرض میں ہی اُنھوں نے جو وصیت لکھائی، اُس میں یہ ہدایت تھی کہ اُن کی وفات کے بعد سیرۃ النبی کا سارا مواد سیّد سلیمان ندوی کو سپرد کر دیا جائے اور وہ اُس کی تکمیل کریں۔استاد کی بیماری کا ٹیلی گرام سیّد سلیمان ندوی کو پونا پہنچا جہاں وہ لکچرر ہو چکے تھے۔ وہ بھاگتے ہوئے اعظم گڑھ آئے مگر استاد پر بے ہوشی طاری تھی۔ اُنھیں لوگوں نے وصیت کی اطّلاع دی اور یہ بھی بتایا کہ بزرگ وار آپ کا نام اُسی عالَم میں لے رہے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ۱۹۱۴ء کے نومبر سے ۱۹۴۶ء تک سیّد سلیمان ندوی استاد کے خوابوں کی تکمیل اور اُن میں رنگ بھرنے میں ہمہ تن مصروف رہے۔ دار المصنفین اگر چہ شبلی نعمانی کا تصوّر تھا مگر اُس میں جسم و جان عطا کرنے اور علمی وقار کا مینارۂ نور مرتَّب کرنے کا کام سیّد سلیمان ندوی نے اپنے دوستوں اور دیگر افراد کی مدد سے کیا۔
دارالمصنفین کا سلسلہ نیشنل اسکول سے شروع ہوتا ہے جو بعد میں شبلی کی وفات کے بعد شبلی نیشنل اسکول اور پھر شبلی نیشنل کالج کے طَور پر پھیلتا گیا۔انٹر کالج اور لڑکیوں کے کالج بھی آج وہاں موجود ہیں۔شبلی کی قومیت پرستی اور پھر سیّد سلیمان ندوی کی علمی اور ادبی حیثیت کی وجہ سے شبلی اکادمی جنگِ آزادی کے دَوران قوم پرستوں کا ایک بڑا مرکز بن گئی تھی۔تاریخ شاہد ہے کہ موتی لعل نہرو، محمد علی جناح، جواہر لعل نہرو اور مولانا ابوا لکلام آزادجیسے قائدین جب اُس طرف آتے تووہیں ٹھہرتے تھے۔جس انداز سے وہاں مہمان خانہ بنا تھا،وہ بتاتا ہے کہ اِس معیار کے افراد وہاں قیام کرتے ہوں گے۔سیرۃ النبی کی جلدیں اُسی مہمان خانہ کے ایک کمرے کے برامدے پر برسوں میں مکمّل ہوئیںجہاں سیّد سلیمان ندوی خود قیام کرتے تھے۔آموں کے پیڑ، ہرا بھرا موسم اور صفائی کا ایک خاص نظام بھی اُسی دَور سے قائم شدہ ایک سلسلہ ہے۔
ہندستانی حکومت جس طور سے محکمۂ ثقافتِ قدیم اور آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا نے قدیم عمارتوں کی حفاظت کے لیے قوانین بنا رکھے ہیں۔سو برس سے زیادہ کی عمارت کی دیکھ ریکھ اور مرمّت یا جدید کاری کے کاموں کو وہ خود انجام دیتی ہے۔شبلی اکادمی تو اب ایک سو سات سال پرانی ہو چکی ہے۔ مرکزی عمارت ’حامد منزل‘ بھی اب سو برس میں صرف پانچ سال کم کی ہو چکی ہے۔سوالات دو ہیں کہ اسلاف کی وراثتوں کو کیسے بچایا جائے اور جدید کاری کے تقاضوں سے کس طرح تال میل بٹھا کر اِس فریضے کو ادا کیا جائے۔ جن لوگوں کو یو رپ بالخصوص روس، فرانس، اٹلی اور انگلینڈ کے میوزیم دیکھنے کے مواقع حاصل ہوئے ہیں، اُنھیں معلوم ہے کہ ترقی یافتہ اقوام اپنی وراثت کو کس طرح سنبھال کر رکھتی ہیں۔ ٹوٹے ہوئے قلم، پھٹے ہوئے کپڑے اور مسخ شدہ حالت میں پہنچ چکے جوتے اِس طرح سے قرینے سے سجے ہوئے ملتے ہیں کہ طبیعت مچل جاتی ہے۔کمال تو یہ ہے کہ یہ اقوام اپنے دشمنوں اور ظالم جابر حکمرانوں کو بھی اُن کی زندگی کے سارے آثار کے ساتھ محفوظ رکھتی ہے۔ سات آٹھ سو برس کی عمارتیں تو اِس طرح سے بچا کر رکھی گئی ہیں گویااُن کے رہنے والے اب بھی وہاں موجود ہیں۔ بستر سے لے کر کاغذ اور قلم ،اُن کی پڑھی گئی کتابیں اور نہ جانے کتنی یادگاریں سنبھال کر لوگوں نے رکھی ہیں۔
شبلی اکادمی میں فی الوقت جگہ کی کوئی تنگی نہیں ہے۔ سچائی یہ ہے کہ پچھلے چار پانچ برسوں میں ترقی اور رکھ رکھاؤ کے نام پر ایک اِینٹ درست نہ ہو سکی۔صد سالہ تقریبات کے سلسلے سے اشتیاق احمد ظلی نے اپنی ڈائرکٹر شپ کے زمانے میں مطبوعات کی جو جدید کاری کی اور نئے رنگ و آہنگ سے تقریبات کا جو سلسلہ شروع کیا، اب تو ایسا لگتا ہے کہ اُس پر ایک فل اسٹاپ لگ گیا ہے۔نئی کتابوں کی اشاعت اور ادارے کی جدید کاری یا مالی استحکام بخشنے کے معاملات بھی التوا میں ہی پڑے ہوئے ہیں۔ایسی صورتِ حال میں اُس تاریخی پریس کو محفوظ نہ رکھنے کا فیصلہ وراثتوں کی حفاظتوں کے تئیں غیر حسّاس اور مجرمانہ فیصلہ ہے۔ اگرزنگ آلودہ مشین کی ہزار دو ہزار روپے خرچ کرکے صاف صفائی کرنے کی بھی استطاعت کار پردازوںمیں نہیں تھی تو اُسے ڈیڑھ لاکھ روپے میں بیچ دینے میں اُنھیں کیا حاصل ہو گیا۔ لوگوں کا صاف صاف کہنا ہے کہ اگر دار المصنفین انتظامیہ نے یہ اعلان کیا ہوتا کہ وہ اِس پریس کو اتنی رقم میں بیچنا چاہتے ہیں تو بہت سارے لوگ اتنی رقم میں اِس تاریخی آثار کو خرید کر اسلاف کی نشانی کے طور پر اپنے پاس رکھتے۔انتظامیہ کی یہ دلیل کہ یہ بے مصرف شَے تھی، واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ تاریخی آثار اور اسلاف کی نشانیوں کو کس جذبے اور محبت سے سنبھال کر دل و جان کے صدقے میں رکھناچاہیے۔
دارالمصنفین میں جب سے غیر رہائشی ڈائرکٹرس کا سلسلہ قائم ہوا ہے، تب سے کچھ مسائل بڑھے ہیں۔اشتیاق احمد ظلی صاحب علی گڑھ سے دَوڑ دَوڑ کر اعظم گڑھ پہنچتے رہے اور کم وبیش رہائشی ڈائرکٹر کی طرح خدمات انجام دیتے رہے۔ مگر بڑھتی ہوئی عمر اور صحت کی مشکلات نے اُنھیں ڈائرکٹر شپ سے الگ ہونے کے لیے مجبور کیا۔مجھے یاد آتا ہے کہ صباح الدین عبد الرحمان جب دارالمصنفین کے ڈائرکٹر بنائے گئے، اُس وقت وہ پٹنہ یونی ور سٹی میں لکچرر ہو چکے تھے۔ مگر وہ اپنی ملازمت چھوڑ کر دار المصنفین کچھ اِس طرح سے پہنچے کہ وہیں وطن سے دُور شبلی نعمانی کے سایے میں مدفون ہوئے۔دارالمصنفین جس انداز کا قومی ادارہ ہے اور جس طرح اُس کی تاریخی خدمات رہی ہیں، اُس کی مجلسِ عاملہ اور اُس کے ارکان کے انتخاب سے لے کر ڈائرکٹر کے بنانے تک کے سارے امور سب کے سامنے آئیں تو اُس ادارے کو مضبوطی ہی ملے گی۔ یہ ادارہ رہ رہ کر لڑکھڑاتا ہوا اور مالی پریشانیوں میں اِس وجہ سے بھی مبتلارہا ہے کیوں کہ اِس کا ادارہ جاتی قومی کرداراور جمہوری مزاج بہت برسوں سے کمزرو معلوم ہو رہا ہے۔یہ بھی ایک ضروری عمل ہوگا کہ پورے ملک کے نمایندہ افراد ہر صوبے سے کم از کم ایک اساسی رکن اِس کی مجلسِ عامہ میں شامل ہوں۔ اُسی انداز کے لوگ چنے جائیں جنھوںنے شبلی نعمانی اور سیّد سلیمان ندوی کی علمی وراثت کو آگے بڑھانے میں دل چسپی لی ہو ۔ ضرورت پڑے تو اِس ادارے کے دستور الاعمل میں تبدیلی کر کے موجودہ دَور کے تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا کر کے کامیابی حاصل کی جائے۔اعظم گڑھ اور اُس کے اطراف کے علاوہ صوبۂ بہار کے سیکڑوں اور ہزاروں ایسے لوگ ہیں جنھوں نے خاص طور سے اِس ادارے کو اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے۔اِس کی تاریخ اور ہر ذرّے کی حفاظت کے لیے خوابِ غفلت سے باہر آنا چاہیے۔ اب بھی جس پریس کو فروخت کیا گیا ہے، اُسے پھر سے حاصل کر کے اپنی تاریخ کوبچانے کی اور اپنی غلطی کو درست کرنے کی موجودہ انتظامیہ کو کوشش کرنی چاہیے۔