سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر آج کل دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ کو ہدف تنقید بنانے اور اس کی شبیہ کو داغ دار بنانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے پیش نظر یہ اطلاعات میڈیا کو فراہم کی جارہی ہیں۔ اکیڈمی میں تین پریس تھے جن میں ایک منی آفسیٹ پریس ہے جس پر کافی سالوں سے طباعت بشمول ’’معارف ‘‘ کا سارا کام ہو رہا ہے۔ دو ایک صدی پرانے لیتھو پرنٹنگ پریس برسوں سے بیکار پڑے ہوئے تھے کیونکہ آفسیٹ طباعت کے آجانے کے بعد لیتھو ٹکنالوجی برسوں پہلے متروک ہوچکی ہے۔
جس پرنٹنگ پریس پر سیرت النبیؐ چھپی تھی اُسے یاد گار کے طور پر محفوظ کر لیا گیا ہے اور تیسری بیکار مشین کو فروخت کر دیا گیا کیونکہ اس کا کوئی مصرف نہیں تھا اور وہ مشین صرف زنگ کھا رہی تھی۔ اس بیکار مشین کوفروخت کرنے کا عمل نائب ناظم، مقامی ممبران مجلس انتظامیہ کی صواب دید اور ناظم کے فیصلے سے ہوا تھا۔ اس کو بہانہ بناکر اکیڈمی کو بدنام کرنے اور قوم کے لوگوں کے سامنے ذمے داران اکیڈمی کی غلط تصویر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ جس پریس کی تصویر چھاپ کر لوگوں کو گمراہ کیا جارہا ہے وہ اب بھی اکیڈمی میں موجود اور محفوظ ہے۔
اس مہم کی پشت پر ایک مقامی گروہ ہے جو اکیڈمی کی منفی تصویر پیش کرنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے تاکہ اعظم گڑھ کے بعض دوسرے اداروں کی طرح شبلی اکیڈمی میں بھی طالع آزما مقامی عناصر گھس کر اس کو اکھاڑا بنادیں۔ اس طرح کی کوششوں کو اکیڈمی نے برسوں سے ناکام کیا ہے کیونکہ اس سے سکون کی وہ فضا درہم برہم ہوجائے گی جس کی وجہ سےا کیڈمی میں علمی وتصنیفی کام مستقل ہو پارہا ہے۔ اکیڈمی نے خود کو ہمیشہ مقامی سیاست سے بالا تر رکھا ہے۔
بعض حلقوں کی طرف سے یہ افواہ بھی پھیلائی جا رہی ہے کہ ادھر ایک سال سے اکیڈمی سے کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی ہے۔ اِدھر ایک سال میں جو کتابیں شائع ہوئی ہیں اور جو کتابیں پریس میں جانے کے لئے تیار ہیں ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے جس سے آپ کو اِس افواہ کی حقیقت کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ مندرجہ ذیل کتابیں ایک سال کے اندر شائع ہوئی ہیں:
(۱) مرزا دبیر کی شاعری (۲) مسلم ایجوکیشنل کانفرنس میں علامہ شبلی کا حصہ (۳) دار المصنفین کے معمار (۴) خطبات شبلی (نوبازیافت) (۵)مکتوبات شبلی (اضافہ شدہ ایڈیشن) ، (۶) تاریخ فقہ اسلامی (نیا ایڈیشن) (۷) خلفائے راشدین (نیا ایڈیشن)۔
اس کے علاوہ ’’ الکلام‘‘ اور ’’سیرت النبیؐ ‘‘ کا نیا ایڈیشن پریس میں ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سات اجزا پر مشتمل سیرت النبیؐ کی طباعت پر تقریبا دس لاکھ روپئے خرچ ہوں گے۔ اس کے علاوہ بہت سی درسی کتب اور کچھ دیگر کتابیں بھی اکیڈمی کے معارف پریس سے چھپی ہیں۔ معارف کو بھی بین الاقوامی معیار پر لانے کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں۔
ان کتابوں کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب پریس میں جانے کے لئے تیار ہیں اور سرمائے کا انتظام ہوتے ہی انھیں پریس میں دے دیا جائے گا:
(۱)مصادر سیرت (۲) وفیات مولانا ضیاء الدین اصلاحی (۳) مکاتیب سید سلیمان ندوی حصہ دوم (۴) روایات سیرت نبویؐ (۵) تاریخ صحف سماوی۔
پچھلے چند سالوں کے اندر اکیڈمی کے کیمپس کی مسجد کی عمدہ توسیع و تزیین ہوئی ہے اور برے مالی حالات کے باوجود پورے کیمپس کی صفائی ستھرائی کا اہتمام جاری ہے۔اکیڈمی کے ملازمین کے لئے چھ (۶) رہائشی فلیٹس کی تعمیر کا کام بھی شروع ہو گیا ہے۔اکیڈمی کی مدد سے اور اسی کے کیمپس میں بہت جلد ایک سول سروس اور دوسرے مسابقتی امتحانات کا کوچنگ سنٹر شروع ہو رہا ہے۔
۱۰۷ برسوں کے بعد نئے قوانین کے مطابق اب اکیڈمی کا نیا دستور رجسٹرڈ کرالیا گیا ہے جس میں مزید نمائندگی کی گنجائش رکھی گئی ہے ، لیکن یہ بات واضح طور پر ملحوظ رکھی جائے گی کہ اکیڈمی کو مقامی سیاست کا اکھاڑہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ اسی احتیاط کی وجہ سے ایک صدی سے یہ ادارہ قائم و دائم ہے۔ بعض مقامی لوگوں نے جس طرح کچھ دوسرے مقامی اداروں کو اکھاڑہ بنا رکھا ہے ، یہی صورت حال وہ اکیڈمی میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کو اس کا موقع اب تک نہیں دیا گیا ہے اور ان شاء اللہ مستقبل میں بھی نہیں دیا جائے گا۔
یہ بات بھی قارئین کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسی ایک سال کے عرصے میں معارف کارپَس فنڈ میں تقریبا تیس لاکھ روپیے کی خطیر رقم بطور عطیہ حاصل کی گئی ہے اور سیرت النبیؐ کی طباعت کے لئے بھی دس لاکھ روپے کا عطیہ پچھلے ماہ حاصل کیا گیا ہے۔اکیڈمی کے ذمے داران اور اراکین اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ بے سرو سامانی کے عالم میں بھی اکیڈمی کی ترقی کے لئے اُس نے کام کرنے کا حوصلہ اور موقع بخشا۔