درودِ پاک کا چوگرد حصار کھینچوں گا
گنہ کا جسم سے یوں اختیار کھینچوں گا
نہ ایسے نکلے گا کانٹا غزل کا سینے سے
چراغِ نعت جلا کر یہ خار کھینچوں گا
پڑھوں گا نعت جو کوہِ حرا کے سامنے میں
وہ مجھ کو کھینچے گا میں کوہسار کھینچوں گا
فضائے طیبہ میں لوں گا میں زور زور سے سانس
رگوں میں اپنی وہاں کا غبار کھینچوں گا
تمام شہر سنے گا اَجِیبُ کی آواز
ورائے سدرہ کچھ ایسے پکار کھینچوں گا
اٹک ہی جائے گی طیبہ میں روح کی چادر
جسے پلٹتے ہوئے تار تار کھینچوں گا
صفائی کی بڑی محنت سے صفحۂ دل کی
اب اس پہ نور کے نقش و نگار کھینچوں گا
شفا ملے گی مدینے پہنچ کے ہی مجھ کو
وہاں تلک میں یہ قلبِ فگار کھینچوں گا
ریا نکالوں گا اعمالِ صالحہ سے قمر
میں اپنی جیت کے اندر سے ہار کھینچوں گا