Home نقدوتبصرہ ’دربھنگہ ٹائمز‘ کا وقیع ’ یادِ رفتگاں نمبر‘ ـ شکیل رشید

’دربھنگہ ٹائمز‘ کا وقیع ’ یادِ رفتگاں نمبر‘ ـ شکیل رشید

by قندیل

وہ معاشرے جو اپنے مرحومین ، دانشوروں اور ادیبوں و فنکاروں کو فراموش کر دیتے ہیں ، خود غرض اور بے حس ہوتے ہیں ۔ اردو دنیا کم ازکم ایسی نہیں لگتی ۔ سال ڈیڑھ سال کے دوران ، کورونا کی وبامیں ، اردو دنیا نےبہتوں کو کھویا ہے ، جن میں دانشوروں و فنکاروں کےساتھ وہ شخصیات بھی تھیں ، جن پر اردو زبان و ادب کو تو ناز تھا ہی ، عالمی سطح پر بھی جنہیں عزت و احترام حاصل تھا ۔ بچھڑنے والوں میں وہ شاعر و ادیب ، نقاد و محقق بھی تھے ، جو بھلے ہی عالمی سطح پر معروف نہ رہے ہوں ، لیکن اپنی تحریروں اور اپنی تخلیقات سے انہوں نے اردو زبان و ادب کا دامن مالا مال کیا ہے ، اور اس قدر مالا مال کیا ہے کہ اردو زبان و ادب کی تاریخ ، ان کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گی ۔ یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ اردو دنیا نے اپنے بچھْڑنے والوں کو بھلایا نہیں ہے ، کم ازکم ابھی تو نہیں ۔ جانے والوں کو ہم یاد رکھے ہوئے ہیں ، ادبی رسائل ان پراپنے خصوصی نمبر شائع کر رہے ہیں ، کبھی کسی ایک شخصیت پر ، اور کبھی شخصیات پر ۔ حال ہی میں ایک خاص شمارہ سہ ماہی ’’ دربھنگہ ٹائمز ‘‘ کا آیا ہے ،’’ یادِ رفتگاں ‘‘۔ ڈاکٹر منصور خوشتر ، ’’ دربھنگہ ٹائمز ‘‘ کے مدیر ، ایک اچھےشاعر ، بہترین نقاد اورحالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنے والے صحافی ہیں ، ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں ،’’ بہار میں بچوں کا ادب : آج کل‘‘، ’’ اکیسویں صدی میں اردو غزل ‘‘، اور ’’ اردو ناول کی پیش رفت ‘‘ وغیرہ ۔ ان کی ادارات میں ’’ دربھنگہ ٹائمز ‘‘ نے ادبی صحافت میں اپنی ایک نئی پہچان بنائی ہے ، ایک نئے طرز اور اندازکی طرح ڈالی ہے ، بڑے ناموں کےساتھ اس نے ، نئے لکھنے والوں کو بھی اپنی بزم میں شامل رکھا ہے ۔ نئے شمارے کی ضخامت ۶۲۵ صفحات کی ہے ، اور ان صفحات میں جانے والوں کی یادیں ۱۳گوشوں ، قطعاتِ تاریخ ، منظومات اور مضامین کی صورت میں ، بڑی ہی محنت سےجمع کر دی گئی ہیں ۔ ڈاکٹر منصور خوشتر نے اپنے اداریے ’’ کہنے کی بات‘‘ میں سچ ہی لکھا ہے :’’ جس برق رفتاری سے اس عالمی وبا نے لاکھوں لوگوں کو نگلا ہے اس کا ہم سب نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ۔ اس وبانے جہاں دنیا میں سبھی شعبہ فکر کے لوگوں کو اپنا نشانہ بنایا ہےوہیں اردو زبان و ادب پر اس وبا کا زیادہ ہی اثر دکھائی دیا اور درجنوں ادیب و شاعر اس کی وجہ سے مرگ ناگہانی کا شکار ہوگئے ۔‘‘وہ اپنا دردان لفظوں میں بتاتے ہیں :’’ کسی بھی ادبی رسالہ کے مدیر اور اس سے وابستہ احباب کے لیے یہ بڑا صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے جب اسے’ یادِ رفتگاں نمبر ‘ کا اعلان کرنا پڑتا ہے ۔ خاص کر کووڈ -۱۹کے دوران جب زندگی کے رنگ بے رنگ ہوتے جا رہے ہیں ، اور عالمی وباکی اس پہلی اور دوسری لہر نے ادب و فنون کی دنیا کو بہت تیزی سے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔میرا نوجوان ، ہر دلعزیزبرادرِ نسبتی اور والدہ رمضان کے مبارک عشرہ میں ایک ہی دن ہم سب کو سسکتا چھوڑ گئے ۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ۔ آمین ۔‘‘ اس شمارے کا انتساب ’’ میرے نسبتی بھائی اشتیاق ہاشمی اورخوش دامن راشدہ ہاشمی کے نام ‘‘ ہے ۔
پروفیسر طرزی کے ،۱۴ مرحومین پرقطعات تاریخِ رحلت شمارے میں شامل ہیں ۔ یہ قطعات دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے لگتے ہیں ، ان میں تاریخِ وفات کے ساتھ مرحومین کی صفات بھی آ گئی ہیں ۔vایک مثال مرحوم گلزار دہلوی کے قطعہ سے ملاحظہ کریں؎
دنیا سے لیجے عاشقِ اردو ہی اک چلا (۹۴۰)
جاتے رہے جہاں سے جو گلزار دہلوی (+۱۰۸۰ = ۲۰۲۰ء)
’ بابِ اضطرار ‘کے تحت دو مضامین ہیں ، ایک مشہور مفکر و دانشور یووال نوح ہریری کا مضمون ، مشہور ادیب و مترجم سعید نقوی کے ذریعے اردو روپ میں ڈھالا گیا ، کورونا کی وبا پر لکھا گیا اور ساری دنیا میں پڑھا گیا ’’کورونا وائرس کے بعد کی دنیا ‘‘ ۔ ہریری کا کہنا ہے کہ ہم سب بے بنیاد سازش کے نظریوں اور خود غرض سائنس دانوں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں ، صحیح انتخاب کریں ورنہ ہم اپنی آزادیوں کو کھو بیٹھیں گے ، امریکہ عالمی رہنما کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس نے ایک خلا چھوڑ دیا ہے ، اب ہمیں اگر مستقبل میں تباہی سے بچنا ہے تو عدمِ اعتماد کے راستے سے ہٹ کر عالمی اتحاد کا راستہ اپنا لیں ۔ یہ ایک بہترین مضمون ہے ، ترجمہ بھی شاندارہے ۔ ایک مضمون علی احمد فاطمی کا ’’ ادب سماج اور سماجی بحران ‘‘ کے عنوان سے ہے ، اس میں انہوں نے بحران اور وبا کے ایام میں ، مثالوں کے ذریعے ’’اچھے ادب کی تخلیق ‘‘ پر بحث کی ہے ، یہ ایک وقیع مضمون ہے ۔ عبدالصمد ، احتشام ارشد نظامی ، خواجہ کوثر حیات اور ڈاکٹر ساجد علی قادری نے اپنے مضامین میں جانے والوں کو یاد کیا ہے ، ان کی یادوں میں درد و الم کے ساتھ بچھڑنے والوں سے ان کی محبت کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ’ بابِ ملال ‘ کے تحت پہلا گوشہ مرحوم شمس الرحمن فاروقی پر ہے ، اس گوشہ کے لکھنے والے محمود الحسن ، ڈاکٹر شمس کمال انجم اور ڈاکٹر انیس صدیقی ہیں ۔ تینوں ہی مضامین محنت اور محبت سے لکھے گئے ہیں ۔ دوسرا گوشہ مرحوم شمیم حنفی کی شخصیت اور فن پر ہے ، اس کے لکھنے والے ڈاکٹر محمد اشرف کمال ، معصوم مرادآبادی اور محمد معتصم باللہ ہیں ۔bآخرالذکر نے اپنے مضمون میں مرحوم پروفیسر کا بھرپور تعارف کرایا ہے ، معصوم مرادآبادی کا مضمون مرحوم فاروقی صاحب کی یادوں پر مشتمل ہے ، اور پہلے مضمون میں مرحوم کو ایک نقاد کی حیثیت سے دیکھا اور پرکھا گیا ہے ، یہ اچھے مضامین ہیں ۔ مرحوم مشرف عالم ذوقی ، مناظر عاشق ہرگانوی ، ابوالکلام قاسمی ، شوکت حیات ، رتن سنگھ ، مظفر حنفی ، مجتبیٰ حسین ، راحت اندوری ، ڈاکٹر شین اختر ، ترنم ریاض اور غلام مرتضیٰ راہی پر بھرپور گوشے ہیں ، جو ان بچھڑنے والوں کو یاد دلانے ، ان کی خدمات کا اعتراف کرانے اور آنکھوں میں آنسو لانے میں کامیاب ہیں ۔’ اشکبار دہلیز ‘ کے تحت مہاراشٹرا ، بہار ، جھارکھنڈ ، راجستھان ، چھتیس گڑھ ، دلّی ، پنجاب ، گجرات ، اترپردیش ، مدھیہ پردیش ، مغربی بنگال اور جموں و کشمیر کے مرحومین کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے ۔’ آنکھوں سے بہا کرتی ہے خوشبو جن کی‘ کے تحت بچھڑنے والی ۳۴ شخصیات پر وقیع مضامین ہیں ، ایک مضمون ، حافظ کرناٹکی کا عظیم فنکار دلیپ کمار پر ہے ۔ تعزیتی منظومات بھی ہیں جنہیں پڑھ کر ایک یاس کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ ’’ دربھنگہ ٹائمز‘‘ کے اس شمارے کے لیے ٖاکٹر منصور خوشتر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ، وہ اس شمارہ کے لیے ، بجا طور پر ، مبارک بادکے مستحق ہیں ۔ یہ شمارہ ۵۰۰ روپیے کا ہے ، اسے منگوانے کے لیے موبائل نمبرہے 9234772764۔جو مرحومین کو یاد رکھنا چاہتے ہیں وہ اسے منگوانے کی کوشش کریں۔

You may also like

Leave a Comment