Home اسلامیات دارِ ارقم ماڈل کو اختیار کرنا وقت کی ضرورت – محمد اعظم ندوی

دارِ ارقم ماڈل کو اختیار کرنا وقت کی ضرورت – محمد اعظم ندوی

by قندیل

 

 [email protected]  

 

انسانی زندگی میں بسا اوقات انفرای یا اجتماعی سطح پر احتیاط اور راز داری کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے ، اسے انسانی دانشمندی اوردور اندیشی کی علامت سمجھا جاتا ہے ، خصوصاً جن کاموں کو پائیدار اور مستحکم بنانا ہو اور جن کے وسیع تر اثرات کو ذہنوں میں رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی گئی ہو ، ان میں ایک ایک قدم سنبھال کر رکھنا ہوتا ہے ، آبگینہ کی طرح جس کو ایک ہلکی سی ٹھیس بھی عیب دار بناسکتی ہے ، کسی بڑے کام کی ابتدا بڑے نازک مرحلہ سے ہوتی ہے ، اس میں جوش سے زیادہ ہوش اور ہنگامہ سے زیادہ سوج بوجھ کی روش کارگر ہوتی ہے ، شریعت میں جہاں بہت سے مقامات پر اعلان اور اظہار کو پسند کیا گیا ہے ، وہیں اخفا اور راز داری کی بھی ہدایت دی گئی ہے ، حضور اکرمﷺ کی زندگی میں اس کے بے شمار نمونے ملتے ہیں ، حضورﷺنے راز داری کی تعلیم بھی دی اور عملی طور پر اسے برت کر بھی دکھایا ، ہجرت کے سفر میں اورجہاد کے مختلف مواقع پر آپ ﷺنے بعض چیزوں کو راز رکھا ،اور اخفائے راز کا عملی نمونہ پیش کیا، نبوت کے ابتدائی تین سالوں میں آپﷺ نے کُھل کر دعوت دینے کے بجائے راز داری کا طریقہ اختیارکیا ، اور اس کے لیے آپﷺ نے حضرتِ ارقم بن ابی ارقمؓ کے گھر کا انتخاب فرمایا ، حضرت ارقم بن ابی ارقمؓ قریشی مخزومی نوجوان صحابی تھے ، سولہ سال ان کی عمر تھی ، بالکل ابتدا میں اسلام قبول کیا ،سابقین اولین میں شمار ہے، حضور اکرمﷺ نے بڑی عمر کے صحابہ کے گھروں کو چھوڑ کر اس نو عمر صحابی کے گھر کا انتخاب کیوں فرمایا ؟ اس کے پیچھے بھی دعوتی اور تحریکی حکمت عملی کارفرما تھی۔

حضرتِ ارقم بن ابی الارقمؓ کے گھر کا انتخاب اس وقت ہوا جب تیس سے زیادہ نفوس قدسیہ حلقہ بگوش اسلام ہوچکے تھے ، آپﷺ نے یہ ضروری خیال فرمایا کہ مسلمانوں کی اس مختصر سی جماعت کے ساتھ دشمنوں کی نگاہوں سے دور ملاقاتیں ہوتی رہیں ؛ تاکہ گرد وپیش کے حالات سے پوری آگاہی رہے اور اسلام کے سایہ میں آنے والے مخلصین کو دین کی باتیں بھی سکھائی جائیں، اور ان کو ایک بڑے مقصد کے لیے تیار کیا جائے،رسول اللہ حضرتِ ارقم کا یہ گھر کوہِ صفا کے بالکل آخری کنارے پر تھا ، دشمنوں کی مجلسوں سے بالکل الگ تھلگ ، بازار کے شور ہنگامے سے بہت دور ، قریش کے تعاقب سے دور دراز ایک اطمینان بخش اور نشاط افزا مقام پر،اس کاایک فائدہ تو یہ تھا کہ یہاں واقف کار مسلمانوں کا پہنچنا کوئی زیادہ مشکل نہیں تھا ،دوسری طرف قریش کی مجلسوں سے اور بطور خاص دار الندوہ سے دور رہنے کا فائدہ یہ تھا کہ دشمنوں سے اپنی باتوں کو چھپانے کے لیے الگ سے کسی اہتمام کی ضرروت نہیں تھی ، دوسرے یہ کہ یہ گھر صفا پہاڑی کے دامن اور اوٹ میں تھا ، اگر یہ پہاڑ کی بلندی پر ہوتا تو اس میں راز داری مشکل تھی ، اور قریش کے لیے اس کا پتہ پالینا آسان ہوتا۔

اس گھر میں مسلمان آپس میں کیا مشورہ کرتے تھے ، اسلام کے دشمنوں کو اس کی کانوں کان خبر نہ تھی ؛ چوںکہ یہاں قریب میں کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں لوگوں کو آنا جانا پڑتا ہو ، تیسرے یہ کہ ارقم ابھی کوئی مشہور مسلمان نہ تھے ، قریش کو یہ شک بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ مسلمانوں کی میٹنگ سولہ سترہ سال کے نوجوان کے گھر ہوتی ہوگی ، کبھی قریش کو مسلمانوں کی تلاش بھی ہوئی تو اِن نو عمر صحابہ کے گھروں کی طرف ان کا دھیان بھی نہیں گیا ، ان کے سان گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ گھر مسلمانوں کے لیے مشورہ گاہ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے ، مزید براں ارقم کا تعلق بنی مخزوم سے تھا ، جس کی بنی ہاشم سے ہمیشہ لڑائی جاری رہتی تھی ، دشمنوں کا ذہن اس طرف گیا ہی نہیں کہ مسلمانوں کا اجتماع خانوادۂ نبوت کے دشمنوں کے یہاں ہوتا ہوگا، اگر ارقم کا اسلام مشہور ہوتا تو ان کے گھر میں مسلمانوں کا اجتماع ہرگز نہ ہوتا ، چوںکہ گویا یہ دشمنوں کے علاقہ میں ان کے خلاف مشورہ کرنے کے مترادف تھا،اور دشمن کو اپنی راہ دکھاناکوئی دانشمندی نہیں ۔

اس گھر کے انتخاب میں آخری درجہ راز داری کا اہتمام کیا گیا تھا ، قریش کو زیادہ سے زیادہ شک تھا کہ مسلمانوں کا اجتماع صفا کے قریب کسی گھر میں ہوتا ہے ، اس خیال کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ﷺ جیسے دور رس قائد نے جب اپنے اسلام کا اعلان کرنا چاہا تو ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس وقت حضور اکرم ﷺ کہاں ہیں ، اگر انہیں معلوم ہوتا تو ان کے بارے میں پوچھنا نہ پڑتا ؛ بلکہ سیدھے وہاں پہونچ جاتے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے سوا اس گھر کے بارے میں کسی کوکوئی خبر نہ تھی ، صحابہؓ نے بھی اس مقام کو راز میں رکھنے کا آخری درجہ اہتمام کیا تھا ، یہاں تک کہ وہاںاحتیاط اور رازداری سے آتے اورجاتے تھے ۔

یہ احتیاط کی ایسی اعلیٰ مثال ہے جو عظیم قائد کی نگرانی کے بغیر اتنے منظم طور پر روبہ عمل نہیں لائی جاسکتی تھی ،اور سب لوگ اس پر عمل پیرا تھے، اس کی تائید دو واقعات سے ہوتی ہے، ایک توجب حضرتِ ابو ذر غفاریؓ اسلام لانے کے ارادے سے آئے تھے اور اس موقع سے حضرت علیؓسے ان کی ملاقات ہوئی تھی ، حضرت علیؓ جب ان کو حضور اکرمﷺ سے ملاقات کے لیے دارِ ارقم لے جانے لگے تو راستہ میں ان سے کہا کہ دیکھو میں اگر تم پر کوئی خطرہ محسوس کروںگا تو میں دیوار کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوجاؤںگا ، گویا میں اپنے جوتے درست کررہا ہوں اور بعض روایتوں میں ہے گویا میں پانی بہا رہاہو، یعنی ضرورت پوری کررہا ہوں ، اور تم آگے بڑھتے رہنا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دارِ ارقم آنے جانے کا سلسلہ حد درجہ احتیاط کے ساتھ تھا ، دوسرا نمونہ سیدنا ابو بکرؓ کا ہے کہ جب مشرکین نے ان پر سخت ترین حملہ کرکے ان کو لہو لہان کردیا تھا، اور ان کی والدہ حضرت اُم الخیرؓ اور حضرت عمرؓ کی ہمشیرہ اُم جمیل بنت خطابؓ ان کو دارِ ارقم لے جانے لگیں تو ابن کثیر کے مطابق ان دونوں خواتین نے ذرا توقف سے کام لیا ، جب قدموں کی آہٹ نہ رہی اور فضا پر سکون ہوگئی تو ان دونوں نے حضرت ابو بکرؓ کو دارِ ارقم لے جاکر حضور اکرم ﷺ سے ملایا (البدایۃ والنہایۃ : ۳؍۳۰)۔

دارِ ارقم کی تعمیر میں بھی ایک عجیب و غریب احتیاط کا تذکرہ ملتا ہے ، اس کے دروازہ میں ایسے چھوٹے سوراخ بنائے گئے تھے کہ باہر آنے والے شخص کو دیکھا جاسکے اور باہر والا شخص اندر کی چیزوں کو نہ دیکھ سکے ، ابن کثیر نے اس کے لیے ’’خَلَل الباب‘‘(دروازہ کے شگاف) کی تعبیر استعمال کی ہے،(البدایۃ والنہایۃ : ۳؍۸۰)بعض لوگوں نے اسے اُس زمانہ کا Door Viewer (دروازے کے اندر سے باہر دیکھنے کا محدب شیشہ)یاMagic Mirror ’’ جادوئی آئینہ ‘‘قرار دیا ہے، جسے عربی میں ’’العین السحریۃ‘‘ (جادوئی آنکھ) بھی کہتے ہیں،اگر واقعی یہ دوپٹ دروازہ کے بیچ کا عام شگاف نہیں تھا،بلکہ اس کو باضابطہ باہر سے آنے والوں کو اندر آنے سے پہلے ان کو جانچ لینے کے لیے بنایا گیاتھا تو ایک حیرت انگیز بات ہے،اور یہ آخری درجہ احتیاط کو بتاتا ہے، اس زمانہ میں وہ تکنیک استعمال کی گئی تھی جو آج عمدہ مکانوں میں کی جاتی ہے،حضرت عمرؓ کا قصہ یاد ہوگا کہ جب انہوں نے دستک دی تھی تو دروازہ کھولنے سے پہلے ایک صحابی نے دروازہ کے درمیانی روزن سے دیکھ لیا تھاکہ یہ عمر ہیں جو تلوار حمائل کئے ہوئے ہیں اور انہوں نے حضور اکرمﷺ کو اس کی اطلاع دے دی تھی۔

احتیاط کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہنگامی حالات میں حسب حال طریقہ اختیار کیا جائے ؛ چنانچہ حضور اکرمﷺحضرت عمرؓ کی طرف بڑھے تھے تو آپﷺ نے ان کی تلوار کے دستہ اور ان کے دست وبازو کو خوب اچھی طرح پکڑ لیا ؛ چوںکہ اس وقت معلوم نہیں تھا کہ عمر کس ارادے سے آئے ہیں ، جب حضور اکرمﷺ کو چوتھے سال یا پانچویں سال ’’ فاصدع بما تؤمر ‘‘ (الحجر :۹۴)کے ذریعہ کھل کر دعوت کا حکم دیا گیا ، اس سے پہلے تک آپ ﷺ اسی گھر میں پوری راز داری کے ساتھ دعوت کے ضروری امور انجام دیتے رہے ، دارِ ارقم میں صحابہ کی ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا ۔

دارِ ارقم کو ’’دارالإسلام‘‘ کانام دیا گیا تھا(طبقات ابن سعد۳؍۲۴۳)حضرت ارقمؓ نے یہ گھر اپنے بچوں کو دیدیا تھا، بعد میں ’’ دار الخیزران ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا ؛ چوںکہ خلیفہ منصور نے اسے سترہ ہزار درہم میں خرید لیا تھا ، اوربعد میں اپنے بیٹے مہدی کو دے دیا تھا ، اور مہدی نے اپنی اس باندی کو یہ گھر دے دیا جس کا نام خیزران تھا ، اور اس کے دوبیٹے موسی الہادی اور ہارون رشید اسی کے بطن سے تھے ،افسوس کہ بہت سے اسلامی آثار کی طرح ۱۳۹۹ھ میں اس گھر کو بھی منہدم کردیا گیا ، خیزران نے اس گھر میں ایک مسجد بھی بنوائی تھی ، دس سے زیادہ صحابہ یہاں اسلام لائے تھے ، حضرت حمزہؓ بھی وہیں اسلام لائے جن میں سب سے آخر میں حضرت عمرؓ ایمان لائے تھے اور اب مسلمانوں کی تعداد چالیس ہوگئی تھی ، تب جاکرعلانیہ اسلام کی دعوت کا آغاز ہواتھا ۔

حضرتِ ارقم بن ارقمؓ کا نام عبدِ مناف بن اسد تھا ، انہوں نے ہجرت بھی کی ، بدر واحد میں شریک بھی ہوئے ، حضور اکرمﷺ نے ان کے اور عبد اللہ بن انیسؓ کے درمیان مؤاخاۃ کرادی تھی ، حضرت ارقمؓ کی وفات حضرت معاویہؓ کے زمانۂ حکومت (۵۳ یا ۵۵ ھ )میں پچاسی سال کی عمر میں ہوئی،حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے ان کی نمازجنازہ پڑھائی،اور جنت البقیع میںمدفون ہوئے ۔

آج ضرورت ہے ارقم کے گھر سے ملنے والے اسی احتیاط اور دانش مندی کے سبق کو دوہرانے کی،خصوصاً اس ملک میں دشمن اپنوں کے ساتھ بیگانوں کوبھی اپنا بنا کر ایک جھنڈے تلے جمع کرچکا ہے،اور گزشتہ ایک صدی میں جو کام اس نے انتہائی خفیہ منصوبہ بندی سے ہر محاذ پر انجام دیا ہے اس کے نتائج ظاہر ہونے لگے ہیں ،اور جس پودے کی مسلسل آب پاشی کرکے اسے ایک تناور درخت بنایا ہے، آج اس کے پھل توڑ رہا ہے،افسوس کہ ہم اس پر عمل نہیں کرسکے،چلیں!یہ بھی حکمت کی وہ بات ہے جس کا ہمیں بلا تکلف اولین حقدار بتایا گیا ہے شاہے وہ جہاں سے ملے۔

آج بھی اگر ہم نے دانشمندی کا ثبوت دیا،اور اپنی کوششوں کو جامع منصوبہ بندی سے آگے بڑھایا،اور اس حقیقت کو ماننے اور پھیلانے پر متفق ہوگئے کہ اس ملک میں مسلمان سب سے بڑی اکثریت رکھتے ہیں،اور برہمن سب سے چھوٹی اقلیت ہے،اور اس نے غیر ہندؤوں کو ہندو بنارکھا ہے،اور اس طرح اپنی تعداد بڑھا لی ہے تو شاید ہمارے کام کا رخ بدل جائے اور اگلی دو تین دہائیوں میں اجتماعی سطح پر کچھ کامیابی ملے،ورنہ شور مچالیا جائے،اپنی اپنی مارکیٹنگ کرلی جائے،اشتہار بازیوں میں مقابلہ کرلیا جائے،مشترکہ منصوبہ بندی نہیں تو کوئی بڑی تبدیلی رونما ہونا مشکل ہے،یاد رکھیں مکی زندگی کی تمام ترآزمائشوں سے گزرے بغیر مدنی فتوحات کا انتظاربھری دوپہر کا خواب ہے،مکہ کے بغیر مدینہ نہیں، مہاجرین کے بغیر انصار نہیں، ایمان واخلاق،اتحادواتفاق اور نظم وضبط کے بغیر قوت وغلبہ کا تصور نہیں؛اس لیے دار ارقم کا سبق غور سے پڑھا جائے اوراپنے مسائل کووسیع کینوس میں دیکھتے ہوئے ہرایک کو جوڑنے کا جامع لائحۂ عمل بنایا جائے:

نظام مے کدہ ساقی بدلنے کی ضرورت ہے

ہزاروں ہیں صفیں جن میں نہ مے آئی نہ جام آیا

You may also like

Leave a Comment