Home مباحثہ دلت اسلام قبول کرنے کے بعد بھی دلت ؟- حسن عمار

دلت اسلام قبول کرنے کے بعد بھی دلت ؟- حسن عمار

by قندیل

 

20 فروری 2023 بروز پیر کے The Hindu اخبار میں جناب ضیاء السلام صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان :
"A Picture of Islam that is different ”
ہے۔ اس مضمون میں ایک اہم خبر کا ذکر کیا گیا ہے جو شاید ارباب فکر و دانش کی نظروں سے اوجھل رہی اور اسکے متعلق کسی قسم کا کوئی رد عمل بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

خبر یہ ہے کہ نومبر 2022ء میں جمعیت علماء ہند نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی ہے اور اس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ جس طرح ہندوؤں میں ذات اور برادری کے نام پر بعض پچھڑی سمجھی جانے والی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو SC/ST کا درجہ دے کر سرکاری نوکریوں، ایڈمیشن وغیرہ میں ریزرویشن کی سہولت دی جاتی ہے، اسی طرح مسلمانوں کی بھی بعض برادریوں کو اور جو دلت اسلام لے آئیں انکو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی "دلت ” ہی مانا جاے اور انکو ریزرویشن کی سہولت مہیا کی جاے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ایسے مسلمانوں کے لیے جو اصطلاح (Terminology) استعمال کی گئ ہے وہ "دلت مسلمان” ہے۔ علاوہ ازیں جمعیت علمائے ہند کی مجلس مشاورت نے اپنے پینل میں ایک سیٹ بھی "دلت مسلمان” کے لیے ریزرو کی ہے۔
اس خبر کو پڑھنے کے بعد حیرت و تعجب کی انتہا نہ رہی کہ جمعیت کا یہ مطالبہ سراسر غیر اسلامی ہی نہیں بلکہ اسلام کے بنیادی اصولوں اور fundamentals سے متصادم ہے۔ اسلام "تقوی” کے علاوہ کسی اور بنیاد پر انسانوں کو "اعلی” اور "ادنی” کا درجہ دینے کے قطعا خلاف ہے۔ 1400 سال کے طویل عرصے میں ہمیشہ اسلام اور مسلمان کم از کم بنیادی طور پر اس مرض سے محفوظ رہے ہیں۔ ہندوستان اور دنیا کے دیگر قوانین میں اسلام کو ایک "caste less society” کے طور پر دیکھا گیا ہے، اور اسی نظام عدل اجتماعی کی بدولت تاریخ کے مختلف ادوار میں بہت سی دیگر قومیں اجتماعی طور پر اسلام کے سائے تلے پناہ لیتی رہی ہیں، اور انفرادی طور پر تو یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

یہ ایک الگ حقیقت ہے کہ ہندوستان معاشرے میں یہ مرض ہندوانہ اثرات کی بدولت بہت حد تک نہ صرف یہ کہ سرایت کر گیا ہے بلکہ بہت سے فیصلوں میں بہت اہمیت کا حامل ہے اور جمعیت کی جانب سے یہ مطالبہ ہندوستانی معاشرے کے حقائق کو سامنے رکھ کر ہی کیا گیا ہے لیکن مستقبل میں اسکے نتائج نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔

اسکے علاوہ جو لوگ سیاست پر نظر رکھتے ہیں وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ گزشتہ چند دہائیوں میں بعض مسلمان لیڈران نے جس طرح "دلت – مسلم ایکتا ” کے نام پر مظلوموں کو منظم کرنا شروع کیا اور کسی حد تک اس میں کامیاب بھی رہے، اسکے مقابلہ میں بی۔ جے۔ پی۔ نے مسلمانوں کی صفوں میں سیندھ لگانے کے لیے "پسماندہ مسلمان” کی سیاست کرنی شروع کردی، اور وزیراعظم نے باقاعدہ اپنے کیڈر کو ہدایت کی ہے کہ "اسنیہ یاترا ” یعنی "محبت یاترا” کے نام سے بعض برادریوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا جاے۔ ظاہر ہے کہ بھولے بھالے، سیاست کے شاطرانہ داو پیچ سے ناواقف غربت زدہ مسلمانوں کو جب بعض سہولیات و مراعات کے جھوٹے خواب دکھاے جائیں گے تو انکا متاثر ہونا یقینی ہے۔

اس پورے مسئلے میں تکلیف دہ بات "دلت مسلمان ” کی اصطلاح ہے جو استعمال کی جارہی ہے ۔ خدا نہ کرے صرف یہ اصطلاح ہی بہت سے غیر مسلم افراد کو مستقبل میں اسلام قبول نہ کرنے کا ذریعہ بن جائے ۔

ضرورت اس بات ہے کہ سنجیدہ اہل علم حضرات جلد از جلد اس بات کا نوٹس لیں اور مناسب راہ عمل طے کریں، کیوں کہ چند غیر یقینی نوکریوں اور مراعات کی خاطر پورے کے پورے اسلامی نظام کی بنیاد کو کمزور کردینا انتہائی غیر دانشمندانہ عمل ہے۔

You may also like

Leave a Comment